Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (1)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (1)
وقت کی پُر پیچ پگڈنڈیوں پر روبۂ سفر تاریخ اپنی ہی رفتار کے ساتھ کچھ دل فریب اور کچھ دل شکن واقعات اپنے دامن میں سمیٹے آگے بڑھتی جارہی ہے اور ہر زمانے پر اَن مٹ نقوش پیچھے چھوڑ کر وقت موجود کے اذہان کو مستقبل کی منصوبہ سازی کے لئے ایک قیمتی سرمایہ چھوڑے جارہی یے۔
ماہرین عمرانیات کے صدیوں کے گیان کا یہ حاصل مسلّم ہوچکا ہے کہ اپنی تاریخ کو استاد مان کر اور دورِ گزشتہ میں سرزد ہوئی کمیوں کو تاریخ کی روشنی میں جانچ کر ان سے تہی دامنی کا رویہ اختیار کرنے والی قومیں ہی نئی راہیں تلاش کرکے ترقی کے زینوں پہ چڑھتی ہیں اور یہی وہ اقوام ہیں جو دنیا میں تکریم و عظمت کی مسند پر براجمان ہوتی ہیں اور یہی وہ اصل اصول ہے جسے تجرباتی حقائق کی طاقتور تائید حاصل ہے۔
قوموں کی تاریخ میں ایسے فیصلہ کن واقعات گاہے گاہے وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں جو مستقبل میں قوموں کے مزاج اور سماجی تشکیلات کے لئے نئی بنیاد فراہم کرکے کسی بھی سماج کے بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں ایسے واقعات قوموں کو نئی راہوں سے آشنا کرتی ہے اور منزلوں کا تعین کرکے آسودگی کی اس ڈگر پر ڈالتی ہے کہ جس کا آخری سِرا قومی خوشحالی اور امن و آشتی سے عبارت ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس بعض دل خراش واقعات قوموں کی اجتماعی ڈھانچے کو پارہ پارہ کرکے ان میں ایک گہری تقسیم کا باعث بنتے ہیں اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انتشار ایک ناتواں بیج سے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرکے ایک طویل اور خون ریز کشمکش کے آغاز کا باعث بنتا ہے جو سماجی انحطاط اور قومی اضمحلال پر منتج ہوتا ہے۔
کربلا کا دلخراش واقعہ بھی کچھ اسی نوعیت کا تھاکہ جس نے امت محمد ﷺ کی مثالی وحدت میں ایک ایسا رخنہ ڈالا کہ جو آج تک پُر نہ ہوسکا اس واقعے نے ایک ایسے متوازی دینی فکر کو وجود بخشا کہ جو امت کے سواد اعظم سے علیحدہ ہوکر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے اور شیعہ سنی تفریق کی آگ آج بھی ایک دیمک کی طرح مسلمان امت کی اجتماعی یگانگت کو کھوکھلا کررہی ہیں۔
اس واقعے پر بہت کچھ لکھا جا چکا جو کئی مجلدات پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر اس خاکسار کی نظر سے گزرا ہے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون حق پر ہے اور کون بغاوت کا مرتکب ہوا۔ اسی بحث نے دو انتہائی زاویہ ہائے فکر کو وجود بخشا جن میں ایک گروہ یزید اور اس کے حواریوں کو احق ماننے پر تلے ہوئے ہیں جن کو ناصبی کہا گیا اور دوسرا گروہ یزید اور حزبِ یزید کو خون نا حق کا قاتل گردانتے ہوئے خلفاء ثلاثہ پر بھی چڑھ دوڑتا ہے جنہیں روافض کے اسم سے موسوم کیا جاتا ہے۔
بلاگز کے اس سلسلے میں ہم اس واقعے کے اصل محرکات کو جاننے اور اس پسِ منظر کا عمیق جائزہ لیں گے کہ جو اس دلدوذ واقعے کی وجہ بنا کہ اس پس منظر کو جانے بغیر کربلا میں ہوئے کربناک مظالم کے صحیح عوامل کا اندازہ لگانا اور کسی ایک فریق کے حق یا مخالفت میں فیصلہ صادر کرنا علمی خیانت ہوگی۔ بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس سلسلہ ہائے تحاریر میں ہم دور جدید کے دو جلیل القدر شخصیات جاوید احمد غامدی اور انجنیئر علی مرزا کے آراء کا تقابلی جائزہ لیں گے۔ قارئین کے شاید علم میں ہوگا کہ اس مخصوص واقعے کے حوالے سے محترم علی مرزا صاحب کو ایک سند کی حیثیت ہنوز حاصل ہے اس مسئلے پر ان کی گرانقدر تحقیق کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور جاوید غامدی سے تقابلی جائزے کی ضرورت احقر نے اس لئے محسوس کی کہ اس بابت جناب کی رائے ایسی منفرد اور نئی ہے کہ جو اپنے قوی دلائل کی وجہ سے قابل التفات بھی ہے اور تاریخی واقعات کو دیکھنے کے لئے ایک نئے زاویے سے آشنا کرانے کا باعث بھی۔
آپکو بتاتا چلو کہ برصغیر میں اس واقعے کے محرکات طے کرنے پر جن بڑے لوگوں نے قلم آزمائی کی ان میں محمود عباسی کی تحقیق (خلافت یزید و معاویہ) اس کے ردعمل میں مولانا۔ مودودی کی (خلافت و ملوکیت) اس کے رد میں مولانا تقی عثمانی کی (حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق) اور پھر تقی عثمانی صاحب کی کتاب پر جسٹس مالک غلام علی کی (خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ)کے نام سے تحقیقی نقد جیسی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن ان تمام اساطیر علم اور شناوران تاریخ کے ان آراء کا نچوڑ گویا جناب علی مرزا اور محترم جاوید غامدی کے آراء میں ایک طرح سے مرتکز ہوگیا ہے سب سے پہلے ہم جناب جاوید غامدی کے نکتہء نظر کا جائزہ لیتے ہیں۔۔
جاری۔۔