Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Comrade Wahabi

Comrade Wahabi

کامریڈ وہابی

بندہ مذہب چھوڑ سکتا ہے پر فرقہ نہیں چھوڑ سکتا، سلفی ملحد ہو کر بھی سلفی ہی رہے گا، دیوبندی ملحد ہو کر بھی تھانہ بھون کی خاک ہی چھانتا رہے گا، شیعہ ملحد ہو کر بھی کربلا کا سالانہ پیکچ ہی رہے گا، بریلوی، تو خیر یہ بے چارے تو الحاد افوڑد ہی نہیں کر سکتے، زیادہ سے زیادہ فکری قلابازی کھائی تو وہابی ہو کر قاطع شرک و بدعت اور توحید کی نیم برہنہ تلوار ہی بن سکتے ہیں۔

یقین مانیں مذھب چھوڑنا آسان اور فرقہ چھوڑنا بہت مشکل ہے، فرقہ کلچر ہوتا ہے، مذھب کا بنیادی یونٹ ہوتا ہے، گھر کا کلچر فرقہ کے حساب سے چلتا ہے، ہمارا لباس، شادی، جنازے، دستر خوان حتی کے لباس بھی فرقے کے تابع ہوتا ہے۔

شادی کو ہی دیکھ لیجئے، مہندی کی رسم وہابی نہیں کرتے، گانوں کو خلاف شریعت سمجھتے ہیں بعض سنگلاخ قسم کے سلفی تو شادی کے موقع پر لائٹنگ کرنے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں، کئی جید وہابی تو اس ولیمہ میں شرکت ہی نہیں کرتے کہ وہاں فوٹوگرافی ہوتی ہے، بارات کے موقع پر گجرے ڈالنے کو بھی بدعت سمجھتے ہیں، رہ گیا ولمیہ تو وہ کل ملا کے شادی سے ذیادہ تدفین کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

لباس کا معاملہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے، اس میں سے زیادہ نارمل اور شوقین مزاج بریلوی ہی ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں مختون لباس پہننے کا رواج کم ہے، ہاں داڑھی کے حوالے سے بھی خاصے سلجھے واقع ہوئے ہیں۔

ثقہ تبلیغی کا لباس دور سے ہی پہنچانا جائے گا، ترشی ہوئی داڑھی، صفا چٹ مونچھیں، آنکھوں میں کھلی ہوئی سرمے کی دوکان اور فرنٹ جیب میں جیب کی حدود سے باہر کو نکلتا لمبا سا زیتون کا مسواک، سفید کرتے کے دونوں اطراف غیر ضروری سلائی کی بھونڈی سی لائن اور سردی کی صورت میں پاؤں میں پہنے چمڑے کے موزے۔

دیوبندی کا لباس شدت میں تبلیغی سے تھوڑا سا کم ہوتا ہے ہاں اگر دیوبندی غلطی سے جمیعتی کو تو سر پر مشتری سیارے کی طرح مدار میں گھومتی ہوئی پگڑی پہننا افضل قرار پاتا ہے۔

رہ گے میرے والے یعنی سلفی، تو ان کی شلوار دیکھ کر ہی لگتا ہے کہ شاید جلدی میں چھوٹے بھائی کی پہن آئے ہیں، مستند سلفی کی شلوار شلوار کم اور کچھا زیادہ ہوگا، جس کی برکت سے بالوں سے بھری کھردری پنڈلی کی زیارت سے راہ گیر اپنا دل مکدر کرتے گزریں گے۔ ان کم بختوں کے ہتھے کوئی روایت چڑھ گی کہ شلوار اتنی اونچی رکھو ٹخنے سے کہ دو میل دود سے نظر آئے، چلو یہ بھی ٹھیک ہے مگر داڑھی کے ساتھ یہ جو ظلم ڈھاتے ہیں، کہ دو میل تو دور کی بات کلکتے میں بیٹھے سلفی کو داڑھی کی وجہ سے پشاور سے ہی تاڑا جا سکتا ہے۔

ٹھوڑی کے نیچے بالوں کی کماد اگانا سنت نہیں ہے جو ناف تک آتی ہو، داڑھی ترشی ہوئی ہی اچھی لگتی ہے، سلفی کسی اور کنوار پن کے قائل نہ بھی ہوں مگر داڑھی کی کنوار پنے کا بڑا ہی خیال کرتے ہیں۔

خدا بخشے مفتی ہند مولانا سعید دہلوی کو، وہ تو داڑھیل قسم کے سلفی بھی نہیں تھے، ایک دفعہ مصر کے جامعہ الازہر جا نکلے، ان کی داڑھی کی تاب نہ لا کر ایک مصری نے چھوٹتے ہی پوچھا۔

انت الیہود۔

مولانا نے سٹ پٹا کر الحمدللہ مسلمان ہوں تو مصری نے کہا۔

"داڑھی تو آپ نے یہودیوں والی رکھی ہے"۔

مگر سلفی داڑھی کے معاملے میں یہودیوں کے مقلد ہیں، ہاں معتبر اہلحدیث ٹوپی پہننے سے اتنا ہی بدکے گا جتنا جنگلی گھوڑا نکیل سے بدکتا ہے۔

بات فرقے اور الحاد کی ہو رہی تھی، مذھب تو گھر کے باہر ہوتا ہے، گھر کے اندر فرقہ راج کرتا ہے، اسے چھوڑ پانا آسان نہیں ہوتا، یقین مانیں میں نے کئی سلفی ملحدین کو بدعتیوں کے رفع یدین درست کرتے اور بدعات پر کڑھتے دیکھا ہے، دیوبندی ملحد کو عظمت صحابہ کا درس دیتے سنا ہے، شیعہ ملحد کا تو الحاد کچھ خاص بگاڑ بھی نہیں پاتا، بے چارہ رچرڈ ڈاکنز، نطشے، جان اسٹورٹ مل اور برینڈ رسل کے معقولات سناتے سناتے یک دم ذوالجناح کے پاخانے کے فضائل شروع کر دیتا ہے۔

میں فرقہ واریت کے خلاف ہرگز نہیں ہوں، اسلام جیسا بڑا مذہب اتحاد جیسی بورنگ ہم آہنگی کبھی افورڈ نہیں کر سکتا، فرقہ واریت سے بالاتر، اتحاد امت اور بین المسالک ہم آہنگی کی تبلیغ جتنی خوشنما لگتی ہے اتنی ہی سطحی اور مصنوعی ہوتی ہے۔ میں کسی کو فرقہ چھوڑنے کا مشورہ نہیں دیتا، فرقہ بندے کا ناسٹلجیا ہوتا ہے، میں خود کو سلفی قسم کا لبرل سمجھتا ہوں، آپ چاہیں جتنے مرضی کرانتی کاری بن جائیں، یا سرخے بن جائیں، یقین مانیں فرقے سے نہیں نکل پائیں گے۔ تو پھر کامریڈ وہابی بننے میں حرج نہیں۔

نہ جانے کیوں بعض اتحادیئے علماء اتحاد امت کے نام پر گھوڑا، خچر سب کو برابر ہانکنا چاہتے ہیں، فرقہ کلچر ہوتا ہے، ہر فرقے کی شناخت ہے، یہ شناخت ختم کرکے سب کو اتحاد امت کے نام پر ٹوٹ بٹوٹ کی فوج بنانے کا کیا فائدہ۔

ہر بڑا مذھب تب ہی سروائیو کر سکتا ہے جب تک اس میں اختلاف کی صورت میں الگ فرقہ یا مکتبہ فکر بنانے کی گنجائش ہو، وگرنہ اتحاد جیسی بوریت اور ہم آہنگی جیسی یکسانیت سے تو کوئی مذھب ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا بھی عرصہ نکال نہ پائے۔ واعتصمو بحبل اللہ کا مطلب ایک ہی فکر اور سوچ کے ٹوٹ بٹوٹ کا جتھا تیار کرنا نہیں ہے۔

ایک زمانے میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو بھی اتحاد امت کی لت لگ گی تھی، مختلف فرقوں کے مولویوں کو ایک سٹیج پر جمع کرکے اتحاد امت کا سر کس لگایا کرتے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب امین احسن اصلاحی کے ہتھے چڑھ گے۔

اصلاحی صاحب نے پوچھا "یہ تم بھانت بھانت کے مولویوں کو ایک جگہ جمع کرکے کرنا کیا چاہتے ہو "۔

ڈاکٹر صاحب نے جوش سے فرمایا "میں تمام مسالک کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا چاھتا ہوں"۔

اصلاحی صاحب کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور جوابا ارشادا "یہ کام تو محکمہ ریلوے پچھلے سو سال سے کر رہا ہے"۔

Check Also

Iqra Liaqat Ki Kamyabi Ki Kahani

By Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi