China, America Aur Pakistan Ke Maadni Zakhair
چین، امریکہ اور پاکستان کے معدنی ذخائر

دنیا کی سیاست کی پیچیدہ راہوں میں، جہاں طاقت کے توازن کی بنیاد معاشی مفادات پر رکھی جاتی ہے، لیکن بہت ہی خاموشی سے ایک نئی جنگ چھڑ چکی ہے۔ یہ جنگ نہ تو توپوں کی گھن گرج سے لڑی جا رہی ہے اور نہ ہی میزائلوں کی دھماکہ خیز آوازوں سے، بلکہ یہ ہے معدنیات کی جنگ ہے۔
ایک خاموش مگر شدید مقابلہ جو مستقبل کی ٹیکنالوجیز، معیشتوں اور عسکری برتری کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس جنگ کے مرکزی کردار ہیں عالمی سپر پاورز چین اور امریکہ اور اس کا میدانِ زار ہے پاکستان کا وسیع و عریض معدنی ذخائر سے مالا مال خطہ۔ پاکستان، جو اپنے قدرتی وسائل کی بدولت ایک ممکنہ معاشی انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے، اب اس جیو پولیٹیکل کشمکش میں پھنسا نظر آتا ہے جہاں ہر قدم احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔
پاکستان کے معدنی ذخائر کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسی کہانی ہے جو خواب اور حقیقت کے سنگم پر کھڑی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں، خاص طور پر بلوچستان اور گلگت بلتستان کے پہاڈی اور صحرائی علاقے جیسے ریکو ڈک میں، تانبے، سونے، لیتھیم، نایاب ارضی عناصر (ریئر ارتھس) اور دیگر اہم معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت کا اندازہ چھ ٹریلین ڈالرز تک لگایا جاتا ہے۔ یہ معدنیات جدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر سیمی کنڈکٹرز، فوجی ہتھیاروں اور قابل تجدید توانائی کے آلات تک، سب انہی پر منحصر ہیں۔ مگر افسوس کہ یہ خزانے اب تک غیر استعمال شدہ پڑے ہیں، کیونکہ ان کی تلاش، نکالنے اور پروسیسنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو پاکستان کے پاس محدود ہے۔
اس منظر میں چین کا کردار ایک پرانے اور وفادار ساتھی کی طرح ہے۔ 2013 سے شروع ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) نے پاکستان کی معیشت کو نئی جہت دی ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین نے تقریباً 25 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے، جو بنیادی ڈھانچے، توانائی کے مراکز اور خصوصی اقتصادی زونز پر مشتمل ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک جیسے منصوبوں میں چینی کمپنیاں تانبے اور سونے کی کان کنی میں ملوث ہیں اور یہ سرمایہ کاری پاکستان کی معاشی ترقی کا اہم ستون بن چکی ہے۔
چین عالمی سطح پر ریئر ارتھ معدنیات کی کان کنی کا 70 فیصد اور پروسیسنگ کا 90 فیصد سے زائد حصہ کنٹرول کرتا ہے، جو اسے اس میدان میں ایک غیر متنازع بادشاہ بناتا ہے۔ مگر یہ بادشاہی اب چیلنج کا شکار ہے، کیونکہ چین نے حال ہی میں اکتوبر 2025 میں ریئر ارتھ معدنیات پر نئی برآمدی پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں چینی اصل کی معدنیات یا ٹیکنالوجی کی برآمد کے لیے لائسنس کی ضرورت شامل ہے۔ یہ پابندیاں، جو نومبر 2026 تک معطل ہیں، دراصل امریکہ کی تجارتی پابندیوں کا جواب ہیں اور عالمی سپلائی چینز پر چین کی گرفت کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش ہیں۔
دوسری جانب، امریکہ اس معدنی جنگ میں ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، جو چین کی اجارہ داری کو توڑنے کے لیے سرگرم ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین کی معدنی سپلائی چینز پر گرفت اس کی قومی سلامتی، معاشی مسابقت اور اسٹریٹجک مقاصد کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس لیے واشنگٹن عالمی سطح پر نئی سپلائی چینز کی تشکیل پر توجہ دے رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ تعاون اس حکمت عملی کا اہم حصہ ہے۔
نومبر 2025 میں اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد، جس کی قیادت کرٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کے صدر رابرٹ لوئس اسٹریئر دوم نے کی، نے پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون، سپلائی چین کی سلامتی کو مضبوط بنانے اور ذمہ دارانہ سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو 500 ملین ڈالرز کا معاہدہ پیش کیا ہے، جس کے تحت ریئر ارتھ معدنیات کی تلاش اور ریفائننگ پاکستان کی سرزمین پر کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کی منتقلی، دانشورانہ ملکیت کی حفاظت اور نجی شعبے کے اعتماد کی تعمیر کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کو ایک ممکنہ معدنی مرکز بنانے کی طرف ایک قدم ہے، جہاں اس کی سائنس، انجینئرنگ اور ریاضی کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
مگر یہ جنگ پاکستان کے لیے ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف چین کے ساتھ دیرینہ دوستی اور سی پیک کی معاشی فوائد ہیں، جو پاکستان کی ترقی کا انجن بن چکے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کی پیشکش نئی مواقع فراہم کرتی ہے، جو پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط اور قرضوں کے جال سے نکلنے میں مدد دے سکتی ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں سیکورٹی خدشات، دہشت گردی اور مقامی مزاحمت اس سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈالتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو غیر جانبدار رہتے ہوئے اہنے مفادات کی حفاظت کرنی چاہیے۔ بیجنگ کو یقین دلانا ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے صرف معاشی فوائد کے لیے ہیں، نہ کہ چین مخالف۔ اسی طرح، امریکہ کے ساتھ تعاون کو سی پیک کے ساتھ ہم آہنگ کرکے علاقائی تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ وہ دونوں طاقتوں سے سرمایہ کاری حاصل کرے، مقامی صلاحیتوں کو ترقی دے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر زور دے تاکہ وہ اس جنگ کا شکار نہ بنے بلکہ فاتح بن کر ابھرے۔
آخر میں، یہ معدنیات کی جنگ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی اہمیت کو معاشی طاقت میں تبدیل کرے۔ مگر اس کے لیے دانش مندانہ خارجہ پالیسی، شفاف ریگولیٹری فریم ورک اور علاقائی استحکام ضروری ہے۔ اگر پاکستان اس توازن کو برقرار رکھ سکا تو یہ نہ صرف اس کی معیشت کو بدل دے گا بلکہ عالمی سیاست میں اس کی حیثیت کو بھی بلند کرے گا۔ ورنہ، یہ جنگ اسے ایک محض میدانِ زار بنا کر چھوڑ دے گی، جہاں دوسرے اپنے مفادات کی فصل کاٹتے رہیں گے۔

