Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Mini Dam

Mini Dam

منی ڈیم

راولپنڈی اسلام آباد سمیت پورے پوٹھوہار میں پچھلے تین چار دن سے مسلسل بارشیں ہورہی ہیں اور ندی نالوں میں طغیانی آئی ہوئی ہے۔ پوٹھوہار ریجن میں جہاں حکومتی مدد سے بنائے گئے 1,500سے زیادہ" منی ڈیم" بےکار کھڑے ہیں وہیں عرفان جیسے ہونہار جوانوں کی اپنی مدد آپ کے تحت ڈیم بنانے اور اسے کامیاب کرنے کی کہانی بہت ولولہ انگیز ہے۔

ڈیموں کی درجہ بندی کے مطابقِ "منی ڈیم " وہ ڈیم ہوتا ہے جوکہ تقریباً 100 ایکڑ فٹ حجم تک کا پانی ذخیرہ کرسکے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خطہ پوٹھوہار (جہلم، پنڈی، چکوال اور اٹک کے اضلاع) کے اندر 1500سے زیادہ منی ڈیم بنے ہوئے ہیں تاہم منی ڈیموں کی صحیح تعداد شائد 3,000 سے بھی زائد ہے۔ ادارہ آباد (ABAD) کےدعوے کے مطابق صرف پوٹھوہار میں 6,000 منی ڈیم بنانے کی مناسب جگہیں موجود ہیں۔

پوٹھوہار کا علاقے کا رقبہ 22 ہزار اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ ہے جہاں سالانہ 2 ملیئن ایکڑ فٹ پانی بارش سے آتا ہے۔ تاہم اس وقت اس پانی کا صرف 20 فی صد ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ دریائے سواں اور ہرو اس خطہ کے دو اہم دریا ہیں۔ ان دریاوں پر کوئی بڑا ڈیم تو نہیں بنا لیکن سمال ڈیم آرگنائزیشن نے 57کے قریب سمال ڈیم بنائے ہوئے ہیں جن کی اسٹوریج کیپیسٹی 0.22 ملئین ایکڑ فٹ ہے جبکہ 0.35 ملئین ایکڑ فٹ کیپیسٹی کے 11 ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔ جن سے ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی کاشت ہو سکے گی۔

پوٹھوہار میں منی ڈیم کی تعمیر زیادہ تر ABAD کا ادارہ کرتا ہے جوکہ 1978 میں قائم ہوا تھا جس کے ذمے بارانی علاقوں میں پانی کے وسائل کو بہتر بنانا تھا۔ آباد نے 12 سمال ڈیم، 1092 منی ڈیم، 1351 تالاب اور 4698 کنوئیں اور تالاب بنوائے جن سے 86 ہزار سے زیادہ اراضی کی آب پاشی ہو سکتی تھی۔

اب تک تعمیر ہونے والے منی ڈیم حکومت کی جانب سے کسانوں کو ستر سے اسی فی صد کی سب سڈی دے کر بنائے گئے ہیں۔ کسان ڈیم تو بنوا لیتے ہیں لیکن ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں لیتے۔ منی ڈیم زرعی مقاصد کے لئے تعمیر کئے گئے ہیں لیکن ان میں سے 80% ڈیموں کا پانی زراعت کے لئے استعمال ہی نہیں ہوتا۔ ان ڈیموں سے 17 ہزار ایکڑ اراضی پر آب پاشی ہو سکتی ہے لیکن اس وقت یہ زیادہ تر مچھلی پالنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔

منی ڈیموں پر زراعت نہ ہونے کی بڑی وجہ کسانوں کی غربت ہے کیونکہ اکثر کسان چھوٹے چھوٹے قطعات اراضی کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے پاس منی ڈیم کو چالو حالت میں رکھنے، نظام آب پاشی بنانے، زمین ہموار کرنے یا پمپ موٹر لگانے کے پیسے ہی نہیں ہوتے۔ اکثر زمینیں ڈیم سے اوپر ہوتی ہیں جہاں پانی لفٹ کرنا پڑتا ہے۔ سولر نے آکر کچھ آسانی پیدا کی ہے لیکن سولر کے بھی اپنے سو خرچے ہیں۔ اسی طرح کھاد، کیڑے مار ادویات اور اچھی کوالٹی کے بیجوں کا بروقت ملنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔

منی ڈیموں کے اپنے بھی کئی مسائل ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ڈیم میں مٹی کا جم جانا ہے جس کی صفائی پر ہر سال بہت خرچہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات منی ڈیم کا ڈیزائن بھی صحیح نہیں ہوتا کیونکہ پانی پر کوئی تفصیلی اسٹڈی نہیں کی جاتی۔ کچھ جگہیں ہموار ہونے کی وجہ سے ذخیرہ شدہ پانی زمین کی سطح پر حد سے زیادہ پھیلنے کی وجہ سے بخارات بن کر جلدی اڑ جاتا ہے۔

منی ڈیموں کے علاوہ ڈائریکٹریٹ آف سائل کنزرویٹو پوٹھوہار کے علاقے میں بہت سے جوہڑ اور تالاب بھی بنوا رہا ہے۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra