Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Maududi Sahab

Maududi Sahab

مودودی صاحب

مولانا مودودی سے پہلا کتابی کتاب تعارف تفہیم القرآن کے مقدمے سے ہوا تھا۔۔ یہ تعارف بھی اتفاقی تھا۔۔ یہ ان دنوں کی بات تھی جب ہم ابھی گمراہ نہیں ہوئے تھے۔۔ اللہ میاں سے تعلقات بڑے اچھے چل رہے تھے۔۔ صوم و صلوٰۃ کی بھرپور پاپندی ہوتی۔۔ رمضان میں اہتمام کے ساتھ اعتکاف کرتے۔۔ ایک ایسے ہی اعتکاف کے دوران ایک دن جب میں مسجد کی کتابوں والی الماری کو الٹ پلٹ رہا تھا تو تفہیم القرآن کی جلد اول پر نظر پڑی۔۔ اس پرمولانا مودودی کا نام پڑھ کر تھوڑی حیرت ہوئی کہ کیونکہ مسجد اہلحدیث کی تھی وہاں مودودی صاحب کی تفسیر کا ہونا وہابیوں کی بستی میں مزار ہونے کے مترادف تھا۔۔

بہر حال اس کا مقدمہ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔۔ اس طرح کے نظریات سے پہلی بار واسطہ پڑا تھا۔۔ افکار کا ایک ریلا تھا تو جو ساتھ ہی بہائے لے جارہا تھا۔۔ مقدمہ ہی اتنا پر اثر تھا کہ پورا دیوان پڑھوانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔

یہ بات بہر حال ماننی پڑے گی اردو کے مذہبی مکتبہ فکر میں جو نثر مولانا کی تھی وہ شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔۔ روانی اتنی کہ مخالف کو بھی ساتھ بہا لے جائے۔۔ پچھلی تین صدیوں کے مسلم قحط الرجال کی بھرپائی قدرت نے مولانا کی صورت میں کی۔۔

میں مودودی صاحب کو عملی فلاسفر کہتا ہوں۔۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر اقبال تک سب نے فکری موشگافیاں ہی برآمد کی تھیں یہ مودودی صاحب ہی تھے جنھوں نے فکرکے ساتھ عملی اقدام اٹھائے۔۔ جہ جائیکہ ان کی فکر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔۔

مودودی صاحب کی ساری فکر سیاسی اسلام کے گرد طواف کرتی ہے۔۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ انھوں نے اسلام کو سیاست کا کلمہ پڑھوا دیا تھا۔۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ مولانا کے نزدیک اسلام پارلیمنٹ کے لیئے اترا تھا۔۔ پارلیمنٹ ان کی مسجد تھی۔۔ اقتدر کعبہ اور سیاست نماز۔۔

مولانا کا خیال تھا کہ اسلام کا جوہر سیاسی طاقت حاصل کرنا ہے۔۔ سیاسی طاقت سے وہ خدا کا حکم نافذ کر سکیں گئے۔۔ تاکہ اسلامی ریاست کی تشکیل کی جا سکے۔۔ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اسلامی انقلاب کی ضرورت ہے مگر مولانا کے نزدیک یہ انقلاب تعلیمی تھا جہاں سے نیک لوگ تیار کر نظام پلٹ سکیں۔۔ مگر جب مولانا نے انقلاب کے بجائے آزادی کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو مولانا امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب مقامات میں اصلاحی صاحب کا مولانا مودودی کی تحریک سے علیحدگی کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔۔

کتاب میں ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔۔ غامدی صاحب کا گھر مودودی صاحب کے گھر کے سامنے تھا۔۔ غامدی صاحب خود بھی مودودی صاحب کے باغی شاگرد تھے مگر اصلاحی صاحب کے بے حد قریب تھے۔۔ جب جماعت اسلامی چھوڑنے کے بعد ایک دفعہ اصلاحی صاحب غامدی صاحب کے گھر آئے مودودی صاحب کو سامنے والے گھر میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کبھی ہم تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو۔۔

اسی آشنائی کی یاد میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے بھی "میں اور مولانا مودودی "کے نام سے کتابچہ لکھا ہے۔۔ وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔۔

مودودی صاحب نے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا اور جو موضوع ان کے قلم پر چڑھا وہ باکمال ہوگیا۔۔ مولانا کی ساری فکر کا اگر خلاصہ پڑھنا چاہیں تو ان کی کتاب ہے۔۔ اسلامی نظام زندگی اور اس کے اصول و مبادی۔۔ اس کتاب میں ایک مضمون ہے بناؤ و بگاڑ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔۔

مولانا وطنیت کے سخت خلاف تھے۔۔ وہ اسے تازہ خداؤں میں شمار کرتے تھے جس کا پیرہن ان کے نزدیک مذہب کا کفن تھا۔۔ اس موضوع پر ان کی کتاب مسئلہ قومیت آئی۔۔ مولانا نظریہ امہ کے داعی تھے ان کے نزدیک قوم کی بنیاد وطن نہیں مذہب تھا۔۔ مگر مولانا یہ نہ بتا سکے کہ اگر قومیت کی بنیاد وطن نہیں مذہب تھا تو مذہب قوموں کو کیوں نہ جوڑ پایا۔۔ بنو ہاشم اور ہنو امیہ کا مذہب ایک تھا مگر کیوں قبائلیت سے شکست کھا گیا۔۔ ترکی عثمانیوں اور عربوں کا مذہب بھی ایک تھا مگر کیوں عربوں نے عثمانیوں سے بغاوت کرکے خلافت لپیٹ کے رکھ دی۔۔ کیوں مذہب مشرقی اور مغربی پاکستان کو جوڑ نہ پایا۔۔

فرائیڈ نے کہا تھا۔۔ انسان کے عمل کا محرک جنسی شہوت ہے۔۔ مودودی صاحب کے نزدیک بھی تہذیبوں کے عروج و زوال کے پیچھے یہی جنسی شہوت کار فرما ہے۔۔ ان کے نزدیک تہذیب تب ہی زوال پزیر ہوتی ہے جب عورت کو آزادی مل جائے تو اس آزادی سے وہ بے حیا ہو جائے گی۔۔ اپنی کتاب پردہ میں روم کی تہذیب سے لے کر موجودہ یورپ کے زوال کے پیچھے یہ وجہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عورتوں نے برقعہ نہیں پہنا تھا۔۔ مگر مولانا مودودی یہ نہ بتا سکے۔۔ مشرقی تہذیب کی برقعہ پوش عورت والی تہذیب کیوں نہ کچھ اکھاڑ پائی اور کولہے مٹکاتی "بے حیا "مغربی عورت کے سپوت کیوں ہم پر حکمران ہیں۔۔ یہ بھی الگ بات ہے کہ مولانا مودودی کی اپنی بیگم بڑی ماڈرن تھیں۔۔

ولی نصر اپنی کتاب Modudi and making of Islamic revivalism میں لکھتے ہیں۔۔ مودوی صاحب کی شریک حیات محمودہ بیگم بڑی لبرل تھیں اور وہ پردہ بھی نہیں کرتی تھیں۔۔ یہی وجہ ہے مودودی صاحب کے بچے بھی اپنے والد کی فکر سے دور تھے شاید ان کی والدہ کا کردار رہا ہو۔۔

ایک وقت میں برصغیر میں سوشلزم کا بڑا غلغلہ تھا۔۔ اشتراکیت نئی فکری بدعت کے طور پر اپنی جگہ بنا رہی تھی۔۔ اس سمے مولانا مودودی نے اشتراکیت کے خلاف بہت تگڑا قلم اٹھایا۔۔ اسلام اور جدید معاشی نظریات لکھی۔۔ ان کی کتابوں تنقحیات اور تفہیمات میں بھی اس کی جھلک ملتی ہے مگر معشیت پر ان کی بہترین کتاب سود ہے۔۔ مولانا ذاتی ملکیت کے حق میں تھے اس لیئے سوشلزم کو غیر فطرتی نظام قرار دیتے مگر انھوں نے سرمایہ داری کو تھوڑا مسلمان کرکے ایک نیا اسلامی معاشی نظام گھڑ لیا تھا۔۔ مگر مولانا کا معاشی نظام ان کا خود ساختہ تھا اس لیئے یہ نہ بتا پائے کہ کیا۔۔ ریاست زکوۃ کے چندے سے چلا کرتی ہے۔۔ نہ ہی مولانا کے پاس بینکنگ جیسے سودی نظام کے مدمقابل کوئی مضبوط معاشی نظام تھا۔۔

مولانا کا سیاسی اسلام دار اصل بیسویں صدی کے ملاؤں کا اقتدار سے محرومی کا ایک مذہبی اظہار تھا۔۔ جب جب ملاں اقتدار سے محروم ہوا اسے مذہب یاد آیا۔۔ اقتدار میں ملاں کو حصّہ داری ملی اپنے بھائیوں کو قتل کرنے والا اورنگزیب عالمگیر بھی ٹوپیاں سی کر گزارہ کرنے والا نیک حکمران تھا مگر جونہی اقتدار سے بیدخل ہوا تو اکبر دین الٰہی کا موجد ہو کر راندہ درگاہ ہوگیا۔۔ مولانا نے یہ تو بتا دیا کہ اسلام کا جوہر ریاست قائم کرنا ہے مگر کیا مذہب کا مقصد سیاسی اصلاح ہوتی ہے۔۔ ہر گز نہیں۔۔ نبی آکر ریاستی گھتیاں نہیں سلجھایا کرتے اور نہ ہی وہ معاشیات کے فلسفے دیا کرتے ہیں۔۔ مگر مولانا نے کھینچ تان کر ہر چیز سے اسلامی نظام برآمد کر لیا۔۔ مودودی صاحب پر تنقید تو بہت ہوئی مگر مولانا وحیدالدین خاں جیسی تنقید کوئی نہ کر سکا۔۔ ان کی کتاب تعبیر کی غلطی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔۔

مودودی صاحب کا سب سے متنازعہ کام خلافت وملوکیت تھا۔۔ مودودی نے اسلامی تاریخ کے ان کرداروں سے پرردہ تھوڑا سا سرکا دیا جن پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ میں مقدس پردوں کے تھان لادے جارہے تھے۔۔ بہت سے لوگ شاید نہ جانتے ہوں خلافت ملوکیت دراصل محمود عباسی صاحب کی کتاب "خلافت معاویہ و یزید"کے جواب میں لکھی گئی تھی۔۔ مگر جب خلافت و ملوکیت منظر عام پر آئی تو ایک طوفان برپا ہوگیا۔۔ جو لوگ پہلے ہی مودودی صاحب کے خلاف بھرے بیٹھے تھے ان کے ہاتھ تو کارتوس لگ گئے مولانا کے خلاف۔۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب جلسوں میں نعرہ لگتا۔۔

سو یہودی ایک مودودی

مولانا اپنی ذات میں تھوڑے فاشسٹ تھے اور فاشزم کو پسند بھی فرماتے۔۔ مسولینی کے بڑے مداح تھے۔۔ فاشزم اور نازی ازم کو یورپ میں لبرلزم کے خلاف ردعمل قرار دیتے۔۔ ایک جگہ لکھتے ہیں۔۔

اپنے ایجنڈے کو مسولینی جیسا ڈکٹیٹر ہی نافذ کر سکتا ہے صحیح طریقے سے۔۔ کیونکہ عوام مولانا کی نزدیک جمہوری لاڈ نخروں سے سیدھی نہیں ہوتی۔۔

اس میں کوئی شک نہیں مولانا مسلمانوں کے گاڈ فادر تھے۔۔ چاہے امام خمینی ہوں۔۔ یا سید قطب سب پر مودودی کا رنگ نظر آتا ہے۔۔ ملی ٹینٹ تعبیر اسلام بھی مودودی کی گھاٹ کا پانی پیتی ہے۔۔ پھر چاہے وہ جہاد فی الاسلام مصر یو یا اخوان المسلمین۔۔ ان سب کی گنگوتری مودودی کا لٹریچر ہی ہے۔۔

ضیا الحق نے کے عسکری اسلام نے بھی مودودی صاحب سے ہی فیض پایا۔۔ Pakistan eye of strom کے مصنف own Bennett لکھتے ہیں ضیا الحق نے دس ہزار سرکاری نوکریاں صرف جماعت اسلامی کے کارکنان کو دیں۔۔

مولانا کی وفات امریکہ میں ہوئی۔۔ جب ان کے امریکہ میں انتقال کی خبر پھیلی تو ان کے مخالف کسی دل جلے نے فقرہ کسا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔۔

اس کے پس نظر یوں ہے کہ مودودی صاحب کا اشتراکیت کے خلاف لکھا لٹریچر امریکہ روس کی سرد جنگ میں بل واسطہ امریکی مفادات کا تحفظ کر رہا تھا مسلم دنیا میں۔۔

بہر حال ہر بڑا انسان اور لیڈر خدا کی طرح اپنا شریک نہیں بناتا۔۔ مولانا بھی اپنی جیسی قیادت نہیں کھڑی کر پائے اس لیئے ان کے بعد کی جماعت اسلامی ڈکٹیروں کی رکھیل بن کے رہ گئی۔۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari