Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (3)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (3)
لوگوں کے ذہنوں میں ثبت اس بات نے ایک اٹل حقیقت کا روپ دھار لیا کہ حضرت ابوبکرنے زندگی کے آخری ایام میں بغیر کسی ضابطے اور قانون کے حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کردیا غامدی صاحب اس بات کو نِرا جھوٹ سمجھتے اور اس کے ابطال و تغلیط میں مستند ترین تاریخی دلائل پیش کرتے ہیں۔
غامدی صاحب کے مطابق حضرت ابوبکر جب دنیا سے رخصت ہورہے تھے تو سیاسی اور زمینی حقیقت وہی تھی جو حضور ﷺ کے زمانے میں تھی یعنی ریاستی حدود میں موجود لوگوں کے ایک جم غفیر کا اعتماد ہنوز قریش کو حاصل تھا لہذا امرھم شوری بینھم کے قرآنی اصول کے لازمی نتیجے کے طور پر حکومت کا اختیار حضرت ابوبکرکے بعد بھی قریش ہی کے پاس تھا۔ بقول غامدی صاحب پارٹی پوزیشن وہی تھی بس اب اسی جماعت یعنی قریش کے اندر سے دوسرے شخص کا انتخاب ہونا تھا یہاں غامدی صاحب اس پوری صورتحال کی وضاحت کے واسطے ایک مثال دیتے ہیں کہ بالفرض آج اگر وزیراعظم پاکستان انتقال کر جائیں تو ملک گیر انتخابات کے انعقاد اور پوری قوم سے رائے لینے کے بجائے پارلیمانی پارٹی بیٹھ کر کسی دوسرے بندے کو پارٹی کے اندر وزیراعظم نامزد کرکے مسندِ حکومت پر براجمان کردیں گی لہذا اِسی اصول پر قریش ہی کے اربابِ حل و عقد یعنی صاحبُ الرائے لیڈران سے کئی دن مشاورت ان کی رضامندی کے حصول اور ایک آدھ اعتراض کو رفع کرنے کے بعد حضرت عمر فاروق کا انتخاب عمل میں آیا چنانچہ اسلامی تاریخ پر لکھی اولین کتابوں میں شمار ہوتی اپنی استنادی حثیت میں تام طبقات ابن سعد کا حوالہ پیش خدمت ہے۔
ابوبکر صدیقؓ پر بیماری نے غلبہ پا لیا اور اُن کی وفات کا وقت قریب آگیا تو اُنھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور اُن سے کہا: مجھے عمر بن الخطاب کے بارے میں بتاؤ، عبد الرحمنؓ نے جواب دیا: آپ مجھ سے ایک ایسے معاملے کے بارے میں رائے چاہتے ہیں جسے آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ابوبکرنے فرمایا: اگرچہ (یہ درست ہے، لیکن تم اپنی رائے دو۔) اِس پر عبدالرحمن بن عوف نے کہا: خدا کی قسم، وہ اُس رائے سے بھی بڑھ کر ہیں جو آپ اُن کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پھر اُنھوں نے عثمانؓ کو طلب کیا اور اُن سے کہا: مجھے عمر کے بارے میں بتاؤ۔ حضرت عثمان نے جواب دیا: ہم سے زیادہ آپ اُنھیں جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اِس کے باوجود، اے ابوعبداللہ، (میں آپ کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔) اِس پر حضرت عثمان نے کہا: بے شک، میں تو یہ جانتا ہوں کہ اُن کا باطن اُن کے ظاہر سے بہتر ہے اور اُن جیسا ہمارے اندر کوئی دوسرا نہیں ہے۔ "الطبقات الکبریٰ 3/ 199
اِن دونوں حضرات کے ساتھ ساتھ ابو الاعور سعید بن زید، اسید بن الحضیر اوراِن کے علاوہ مہاجرین و انصار کے دوسرے لیڈروں سے بھی مشورہ کیا اور یوں حضرت عمر کو بلا کر کچھ نصیحتیں اور ہدایت دے کر خلافت کی امانت ان کے سپرد کردی۔
جب حضرت عمر کو نمازِ سحر میں خنجر لگا اور علالت اور تکلیف نے شدت اختیار کی تو تب آپ نے چھ لوگوں کو خلافت کے لئے نامزد کیا اور ان کو باہمی گفت و شنید سے کسی ایک پر متفق ہونے کی ہدایت فرمائی
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ تاریخ سے نابلدی ہی کا نتیجہ ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر نے چھ لوگوں کی کمیٹی بنائی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر کے دور کے اختتام پر بھی سیاسی حقیقت وہی تھی جو حضور ﷺ اور حضرت ابوبکرکے زمانے میں تھی یعنی اب بھی اکثریت کا اعتماد قریش ہی کو حاصل تھا اگرچہ اسلامی سلطنت کے حدود شام و ایران تک پہنچ گئے تھے لیکن ان علاقوں کی حیثیت فوجی مقبوضات کی سی تھی۔
باقاعدہ نظام کا نفاذ ابھی تک ان علاقوں میں مروج نہ تھا لہذا وہاں کے رہنے والے امور سلطنت میں ابھی تک کسی لحاظ سے بھی دخیل نہ تھے لیکن ان دو حضرات یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے انتقال پر ملال کے بعد قریش کے اندر اتنا تغییر آچکا تھا کہ اب کسی ایک لیڈر کو پورے قریش کا اعتماد حاصل نہ تھا بلکہ لیڈرشپ تقسیم ہوچکی تھی کسی ایک کا انتخاب نزاع کا باعث بن سکتا تھا۔ لیڈرشپ اب پہلے کی طرح صرف ایک شخص میں مرتکز نہ تھی بلکہ اب ان چھ لوگوں میں منقسم تھی گویا سادہ لفظوں میں پوری سلطنت یا اکثریت کا اعتماد قریش کو حاصل تھا اور قبیلہ قریش کا اعتماد ان چھ لوگوں کو حاصل تھا لہذا انہی میں سے ان چھ کا کسی ایک پر اتفاق گویا پورے قبیلے کا اتفاق متصور ہوگا اور پورے قبیلے کا اتفاق سلطنت اسلامیہ کے سواد اعظم کا اتفاق ہوگا لہذا حضرت عمر نے فرمایا۔۔
میں نے تمھارے لیے امامت عامہ کے مسئلہ پر غور کیا ہے اور اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خلافت کے معاملے میں لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں، الاّ یہ کہ وہ تم میں ہو۔ پس اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ تمھارے اندر ہی محصور ہے۔ لہٰذا اب یہ معاملہ تم چھ اصحاب عبد الرحمن، عثمان، علی، زبیر، طلحہ اور سعد کے سپرد ہے۔ "(الطبقات الکبریٰ 3/ 344)
لہذا پہلے تین اصحاب ایک ایک کے حق میں دستبردار ہوئے چنانچہ زبیر، علی کے حق میں اور طلحہ و سعد، عثمان اور عبدالرحمن کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ عبد الرحمن بن عوف اس شرط پر اپنے حق سے دستبردار ہوئے کہ فیصلے کا اختیار ان کو دیا جائے لہذا حضرت علی اور حضرت عثمان کی رضامندی کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کے حق میں رائے دی حضرت علی نے جس کی تائید کی اور یوں بیعت عامہ کا انعقاد ہوا اور یوں امرھم شوری بینھم کے اصول کے عین مطابق حضرت عثمان کا تقرر عمل میں آیا۔
مگر جب حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت ہوئی تو نہ زمینی حقائق پہلے جیسے تھے نہ سیاسی عصبیت کا وہ عالم تھا اور نہ معاشرہ وہاں کھڑا تھا جہاں پیغمبر اسلام اور خلفاء ثلاثہ کے دور میں کھڑا تھا حالات نے وقت کی نزاکتوں کے تحت ایک گھمبیر شکل اختیار کرلی تھی زمانے کے داؤ پیچ نے ایک ایسی ان دیکھی اور خاموش سیاسی تغیر کو جنم دیا تھا کہ جس کا ادراک کسی کو نہ ہوا اور یہی جاوید احمد غامدی کا وہ بنیادی نکتہ ہے اور اس کو سمجھانے کے لیے طالب علم کو اس طویل پس منظر میں جانا پڑا اب وہ کیا تغییرات تھے سماجی ساخت میں وہ کیا غیر معمولی تبدیلیاں تھی کہ جس کا ادراک کیے بغیر ایک غیر معمولی صورتحال میں کہ جب ایک خلیفہ برحق ناحق شہید کیے گئے اور قاتلین دارلخلافہ پر قابض ہے ان حالات میں حضرت علی کی بیعت ہوئی اس کی پوری تفصیل اگلے بلاگ میں۔۔
جاری ہے۔۔