Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (7)

Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (7)

واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (7)

جناب جاوید احمد غامدی کی کربلا اور اس سے جُڑے تمام حقائق اور اس مخصوص پس منظر کے بارے منفرد نکتہ نظر پر تفصیلی بحث کے بعد اب ہم اس دلخراش واقعے کی انجینئرز علی مرزا صاحب کے فکرکے حوالے سے تفصیلاً اپنی معروضات قارئین کے گوش گزار کریں گے۔

ہر دم تازہ دم سوشل میڈیا اور برق رفتار ذرائع مواصلات کی بدولت خلقتِ عام میں شہرتِ دوام پانے والے انجنیئر علی مرزا صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں جو اپنے بیباک تجزیے مبنی بر استدلال نکتہء نظر اور پنجابی زبان کی چاشنی میں لپٹے دل و دماغ میں چبھنے والے طرز تخاطب کے لئے کافی مشہور و معروف ہے۔ اہل سنت میں مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ کے بعد انجینر صاحب ہی وہ شخصیت ہے جنہوں نے قوی دلائل اور صحیح روایت کی بنیاد پر آل علی اور شیعان علی کا خوب دفاع کیا اور ببانگ دہل مستند ترین تاریخی روایات کے ذریعے بنو امیہ کی (بقول ان کے) تاریخی دہشتگردی کو آشکار کیا۔

یہ معلوم ہے کہ انجنیئر صاحب کا موقف یوٹیوب پر موجود منقسم شکلوں میں گاہے گاہے سامنے آتا رہا ہے مگر ہم یہاں اس پورے بحث میں ان کے واقعہ کربلا پر شائع ہوئے ایک تحقیقی مقالے کو ماخذ بنا کر ان کے موقف کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسی میں انجنئیر صاحب کی کربلا کے بارے میں تمام مباحث کا نچوڑ موجود ہے۔

جاوید احمد غامدی کے برعکس انجنئیر صاحب واقعہ کربلا کے پس منظر کے باب میں ان تمام نظری مباحث سے گریز کرتے ہیں جس کا ذکر فکر غامدی پر تبصرآرائی کے ذیل میں گزر چکا یعنی اس وقت کے معروضی حالات سیاسی حرکیات جیسے بدیہی حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انجنئیر صاحب اس واقعے کا پس منظر حضرت عثمان کی شہادت سے شروع کرتے ہیں ان کے ہاں صحاح ستہ یا دوسرے درجے کے کتب احادیث میں موجود مستند ترین روایات ہی کو واقعہ کربلا کے باب میں اصل استنادی حیثیت حاصل ہے۔

قارئین کی سہولت کے خاطر ہم انجنئیر صاحب کے موقف کو چار سوالات میں ڈھال کر ایک ایک سوال پر ان کی رائے بالتفصیل بیان کریں گے شہادت عثمان غنی کے اسباب کیا تھے؟ حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی، حضرت عائشہ اور حضرت علی کے مابین ہوئے کشمکش میں حق پر کون تھا؟ حضرت امیر معاویہ کی یزید کی ولی عہدی کے اقدام کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ اور حضرت حسین کا یزید کے خلاف خروج مبنی بر شریعت تھا یا نہیں؟ نیز یزید اپنے کردار کے لحاظ سے اس امر خلافت کے حقدار تھے یا نہیں؟ ان بنیادی سوالات پر اب ہم انجینئرز علی مرزا صاحب کے فکر کا عمیق جائزہ لیں گے۔

شہادت حضرت عثمان کے ضمن میں انجینئرز صاحب عجمی فتنے اور عبداللہ بن سبا اور اشتر نخعی جیسے منافقوں کی تاریخی کردار سے مکمل انکار کرتے ہوئے روایات کی بنیاد پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کا سب سے بڑا سبب ان کی وہ پالیسی تھی کہ جو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کے بارے میں اختیار کی کیونکہ آپ کا تعلق بنو امیہ سے تھا لہذا وہ لوگ جن کو تاریخ میں طلقاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی وہ اصحاب جو فتح مکہ میں مسلمانوں کی عظیم فتح اور کفارِ عرب کی بدترین شکست سے متاثر ہوکر اسلام کی سیاسی غلبے کے زیر اثر حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔

ان میں حضرت معاویہ سمیت خاندان امیہ کے کئی معزز شخصیات شامل تھے ان کو حضور ﷺ کی مبارک صحبت اتنی میسر نہ آئی تھی کہ جس میں اکابر صحابہ کی پرورش ہوئی تھی لہذا ان نو مسلم اصحاب نے حضرت عثمان کی رحمدلانہ پالیسیز کا فائدہ اٹھا کر اپنے لئے کلیدی عہدے حاصل کیے اور یوں دنیاوی عیش و عشرت میں اس قدر مبتلا ہوئے کہ حضرت عمر جیسے عادلانہ خلافت کے عادی لوگ اس قدر بے راہ روی دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے اور یوں مدینے پر تاخت کرکے خلیفہ برحق کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس ضمن میں اپنے تحقیقی مقالے میں سُنن ابو داؤد کے حدیث نمبر 4656 کے حوالے سے انجنئیر صاحب حضرت عمر کے اس روایت کا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے اپنے مؤذن سیدنا اقرع کو ایک پادری کے پاس بھلا بھیجا اس کے آنے پر ان سے سوال کیا کہ میرے بارے میں آپ کی کتب مقدسہ میں کیا ذکر ہے؟ اس نے کہا کہ ایک، قرن، آپ نے فرمایا اس کا مطلب اس نے جواب دیا، شدید مضبوط اور سخت امانتدار، پھر حضرت عمر نے پوچھا آنے والے خلیفہ کے بارے میں کیا لکھا یے؟ اس نے کہا کہ وہ خلیفہ تو نیک ہوگا مگر اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دیے گا سیدنا عمر نے یہ سن کر تین دفعہ دعا مانگی اے خدا عثمان پر رحم فرما۔۔

حضرت عمر کی پادری کے جواب میں یوں حضرت عثمان کے لئے دعا مانگنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حضرت عثمان اپنے اعزہ واقارب کے بارے میں انتہائی حد تک نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اپنے تحقیقی مقالے میں سُنن نسائی کے حدیث نمبر 4072 کے حوالے سے انجنئیر صاحب لکھتے ہیں کہ کس طرح حضرت عثمان نے اپنے اُس قریبی رشتہ دار کو حضور ﷺ سے معافی دلوائی جس کے بارے میں نبی مہربان ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اگر وہ کعبے کے غلاف سے چمٹ کر بھی معافی مانگے تو ان کو قتل کردوں اس کا نام عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھا جو کاتبین وحی میں شامل تھا اور بعد میں مدینے سے فرار ہوکر مکہ آیا اور مرتد ہوکر یہ بیہودہ اور خطرناک پروپیگینڈا شروع کیا کہ قرآن تو حضور اپنے تئیں لکھتے ہیں یہ ہرگز خدائی کلام نہیں اور حضور ایک لفظ فرماتے اور میں اپنی طرف کچھ مزید بھی لکھ لیتا اس قسم کے سنگین جرم کے مرتکب شخص کو حضرت عثمان نے نہ صرف معافی دلوائی بلکہ اسے مصر جیسے اہم صوبے کی گورنری بھی سونپ دی جس پر اکابر صحابہ نے سخت تنقید کی۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری و مسلم میں ولید بن عقبہ گورنر کوفہ کے شراب نوشی کا واقعہ بھی مشہور و معروف ہے کہ جس نے نماز فجر نشے کی حالت میں پڑھائی جس کی تفصیل آئندہ کالم میں۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer