Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Tabdeeli Ka Khof

Tabdeeli Ka Khof

تبدیلی کا خوف

تبدیلی کا خوف انسانی فطرت کا ایک پیچیدہ حصہ ہے، جس کی جڑیں انسان کے شعور اور لاشعور میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔ شعور وہ حصہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی روزمرہ کی زندگی سوچتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، اور چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ لاشعور ایک چھپی ہوئی دنیا ہے، جہاں ہماری پُرانے تجربات، خوف، امیدیں، اور عادات کا ذخیرہ محفوظ ہوتا ہے۔ یہ لاشعور ہے جو تبدیلی کے وقت خوف اور عدم تحفظ کو جنم دیتا ہے، کیوں کہ وہ ہمارے لیے غیر مانوس اور نا معلوم چیزوں سے خوفزدہ ہوتا ہے۔

تبدیلی کے خوف کی بنیادی وجہ انسانی عادات کی جکڑ ہے۔ جب ہم اپنی زندگی میں ایک طرزِ عمل اپناتے ہیں تو وہ ہماری شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ لاشعور میں موجود عادات ہمیں سکون اور تحفظ فراہم کرتی ہیں، اور جب کوئی نئی تبدیلی ان عادات کو چیلنج کرتی ہے، تو شعور اور لاشعور کے درمیان ایک تصادم پیدا ہوتا ہے۔ اس تصادم کی وجہ سے انسان تبدیلی سے گھبرانے لگتا ہے، کیوں کہ شعور کی سطح پر تبدیلی کو تسلیم کرنے کے باوجود لاشعور اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اندر خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار باہر کے عوامل کو ٹھہراتے ہیں اور اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے بجائے اپنی مایوسیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ لاشعور کی یہ منفی سوچ انسان کو مزید کمزور بناتی ہے، اور وہ وقت کے تغیرات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ حالانکہ شعوری سطح پر وقت کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کرنا ہی کامیابی کا راز ہے۔

انسان کی شعوری اور لاشعوری حالت کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے فلسفیانہ طور پر قبولیت کی اہمیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قبولیت اس بات کا نام ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں، خوف اور عدم تحفظات کو تسلیم کریں، اور انہیں اپنی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے ان سے سیکھیں۔ یہ رویہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کی تبدیلیاں دراصل ترقی کی راہیں کھولتی ہیں۔ جب ہم اپنی زندگی میں تبدیلیوں کو قبول کرتے ہیں، تو ہم اپنے شعور اور لاشعور کے درمیان ایک توازن قائم کرتے ہیں، جس سے ہماری زندگی میں بہتری آتی ہے۔

ایک اور اہم پہلو جو اس موضوع کو مضبوط بناتا ہے وہ ہے فرد کی آزادی اور معاشرتی قوانین کے درمیان توازن۔ ہر انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ آزاد رہے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، مگر ایک منظم معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے ہمیں کچھ معاشرتی اصولوں کی پابندی بھی کرنی ہوتی ہے۔ یہ توازن قائم کرنا انسان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے، کیوں کہ فرد کی آزادی اور معاشرتی پابندیوں کے درمیان تنازعہ ہمیشہ موجود ہے۔

نفسیاتی طور پر، انسان کو آزادی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو پروان چڑھا سکے اور اپنے مقصد کی تکمیل کر سکے۔ مگر فلسفیانہ طور پر، معاشرتی اصول و ضوابط کی بھی اہمیت ہے، کیوں کہ یہ اصول معاشرتی ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔ اگر ہر فرد صرف اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے اور معاشرتی اصولوں کو نظر انداز کرے تو ایک بے ترتیب اور غیر مستحکم معاشرہ وجود میں آئے گا، جس میں نہ امن ہوگا اور نہ ترقی۔ اس لیے فرد کی آزادی اور معاشرتی پابندیوں کے درمیان توازن قائم کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں ترقی اور معاشرتی ہم آہنگی کو بھی برقرار رکھ سکیں۔

تبدیلی کے خوف کا ایک اور پہلو خود نظم و ضبط کے خلاف مزاحمت بھی ہے۔ جب ہم کسی نئی راہ پر چلنے کا ارادہ کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی عادات اور رویے میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے، جس کے لیے نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر انسان اپنی آسانی میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے اور اس نظم و ضبط کو اپنانے سے گھبراتا ہے جو اسے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے قابل بناتا ہے۔ خود نظم و ضبط کو اپنانا ہی ہمیں تبدیلی کے خوف سے آزاد کر سکتا ہے۔

تبدیلی کے اس خوف کو تنظیمی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ کوئی ادارہ ہو یا معاشرہ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی مخصوص طرزِ عمل سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوتی۔ فرد کی آزادی، معاشرتی قوانین، شعور، لاشعور، اور خود نظم و ضبط کے درمیان توازن پیدا کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے، مگر یہ وہی عمل ہے جو انسان کو اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس تبدیلی کے خوف سے آزاد ہونے کے لیے ہمیں اپنی خود ترسی اور خود پستی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا، اور اپنے اندر وہ اعتماد پیدا کرنا ہوگا جو ہمیں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کے قابل بنا سکے۔ ہمیں اپنے اندر وہ حوصلہ پیدا کرنا ہوگا جو ہمیں اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے اور انہیں دور کرنے کی طاقت دے۔

وقت کا دھارا کبھی نہیں رکتا، اور جو لوگ اس کے ساتھ چلتے ہیں، وہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہیں، جبکہ جو لوگ اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی میں تبدیلی لانے، اپنے شعور اور لاشعور کے تصادم کو ختم کرنے، اور اپنی زندگی کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے محنت کرنی ہوگی۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک بہتر، متوازن، اور کامیاب زندگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Check Also

Ustadon Ka Aalmi Din

By Fatima Khan