Fitrat Se Hum Aahang Zindagi
فطرت سے ہم آہنگ زندگی
انسانی معاشرہ ہمیشہ ایک پیچیدہ توازن پر مبنی ہوتا ہے، جہاں انفرادی کرداروں کا مجموعہ ہی اجتماعی حالت کو جنم دیتا ہے۔ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارا سماج خوشحال ہو، رشتے مضبوط ہوں، اور ہر فرد ذہنی سکون میں رہے، لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے اندر جھانکا ہے کہ ہم اس بہتر دنیا کی تشکیل میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ فطرت کے کچھ بنیادی قوانین ہیں، جن کی ہم اکثر نادانی میں خلاف ورزی کرتے ہیں، اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ کیوں ہماری زندگی میں توازن، سکون، اور خوشی کی کمی ہے۔
فطرت کا پہلا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ "اگر کھیت میں دانہ نہ ڈالا جائے تو قدرت اسے گھاس پھوس سے بھر دیتی ہے"۔ یہ ایک بے حد گہرا اصول ہے جو ہماری ذہنی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہمارا ذہن فعال طور پر علم، فکر، اور مثبت خیالات سے نہیں بھرا جائے گا، تو یہ منفی اور بے کار خیالات کا گڑھ بن جائے گا۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ خلا کو برداشت نہیں کرتا، اس لئے جب ہم خود کو تعمیری سرگرمیوں اور خیالات سے محروم رکھتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں غیر تعمیری اور خود غرضانہ سوچیں خود بخود داخل ہو جاتی ہیں۔
یہاں ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ ہمارا ذہنی غذائی نظام کیا ہے؟ ہم کس قسم کی سوچوں کو پروان چڑھا رہے ہیں؟ کیا ہم شعوری طور پر اپنے ذہن میں مثبت خیالات اور علم بھر رہے ہیں، یا لاشعوری طور پر اپنے آپ کو غفلت اور منفی رویوں کے حوالے کر چکے ہیں؟ ہمارے اردگرد موجود ڈیجیٹل اور فکری دنیا ہمیں مسلسل متوجہ کرتی ہے، اور اگر ہم شعوری کوشش نہیں کریں گے، تو ہم جلدی سے خود کو ایک غیر محسوس مگر مہلک جال میں پھنسا ہوا پائیں گے۔
دوسرا قانون، "جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ وہی بانٹتا ہے" ہمیں انسانی فطرت کی ایک اور سچائی سے روشناس کراتا ہے۔ یہ قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی اپنے دل و دماغ میں رکھتے ہیں، وہی ہمارے ارد گرد کے لوگوں تک منتقل ہوتا ہے۔ اگر ہم خوش ہیں، تو ہم خوشی بانٹیں گے۔ اگر ہمارے اندر خوف یا مایوسی ہے، تو وہ بھی دوسروں تک پہنچے گی۔ یہاں یہ اہم ہے کہ ہم اپنی اندرونی کیفیت کو کیسے ترتیب دے رہے ہیں۔ کیا ہم خود کو مسلسل مایوسیوں اور شکایات میں مبتلا رکھ کر اپنی دنیا کو بھی انہی احساسات سے بھر رہے ہیں؟
فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسان اپنی داخلی دنیا کا عکس اپنے خارجی ماحول پر منتقل کرتا ہے۔ اگر ہمارے اندر ناپسندیدگی، غصہ، یا مایوسی ہے، تو یہ ضرور ہمارے اردگرد کے لوگوں پر اثر انداز ہوں گے۔ اس لئے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے کیا بانٹ رہے ہیں؟ ہماری فکر، ہمارے احساسات، اور ہمارے الفاظ کس قسم کی دنیا بنا رہے ہیں؟ اگر ہم ایک بہتر معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی داخلی دنیا کو خوشگوار، مثبت اور متوازن بنانا ہوگا۔
فطرت کا تیسرا قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ "آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو، اسے ہضم کرنا سیکھیں"۔ یہ اصول انسانی شخصیت کے توازن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی، خواہ وہ مادّی ہو یا فکری، ہمیں بے سکونی اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔ ہماری کامیابیاں، ہمارے وسائل، اور ہمارے تجربات سب ہمارے اندرون پر اثر ڈالتے ہیں۔ اگر ہم اپنی کامیابیوں پر غرور کرتے ہیں یا اپنے وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں، تو یہ ہماری شخصیت میں عدم توازن اور خودغرضی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنی ناکامیوں کو قبول نہیں کرتے، یا ان سے سیکھنے کی بجائے ان میں ڈوب جاتے ہیں، تو ہم مایوسی اور ناامیدی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔
فلسفہ کا یہی بنیادی نقطہ ہے کہ انسان کو ہر حالت میں توازن اور اعتدال کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ یہ توازن ہماری ذہنی اور روحانی صحت کے لیے لازمی ہے، اور اس کے بغیر ہم نہ تو اپنی ذات میں سکون پا سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے کے لیے کوئی تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم مال و دولت کو صحیح طریقے سے ہضم نہیں کرتے، تو یہ ریاکاری اور خودغرضی کا باعث بنتا ہے۔ اگر ہم باتوں اور تعریفوں کو ہضم نہیں کرتے، تو ہم غرور کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آج کے دور میں، جہاں ہر شخص اپنی انا اور کامیابیوں کی بنیاد پر دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے، کیا ہم اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو متوازن طریقے سے ہضم کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی زندگی کی ہر چھوٹی بڑی حقیقت کو اپنی شخصیت میں متوازن طریقے سے شامل کر رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور زندگی کے ہر تجربے کو ایک موقع کے طور پر دیکھنا ہوگا، جس سے ہم کچھ سیکھ سکیں۔
یہ تین فطری اصول ہمیں اپنی ذات میں بہتری لانے کا ایک جامع فکری نظام فراہم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے ذہن کو اچھے خیالات سے بھرنے کا عہد کریں گے، اپنی اندرونی دنیا کو مثبت بنائیں گے، اور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو ہضم کریں گے، تو ہم خود بخود ایک بہتر انسان بنیں گے اور ہمارا معاشرہ بھی مثبت تبدیلیوں کی طرف گامزن ہوگا۔
یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس دنیا میں کیا بانٹتے ہیں، اور اسی کے مطابق ہماری دنیا تشکیل پاتی ہے۔ ہم سب کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم کس قسم کا معاشرہ چاہتے ہیں، اور کیا ہم خود اس معاشرے کی بہتری میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟ یہ اصول نہ صرف ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کرتے ہیں، بلکہ ہمارے روزمرہ کے زندگی کے ہر پہلو میں عملی رہنمائی بھی دیتے ہیں۔ جب ہم ان اصولوں پر عمل کریں گے، تو ہمیں نہ صرف ذاتی سکون حاصل ہوگا، بلکہ ہمارے اردگرد کے لوگ بھی اس سکون اور خوشی کو محسوس کریں گے، اور یہ ہمارا سب سے بڑا تحفہ ہوگا۔