Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sumaira Anwar/
  4. Hasool e Tamaniat Aur Sakoon, Magar Kaise?

Hasool e Tamaniat Aur Sakoon, Magar Kaise?

حصول طمانیت اور سکون، مگر کیسے؟

والدین، گھر میں خوشگوار ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہن، بھائیوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ایک دوسرے سے حسد اور مقابلہ بازی کو گھر کے ماحول کا حصہ سمجھا جاتا ہے جسے والدین جان بوجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کے بچوں کو ان مسائل اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے زندگی میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔

ہمیں ان کا ماحول خود بنانا ہو گا، انھیں سمجھانا ہو گا اور ایسے احساسات سے آگاہ کرنا ہو گا جو ان کی زندگی کی شاہراہ کو خوبصورت اور روشن قمقموں سے سجا دے۔ بچوں کی عادات، طور طریقے اور ان کی ذہنی حالت کا زیرک نگاہوں سے مطالعہ کرنا ہی ان کے ماحول میں تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ والدین کا ایک دوسرے کے ساتھ مثالی برتاؤ اور زندگی گزارنے کے طور طریقے بچوں کے ماحول کو بنانے اور بگاڑنے میں معاون ہوتے ہیں۔

بچوں کی شخصیت کی بہتری کے لیے سب سے پہلے ان کے نفسیاتی پہلوؤں کو سامنے رکھنا ہو گا۔ چھوٹے بچے بہت جلدی پر کشش چیزوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور ان پر بھرپور توجہ اور دلچسپی لینے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا بچوں کی اسی رگ کو پکڑا جائے اور انھیں دلچسپ طریقوں سے سمجھا جائے۔ ماں بچوں کو مختلف رنگوں سے سجاوٹی اشیاء بنانا سکھائے پھر اس پر ان کی رائے لے اور جانیں کہ بچے کس چیز کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں؟

بہن، بھائیوں کی آپس میں محبت کو اس طرح سمجھائے کہ وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو اپنی پریشانی سمجھیں۔ انھیں اپنے کمرے کی صفائی اور ترتیب سے اشیاء کا خیال رکھنا سکھایا جائے اور بتائیں کہ صفائی ہماری زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے۔ ہفتے میں ایک دن ایسا رکھا جائے کہ صرف بچوں کی پسند کا کھانا بنایا جائے اور اس دن روزمرہ کے کاموں سے ہٹ کر خوب لطف اٹھایا جائے۔

ماں یا باپ دونوں میں سے کوئی باری باری بچوں کو روزانہ سوتے وقت اچھی اور اخلاق سے بھرپور کہانی سنائے یا کوئی ایسا واقعہ سنائے جس کے ان کی زندگی پر دیرپا اثرات ہو سکیں۔ تقریبات میں شرکت کے آداب بتائیں اور ان پر گہری نظر رکھیں اور جائزہ لیں کہ آپ اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہیں؟ ڈانٹ ڈپٹ بھی کریں لیکن زیادہ پیار اور توجہ سے سمجھائیں اور ان میں احساس پیدا کریں کہ وہ اپنے عمل سے مطلوبہ کام کو مزید بہتر سے بہترین بنا سکتے ہیں۔

ایک بات جس کا والدین بالکل خیال نہیں کرتے کہ جب مہمان یا عزیز و اقارب موجود ہوں تو ان کے سامنے ہی اپنے بچوں کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ یہ پہلو ضرورت سے زیادہ منفی رخ اختیار کر لیتا ہے اس سے ایک تو یہ نقصان ہوتا ہے کہ بچے بہت زیادہ ڈھیٹ ہو جاتے ہیں اور دوسرا ان کے دل میں والدین کے لیے عزت اور احترام بھی ختم ہو جاتا ہے۔

بچوں کی بہتری اور روشن مستقبل کے لیے ماں اور باپ دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب وہ اپنے بچوں کا مثبت ماحول بنائیں ان کی نشوونما اور شخصی تعمیر میں ان پہلوؤں کو مدنظر رکھیں جو ان کی خوشگوار زندگی کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بچے ماؤں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، ہر اچھی اور بری عادت ان سے اپناتے ہیں۔

ان کے مزاج میں پائی جانے والی زیادہ تر خوبیاں اور خامیاں ماں کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہیں لیکن باپ بھی اپنے بچوں کی تربیت اور ماحول میں پائی جانے والی تبدیلیوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ بچوں کے بگڑنے میں جتنا کردار ماحول کا ہوتا ہے اتنا ہی والدین اور دوست، احباب کا ہوتا ہے۔ اگر والدین اس بات کو ذہن میں رکھ لیں کہ ہم نے خود اپنے بچوں کے لیے اپنی پسند کا اور متوازن اصولوں پر مشتمل ماحول بنانا ہے تو بچوں کے کردار میں خاطر خواہ تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں اور انھیں اخلاقی زندگی سے بھی با آسانی آشنا کیا جا سکتا ہے۔

بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو اس کے محسوسات کی حس بہت تیزی سے کام کرتی ہے، وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں پر نہ صرف نظر رکھتا ہے بلکہ اپنے والدین کی ہر بات بہت توجہ سے سنتا اور محسوس کرتا ہے۔ والدین کی آپس میں کشیدگی اور آئے دن کے لڑائی جھگڑے گھر کے ماحول پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں جب والدین خود تہذیب اور شائستگی سے دور ہوں گے تو یہ رویے بچے پر اچھے تاثرات کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟

چھوٹی عمر میں بچے تیزی سے سیکھتے ہیں اس لیے والدین کی یہ ہی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے شروع دن سے ہی ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگ جائیں جس کی خواہش ان کے دل میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اچھی اور بری عادات میں فرق بتائیں اس عمر میں بچوں کو توجہ اور نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بچیاں ماؤں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں وہ چھوٹے چھوٹے کام سر انجام دینے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔

زیادہ تر مائیں انھیں سختی سے منع کرتی ہیں کہ باورچی خانے میں نہ آئیں کیوں کہ ابھی وہ یہ سب نہیں کر سکتیں اور انھیں ٹھیک سے کرنا بھی نہیں آتا۔ لیکن اگر اس بات کو دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس کے اچھے نتائج نہیں نکلتے۔ بچیاں ماؤں سے دور رہنے لگتی ہیں وہ ان کاموں سے چڑچڑاہٹ محسوس کرنے لگتی ہیں اب جب بھی ماں انھیں کسی کام کے لیے بلائے گی وہ اچھا رد عمل نہیں دکھائیں گی بلکہ وہ کام سے انکار ہی کریں گی۔

آہستہ آہستہ یہ رویہ پختہ ہوتا جائے گا اس طرح گھر کے ماحول میں عجیب سی بد مزگی پیدا ہو گی اور اس خرابی کو مشترکہ خاندان کے ساتھ رہنے پر ڈال دیا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہو رہا ہے اور بچیاں زبان درازی کر رہی ہیں انھیں پھوپھو، دادی یا چچی بھڑکا رہی ہیں ان کے کان بھر رہی ہے۔ اس کے بجائے اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ وہ خود اپنے عمل سے کیا کر رہی ہیں؟

اگر وہ اپنی بچیوں کو پیار سے اپنے ساتھ کھڑا کریں اور سمجھائیں کہ جس طرح مجھے کرتا دیکھو پھر اسی طرح خود کرنا لیکن ضروری نہیں کہ ویسا ہی ہو جیسا میں نے کیا ہے بلکہ کچھ کمی بیشی ہو سکتی ہے جو کچھ عرصے بعد خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ یہ ہے مثبت ماحول کا خوشگوار رویہ جس میں کامیابی کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ موبائل یا لیپ ٹاپ بچوں کے ہاتھ میں کون دیتا ہے؟ ہم خود دیتے ہیں اور پھر ان کا گیمز اور دوسری خرافات کی طرف لگاؤ دیکھ کر سر پکڑ بیٹھ جاتے ہیں۔

اگر ہم اس سے پہلے ہی سنبھل جائیں اور انھیں موبائل کی جگہ کوئی اچھی کتاب پڑھنے کے لیے دے دیں تو نوبت یہاں تک نہ آئے۔ کہ کچھ بچے اپنی الگ تھلگ دنیا بنا لیتے ہیں اور والدین سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ کچھ خاموش طبع ہے لیکن سوچنے والی بات ہے کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح ہنستا اور کھیلتا کیوں نہیں ہے؟ دراصل وہ کم گو نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی وجہ ہو گی جسے تلاش کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے آپ کا بچوں سے غیر مساوی سلوک بھی اس کی ایک وجہ ہو۔ یہ صورت حال بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ کہیں چھوٹوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور کسی جگہ بڑوں کو فیصلے کا حق دیا جاتا ہے جس سے باقی بچوں میں یا تو خود سری آجاتی ہے یا وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر دبو سی شخصیت بن جاتے ہیں تو اس میں کون ذمہ دار ہے؟ کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارا اس میں کتنا قصور ہے انھیں ایسا بنانے میں ہماری کیا غلطی ہے؟

ہم نے کبھی انھیں وقت دیا، ان سے کوئی پریشانی یا خوشی شئیر کی؟ نہیں ناں! تو بس یہ ہی ماحول ہم نے انھیں دیا ہے۔ بے جا آزادی اور بلاوجہ کی روک ٹوک ہمارے بچوں کو ایک متوازن اور شاندار زندگی نہیں دے سکتی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم ماحول کو اپنے قابو میں کر سکتے ہیں اسے اپنے انداز میں ڈھال سکتے ہیں ہمیں خود ہی ماحول کو اپنے طور طریقے سکھانے ہوتے ہیں۔

زندگی کی خوبصورتی سے مزین طریقوں سے آشنائی کے لیے خود کو ماحول کے سپرد نہیں کرنا بلکہ ماحول کو اپنی اقدار کے مطابق چلانا ہوتا ہے۔ بچوں کی صحت مندانہ سرگرمیوں پر توجہ دینا انھیں اپنی موجودگی میں زندگی کی رنگینی سے واقفیت دلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ادب و آداب سے آگاہ کرنا اور اخلاقی اصولوں کی سوجھ بوجھ دینا ماحول کی نہیں والدین کی ذمہ داری ہے۔ تو کیا ہم صحیح معنوں میں بنائے گئے ماحول کے عناصر کو اپنے طور پر تبدیل نہیں کر سکتے؟

کیا ان میں کمی بیشی کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے؟ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل اور ان کی روشن زندگی کا سوال ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جسے ہم نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ اچھے دوستوں کے انتخاب میں اپنے بچوں کی ہمیں مدد کرنی ہو گی، انھیں دوستی کے چناؤ کے اصول بھی سکھانا ہوں گے تاکہ وہ اچھی صحبت سے لطف اٹھائیں بجائے اس کے کہ غلط صحبت ان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی پریشانیوں سے دو چار کرے۔ بچوں سے دوستانہ انداز سے بات کریں گے تو ایک تمانیت سے بھرپور ماحول پیدا ہو گا۔

Check Also

Som Aur Seyam Mein Farq

By Toqeer Bhumla