Asaib Ka Saya, Inteqami Siasat Aur Qaumi Izmihlal (2)
آسیب کا سایہ،انتقامی سیاست اور قومی اضمحلال(2)
میں پہلے لکھ چکا کہ کسی بھی قوم کی مجموعی ترقی ریاست اور شہری یا باالفاظ دیگر وفاق اور صوبوں کے باہمی اعتماد و معاونت میں مضمر ہے ریاست جب پوری قوت دلجمعی اور اخلاص نیت کے ساتھ ہر شہری کی جان مال آبروآزادئ تقریر و تحریر سمیت دوسرے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کریں گی اور یہ احساس ہر شخص کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگا کہ اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان کرتا دھرتا اس وقت تک اس منصب پر فروکش رہ سکتے ہیں جب تک عوام کی تائید انہیں حاصل ہوں اور جب یہ عوامی تائید سے محروم ہوجائے تو اقتدار کا یہ سنگھاسن انہیں پرے پھینک دےگا تب تک عوام اور ریاست کے درمیان باہمی یگانگت و معاونت کا رشتہ قائم رہے گا۔
یہی اتفاق و یگانگت کی فضا قوم کو سیاسی استحکام سے ہمکنار کرتی ہیں جمہوری ادراے مضبوط تر ہوتے جاتے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ مضبوط اور مستحکم سیاسی بنیادوں پر قائم اقوام ہی معاشی طور پر آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اسی سیاسی استحکام ہی میں پڑوسی ملک بھارت کی معاشی ترقی کا راز پنہاں ہے۔
سب پہلے سنیئے کہ آزادی کے بعد کس طرح بھارتی ریاست نے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرکے اپنے شدید ترین ناقدین و مخالفین کو بھی معاف کرکے اپنی ڈکشنری سے "غدار" ملک دشمن" جیسے الفاظ نکال کر ایک مستحکم سیاسی فضا کو پروان چڑھایا اور قابل و ذہین و فطین اذہان کو تعمیر وطن کا موقع فراہم کرکے ایک مربوط اور منظم سفر کا آغاز کیا۔
"ریاست ماں ہوتی ہے" کے مصداق مہاسبھائی سگھٹنی ساورکری اچھوتوں سرمایہ داروں کمیونسٹوں راجوں راجواڑوں سمیت سیاسی علاقائی اور مختلف لسانی گروہوں پر مشتمل بھارتی قوم کو کانگریسی حکومت نے اپنی آغوش میں جگہ دے کر اور اپنے روایتی اور سخت ترین نظریاتی دشمنوں کو معاف کرکے ان کی صلاحیتوں کو نوزائید مملکت کی تعمیر کے لئے خوب استعمال کیا چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
اچھوتو اور کانگریس کی رقابت مشہور ومعروف جن کے قائد ڈاکٹر امبید کر گاندھی جی کے شدید ترین مخالف تھے مگر آزادی کے بعد ریاستی بندوبست کی مالک و مختار کانگریس نے ان سے بھارت کا آئین لکھوایا چند بنیادی اختلافات کی بنا پر کانگریس کو خیر باد کہنے والے راجہ گوپال اچاریہ جو کہ نہرو گاندھی اور پٹیل پر کھلم کھلا تنقیدکیا کرتے اس کو نئی مملکت کا گورنر جنرل بنا دیا۔
ایک پارسی صنعت کار بھابھا کا کبھی کانگریس و سیاست سے کوئی واسطہ نہ تھا کسی بھی سیاسی فائدے اورنقصان سے قطع نظر اپنے لوگوں کو بائی پاس کرکے ان کو وزیر صنعت لگواکر معیشت کو سدھارنے کا کام انہیں سونپا گیا۔
انگریزوں کی آغوش میں بیٹھ کر آزادی کے لئے کی جانے والی ہر تحریک کے مخالف انگریز نواز سر ہومی مودی کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے نہرو نے اسے یو پی کا گورنر لگا دیا بلدیو سنگھ پنجاب یونیسٹ پارٹی کے سرکردہ قائد کو وزیر دفاع بنوایاگیا۔ سر گرجا شنکر باجپائی جسے کانگریسی حلقوں میں اپنے انگریز نوازی اور کانگریس پر بے جا تنقید کی وجہ سے سخت ناپسند کیا جاتا تھا اس کو اپنی فطانت کی بنیاد پر کانگریس کابینہ کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔
یہ چند مثالیں ہے وگرنہ اس طرح کی کئی ان گنت مثالیں دی جاسکتی ہے کہ کس طرح کانگریس نے حقیقی قومی جماعت بن کر مخالفت و موافقت سے بالاتر ہوکر وسیع تر قومی مفاد میں قابل ترین افرادکو کلیدی عہدیں دے کر ملک کی ترقی کے شاندار سفر کا آغاز کیا اور یوں دو سال سے بھی کم عرصے میں ملک کے لئے نیا آئین بنواکر اور الیکشن کرواکر عوام میں اس احساس کو مزید مضبوط کیا کہ وہی اس ملک کے اصل مالک و مختار ہے۔
اس کا حاصل یہ ہوا کہ جمہوری ادارے مستحکم بنیادوں پر قائم ہوگئے حکومت "عوام کی عوام کے لیے اور عوام کے زریعے" کا تصور اپنی حقیقی معنوں میں قائم ہوگیا اور مسلسل سیاسی استحکام نے معاشی استحکام کے لئے ایک مہمیز کا کام دیا جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے آزادی کے بعد ملکی بساط پر ایسے مفاد پرست ٹولے چھا گئے جن کے تمام مساعی کا مرکز و محور اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
ہماری آزادی کے بعد کیا ہوا؟ ملک نو سال تک بغیر آئین کہ کیوں رہا؟ سیاست کو کس طرح بے دریغ انتقام کے لئے استعمال کیا گیا؟ اور تشکیل پاکستان کے لئے اپنی ہر متاع لٹانے والے سرکردہ اور مخلص رہنا کیسے پس منظر میں دھکیل دیے گئے یہ دلدوز روداد آئندہ کالم میں ۔۔(جاری ہے)