Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (2)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (2)
جیسا کہ میں اس بات کی نشاندہی کرچکا کہ جاوید احمد غامدی کا کربلا اور اس کے ساتھ جڑے اس سارے پس منظر کے بارے میں ایک منفر نظریہ ہے میرے خام مطالعے کی حدتک اس زاویے میں غامدی صاحب کا تفرد نہایت دلچسپ بربنائے منطق و دلیل اور انتہائی اعتدال سے عبارت ہے غامدی صاحب کربلا کے اس واقعے پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس دور کے معروضی حالات زمینی حقائق اور قبائلی معاشرے کے مجموعی مزاج جیسے بدیہی حقائق کو مدنظر رکھ کر اس سارے پس منظر کا احاطہ کرتے ہیں کہ جو اس تکلیف دہ واقعے کا محرک بنا۔
غامدی صاحب کے مطابق اس واقعے کو سمجھنے کے لئے حضرت علی اور حضرت معاویہ کے مابین ہوئی کشمکش سے ہوتے ہوئے خلفائے ثلاثہ کے دور کا بنظر عمیق تجزیہ کرنا ضروری ہے وہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں نظم اجتماعی کے لئے قرآن مجید نے یہ روشن اصول دیا ہے کہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ، یعنی مسلمانوں کا اجتماعی نظم ان کے باہمی مشورے سے چلے گا یہی وہ اصول ہے جسے اسلامی ریاست کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لئے ایک بنیادی ضابطے کی حیثیت حاصل ہے اور وہ مستند تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرتے ہے کہ اسی بنیادی اصول پر خلفائے ثلاثہ کا انتخاب ہوا۔
سب سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہوئے اس بنیادی اصول کی وضاحت کرتا چلوں کہ اسلامی ریاست میں حکومت کے انتخاب کا حق صرف اس ریاست کے عوام کو حاصل ہے (ان کے باہمی مشورے) میں عربیت کی رو سے فقط مشورہ لینا مقصود نہیں بلکہ یہی وہ مشاورت ہوگی جو ریاست کے امرا یا خلفاء کا انتخاب کریں گی (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں 'برھان 'از جاوید احمد غامدی، تفہیم القران جلد 4 صفحہ 509)اور اسی اصول کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مشاورت میں نزاع یا اختلاف پیدا ہوجائے تو اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہوگی یعنی پھر جس کو اکثریت کا اعتماد حاصل ہو جائے وہی امارت کا حقدار ہوگا۔
اسی اصول کے تحت حضرت محمد ﷺ نے وفات سے کچھ عرصہ پہلے فرمایا کہ میرے بعد اسلامی ریاست کی سربراہی قریش کو منتقل ہوجائے گی اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ جزیرۃ نما عرب میں لوگ قریش ہی کی سیادت و حکومت کو مانتے ہیں آپ نے فرمایا ھذا الامر فی قریش لا یعادیھم احد الاکبہ اللہ فی النار علی وجھہ ما اقاموا الدین۔ (بخاری، رقم7139)
"ہمارا یہ اقتدار قریش میں رہے گا۔ اِس معاملے میں جو شخص بھی اُن کی مخالفت کرے گا، اُسے اللہ اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا، جب تک کہ وہ دین پر قائم رہیں۔
چنانچہ انصار کو آپ نے ہدایت کی کہ قدموا قریشا ولا تقدموھا، 3 (اس معاملے میں قریش کو آگے کرو اور اُن سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو) اور اپنے اِس فیصلے کی وجہ یہ بیان فرمائی:
الناس تبع لقریش فی ھذا الشان، مسلمھم لمسلمھم وکافرھم لکافرھم۔ (مسلم، رقم 4701)
"لوگ اِس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ عرب کے مومن اُن کے مومنوں کے پیرو ہیں اور اُن کے کافر اُن کے کافروں کے۔۔
چنانچہ جب آپؑ کا وصال ہوا تو انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں بیٹھ کر سعد بن عبادہ(خزرجی سردار) کو خلافت کے لئے نامز کرنا چاہا عین موقع پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے مداخلت کی اور اسی حدیث کا حوالہ دیا اور یوں کیا انصار اور کیا مہاجر سب نے آقائے نامدار ﷺ کے اس ارشاد کے آگے سر تسلیم خم کیا اور ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت منعقد ہوئی۔
جاوید احمد غامدی فرماتے ہیں کہ اگر اسلامی ریاست صرف یثرب تک مقید رہتی تو شاید انصار کی سربراہی کا فیصلہ ہوتا کہ اس علاقے میں انصار ہی کو سیاسی عصبیت حاصل تھی اور لوگوں کا اعتماد ان پر تھا مگر آپ ﷺ کے دور میں اسلامی ریاست کے حدود عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے اور سارے عرب قریش ہی کی سربراہی سے مانوس تھے لہذا اسی اصول کا قبائلی نظم پر اطلاق کرکے اقتدار قریش کو منتقل ہوا یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت ابوبکرکے انتخاب کے وقت تو کوئی مشاورت نہ ہوئی اس کے جواب میں بخاری میں موجود حضرت عمر کا یہ خطبہ ملاحظہ ہوں۔
تم میں سے کوئی شخص اِس بات سے دھوکا نہ کھائے کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی اور لوگوں نے اُسے قبول کر لیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُن کی بیعت اِسی طرح ہوئی، لیکن اللہ نے اہل ایمان کو اُس کے کسی برے نتیجے سے محفوظ رکھا اور یاد رکھو، تمھارے اندر اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ ابوبکر کی طرح جس کے سامنے گردنیں جھک جائیں۔ لہٰذا جس شخص نے اہل ایمان کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی، اُس کی اور اُس سے بیعت لینے والے، دونوں کی بیعت نہ کی جائے۔ اِس لیے کہ اپنے اِس اقدام سے وہ گویا اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے"۔ (بخاری۔ رقم 2830)
اس وقت صورتحال کے نزاکت کے ضروری تقاضے کے طور پر قریش سے مشورہ لیے بغیر حضرت ابوبکرکے بیعت کا انعقاد ہوا۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی اور ابوبکر کا انتخاب اسلئے ہوا کہ اس وقت قریش میں سیاسی لحاظ سے حضرت ابوبکر کو جو عصبیت اور اعتماد حاصل تھا یہ واقعہ ہے کہ ان کے مقابل ان جیسا کوئی نہ تھا حضرت عمر کے الفاظ مستعار لوں تو حضرت ابوبکر تو وہ شخص تھا کہ جس کے آگے گردنیں جھک جاتی۔ لہذا لوگوں کی اکثریت کے ممکنہ اعتماد کے پیش نظر حضرت ابوبکر کو خلیفہ نامزد کیا گیا اور اسکے اگلے دن کسی نے کوئی اختلاف نہ کیا سب نے بلا چون چراں بیعت کی اور حضرت عمر کی یہ بصیرت افروز بات سچ ثابت ہوئی اور پھر اسی اصول کے تحت حضرت عمر کا انتخاب ہوا جس کی تفصیل اگلے بلاگ میں۔
جاری ہے۔۔