Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (4)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (4)
اب ذرا دل تھام کے اس جذباتی اور طلسماتی فضا سے نکل کر اپنی تمام تر شخصی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سیاسی حرکیات اور معروضی حالات کے بے رحم حقائق کی روشنی میں اگر آپ ذرا غور کریں تو حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کا تقرر جن حالات میں ہوا وہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت اسلامی سلطنت کی حدیں اگر ایک طرف برصغیر سے ٹکرا رہی تھی تو دوسری طرف شمالی افریقہ اور مراکش تک اس کے حدود پھیل چکے تھے ایک بہت بڑا اور غیر معمولی سیاسی تغیر رونما ہوچکا تھا ملکوں کے ملک اس سلطنت کے صوبے بن چکے تھے۔
مدینے میں موجود قریش کی ٹاپ لیڈرشپ اور سرکردہ اہل الرائے کو پوری سلطنت کا وہ اعتماد اب ہرگز حاصل نہ تھا جو گزرے ان تین خلفاء کے زمانے میں حاصل تھا لہذا مدینے میں بیٹھے قریش کی نمایاں لیڈرشپ کی سیاسی حثیت اب وہ نہیں رہی (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ بات استخفاف اور تنقیص و تنقید ہرگز نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت کا بیان ہے وگرنہ اپنی ذاتی زندگی میں تمام صحابہ کرام کی سیرت اور ان کا کردار بے مثل ہے کچھ شک نہیں کہ وہ قدوسیوں کی جماعت ہے)کہ وہ پوری سلطنت کے سربراہ کا فیصلہ کرے اور پوری سلطنت بے چُون چراں سر تسلیم خم کردے۔
لہذا وہی ہوا کہ حضرت عثمان کے دور میں عرب اور غیر عرب نو مسلم، قریش اور غیر قریش اور بنو ہاشم اور دوسرے قبیلوں میں ابھرنے والی نئی لیڈر شپ کے درمیان ایک بھیانک کشمکش نے جنم لیا چنانچہ مصر اور اس طرح دوسرے ممالک میں موجود عوامی لیڈرشپ پر فائز سرکردہ لوگوں نے قریش کی سربراہی پر انگلیاں اٹھانی شروع کردی اور جلد ہی ایک شورش میں تبدیل ہوکر حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت پر منتج ہوئی۔
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بدقسمتی سے اس وقت اس سیاسی تغیر کا ادراک نہ ہوسکا وہ فرماتے ہیں کہ قرآن میں مسلمانوں کی ریاست کے نظم اجتماعی کو چلانے اور حکمرانوں کے تقرر کے لیئے متعین ہوا امرھم شوری بینھم کے اصول کا اطلاق اس وقت تک زمین پر نہیں ہوسکتا جب تک کہ پوری سلطنت کے باسیوں کے بااعتماد نمائندوں پر مشتمل ایک ایوان نمائندگان عمل میں نہ آئے یعنی ایک ایسی لیڈرشپ کی جماعت جسے پوری ریاست کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ حضور ﷺ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے اس وقت تک موجود ریاست کی پوری قیادت جنہیں اس وقت کی آبادی کے ایک جمِ غفیر کا اعتماد حاصل تھا وہ سب مدینے میں جمع ہوگئی تھی یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی دعوت کے نتیجے میں ایک تاریخی عمل کے ذریعے پورا ایک ایوان نمائندگان مدینے میں وجود پذیر ہو چکا تھا۔ لہذا اسی لیڈرشپ نے ان تین خلفاء کا انتخاب اس وقت کے معروضی حالات کے لحاظ ٹھیک امرھم شوری بینھم کے اصول پر کیا اور کوئی انتشار برپا نہ ہوا۔
مگر حضرت علی کے تقرر کے وقت حالات اور زمینی حقیقتیں یکسر تبدیل ہوچکی تھی مدینے میں موجود اہل الرائے اصحاب کچھ تو فوت ہوچکے تھے اور جو حیات تھے ان کو وہ سیاسی عصبیت پوری سلطنت میں ہرگز حاصل نہ تھی جو قریش کو جزیرہ نما عرب میں حاصل تھی لہذا اگر حضرت عثمان کی شہادت کا واقعہ بھی پیش نہ آتا تو زیادہ سے زیادہ ایک ادھ خلیفہ کے تقرر تک حالات پر امن رہتے اور پھر اختلال کا پیدا ہونا وقت کے لازمی تقاضے کے طور پر ناگزیر تھا کیونکہ امرھم شوری بینھم کے لافانی اصول کے اطلاق کے لئے کوئی ضابطہ اور کوئی دستوری روایت موجود نہ تھی، لیکن حضرت عثمان کی شہادت نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے شورش کو ذرا آگے کردیا اور یوں پوری سلطنت میں ارتعاش برپا ہوگیا۔
اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب ذرا آگے چلیے جب حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ پیش آیا تو پوری سلطنت میں یہ بات پھیل گئی کہ ایک خلیفہ برحق کو کچھ شورش پسندوں نے اپنی محل میں بے دردی سے شہید کردیا اور انہی قاتلین نے حضرت علی کو مسند خلافت پر بٹھا دیا اب سینکڑوں میل دور شام کے گورنر جو کہ مقتول خلیفہ کا عم زاد بھی ہے کو جب یہ اطلاع پہنچی تو کیا یہ خبر برانگیختہ کرنے کے لئے کافی نہیں۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم بڑی آسانی سے ذرائع نقل و حمل اور مواصلات کی اس برق رفتار دنیا میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کر ڈالتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ نے قتل عثمان کو کیش کرکے سلطنت پر قبضہ جمانے کے خاطر ایک خلیفہ برحق کے خلاف بغاوت کر ڈالی۔ حالانکہ نہ اس وقت مواصلات کے وہ آلات تھے اور نہ نقل و حمل کے تیز رفتار ذرائع اور نہ کوئی ایسی دستوری روایت جو پر امن انتقال اقتدار کا ذریعہ بنے۔ لہذا حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی کے خلافت کے انعقاد ہی سے انکار کردیا۔
یہاں اس اہم نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بقول غامدی صاحب حضرت علی کا انتخاب اگرچہ مدینے کے مسلمانوں کی باہمی مشاورت سے عمل میں آیا مولا علی نے کوئی جتھہ اور ہتھیار بند لشکرکے ساتھ شورش کرکے اقتدار حاصل نہیں کیا تھا لیکن اب صورتحال ہر گز وہ نہ تھی جو ان سے پہلے گزرے خلفاء کے دور میں تھی یہ ایک نزاعی صورت حال تھی۔ کوئی دستوری روایت اور امت کے اکثریت کے اعتماد کے لوگ مدینے میں موجود نہ تھے، لہذا اس نزاعی صورتحال میں حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی کی خلافت کے انعقاد کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا اور یوں صحابہ کرام کے مابین مشاجرات کے دلخراش دور کا آغاز ہوا اب ان دو حضرات میں کون حق پر تھا اور کون باطل کا علمبردار امیر معاویہ کا یزید کی ولی عہدی کا تقرر اور یزید کا حضرت حسین کے خلاف اقدام۔ ان تمام معاملات کے بارے میں اس پورے پس منظر میں رہ کر غامدی صاحب انتہائی معتدل رائے رکھتے ہیں جس کا ذکر اگلے بلاگ میں۔
جاری ہے۔۔
نوٹ: انجنئیر علی مرزا کے افکار کا ذکر تفصیل سے اس کے بعد بیان ہوگا۔۔