1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Farhan/
  4. Asaib Ka Saya, Inteqami Siasat Aur Qaumi Izmihlal (1)

Asaib Ka Saya, Inteqami Siasat Aur Qaumi Izmihlal (1)

آسیب کا سایہ،انتقامی سیاست اور قومی اضمحلال (1)

روز افزوں تنزلی اور اضمحلال و انحطاط کی جانب محو سفر مادروطن کی سوختہ حالی کی ہمارے ایک مؤقر و معروف شاعر منیر نیازی نے اس شعر میں کیا موزوں نقشہ کھینچا ہے کہ

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

بظاہر تیز طرار اور تحرک میں ڈھلی ہماری مجموعی قومی چلن کے باوجود ترقی اور آسودگی کی جانب یہ کٹھن سفر آخر ختم ہونے کو کیوں نہیں آرہا؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم سمت کو متعین کیے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں اور ہر اٹھنے والا قدم ہمیں منزل سے دور لے جارہا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم سے ایک عرصہ بعد جبر و اسیری کی زنجیریں توڑنے والے اقوام آج ترقی اور خوشحالی کی رفعتوں میں محو پرواز جب کہ ہم ہنوز تنزلی کے پاتال میں رینگ رہے ہیں۔

بحر تاریخ کے شناور وقت کے حرکیات سے واقف دانش ور اور زمانے کے نبض شناس ہماری اس قومی زوال کے محرکات و عوامل کے بارے میں مختلف آراء پیش کرتے رہے ہیں ان کمیوں کوتاہیوں اور اجتماعی کجیوں کی نشاندہی بھی وقتا فوقتا ہوتی رہتی ہے جو ہماری اس اجتماعی انحطاط کی وجہ بن رہی ہے لیکن پھر بھی اجتماعی سطح پر نہ تدارک کی کوئی کوشش اور نہ ان کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ سعی ہورہی ہے اور سردست قومی زوال کا سفر اپنے آب وتاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

وہ عوامل جو ہمارے قومی انحطاط کا باعث بن رہے ہیں ان کی فہرست بہت طویل ہے لیکن میری دانست میں منجملہ دوسرے محرکات و عوامل کے جو سب سے اہم محرک ہے وہ انتقام میں ڈھلی ہماری طرز سیاست ہے جس کا آغاز وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے متصل بعد ہی ہوا۔

متقم مزاج طرز سیاست کی وجہ سے جہاں ایک طرف قوم کی صحیح رہنمائی کرنے والے زیرک اور اقتضائے وقت کے ادراک سے واقف دوراندیش اور ملک و قوم کا احساس رکھنے والے حقیقی رہنما حاشیوں میں دھکیل کر ریاستی بندوبست کی نکیل چند ابن الوقت دولت کے پجاری اور نظریات کے سوداگروں کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔ وہی ریاست اور عام شہری کے درمیان اعتماد کے رشتےکو شدید ٹھیس پہنچا جس کے نہایت خطرناک نتائج میں پالستان کادولخت ہونا سرفہرست ہے۔

ریاست اور شہری ایک عمرانی معاہدے میں بندھے ہوتے ہیں شہری اپنی کمائی کا ایک معقول حصہ ٹیکسز کی صورت میں ریاست کو ادا کرتا ہے جس کے بدلے ریاست شہری کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے اور کسی بھی شہری کی جان مال اور آبرو کے خلاف اٹھنے والے ہر قوت سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتا اور شہریوں کو خوف میں مبتلا کرنے والے ہر شر کی بیج کنی کرتا ہے جب تک ریاست اور شہری اپنی ذمہ داریوں کے شدید احساس کے ساتھ اپنے فرائض سے بطریق احسن عہدہ براہ ہوتے ہیں تب تک معاشرہ ایک نظم اور ضابطے میں منضبط ایک ریاضیاتی ربط کےتحت آگے بڑھتا اور ترقی کے زینے چڑھتا ہے۔

لیکن ان دونوں میں سے کوئی ایک فریق بھی جب اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کا ارتکاب کردے یا شہری اور ریاست میں ہوئے عمرانی معاہدے(آئین) میں طے شدہ اختیارات سے تجاوز کرے تو نہ صرف معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے بلکہ ریاست کا وجود بھی خطرات کی زد میں آکر اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہوجاتا ہے جو بالا آخر ریاستی وحدت کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے بطور مثال ملاحظہ ہوں پاکستان کی قومی تاریخ از اگست۱۹۴۷تا دسمبر۱۹۷۱۔

ہمارے ہاں تاریخ کے اکثر طالبعلموں کے مباحث کا یہ موضوع ہوتا ہے کہ آخر کیا افتاد ہمارے ملک پہ آن پڑی ہیں کہ بھارت جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا آج ان کی معیشت کے حجم کے مقابلے میں ہماری معیشت اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں معیشت کے ساتھ ساتھ تعلیم سائینس انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں وہ ہم سے صدیوں آگے ہیں۔

معاشی میدان میں اس برق رفتارترقی کی بنیادی وجہ وہی ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کی فضا ہے وہاں کی ریاست اور ہماری ریاست کے طرز عمل میں وہ بنیادی فرق کیا تھا جس نے ہندوستان کو آج دنیا کی عظیم اقوام میں شامل کردیا جبکہ ہم آج بھی کشکول بدست خجل خوار ہورہے ہیں اس کا ذکر آئندہ کالم میں (جاری ہے)

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed