Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Shah Dole Ke Chuhe (1)

Shah Dole Ke Chuhe (1)

شاہ دولے کے چوہے (1)

میرا نام رخشندہ بٹ ہے۔ اسی سال میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج سے بی اے کیا ہے۔ خاندان میرا کچھ خاص بڑا نہیں، بےبے، ابا، دو بھائی اور دو بہنیں۔ میرا یعنی رخشندہ کا نمبر دوسرا ہے، پہلے بھائی آفتاب، پھر میں، پھر شہاب اور پھر چھوٹی یعنی تابندہ۔ پنجاب کالونی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں وہیں مین بازار میں ابے کی بڑی ساری ہول سیل کی دکان ہے "بٹ اینڈ سنز "کے نام سے۔

بھائی تو پولی ٹیکنک پاس کر کے KESC میں ملازم ہو گیا اور وہ تو بن گیا بابو صاحب، لہٰذا وہ تو اب کریانے کی دوکان کے قریب پھٹکتا بھی نہیں۔ شہاب البتہ پکڑائی میں آ جاتا ہے سو اس کو شام سات سے رات دس بجے تک لازمی اسٹور پر حاضری دینی پڑتی ہے۔ چھوٹی ابھی میٹرک میں آئی ہے۔ بےبے ہی گھر کا زیادہ کام دیکھتی تھیں مگر جب سے میری شادی کی تاریخ ٹھہری ہے، بےبے کو ایک دم سے مجھے زبیدہ طارق پارٹ ٹو بنانے کا شوق چڑ آیا ہے۔

سو آج کل میری سختی آئی ہوئی ہے، ہانڈی روٹی تو ہے ہی ساتھ میں سلائی کی کلاس میں بھی داخلہ دلا دیا گیا ہے۔ بےبے کو سو بار یو ٹیوب کی افادیت اور بازار میں شان مسالحہ کی بھرمار کی خبر گوش گزار کی، مگر نہیں صاحب بےبے نے تو تہیہ کر لیا ہے کہ مجھے سگھڑ بنا کر ہی دم لیں گی۔ میری من مانی کی تمام کوششیں فیل کہ فوراً ہی ملکہ جزبات بنتے ہوئے ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آتی ہیں۔

کچھ میرا اپنا دل بھی میکے کی جدائی کے خیال سے رقیق ہے تو سب مل ملا کے بےبے کا رخشے سدھار پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ میں یعنی رخشے کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کی بھی فرصت نہیں۔ ویسے میرا مشغلہ یوٹیوب پر معلوماتی فیچر اور ڈاکومنٹری دیکھنا ہے۔ مجھے ڈرامے اور فلموں سے کبھی بھی شغف نہیں رہا۔ شادی میری میرے تایا زاد یعقوب سے طے ہوئی ہے، وہی بچپن کی منگ والا سلسلہ۔

یعقوب شارجہ میں ہوتا ہے۔ اس نے بھی پولی ٹیکنک کی پھر بی ٹیک(B Tec) کر کے پکا انجینیر صاحب بن گیا۔ شادی پر ایک ماہ کی چھٹی لے کر آ رہا ہے، بعد میں مجھے بھی بلا لے گا۔ اس کا خیال تو یہی تھا کہ نکاح پہلے ہی ہو جاتا تاکہ وہ کاغذات بنوا کر لاتا اور ہم ساتھ ہی شارجہ روانہ ہو جاتے پر تائی جی نے پسوڑی ڈال دی کہ "نی ہائے نوں سسرال میں نہیں رہے گی۔ میری پہلی پہلی بہو ہے اور میں نے اپنے سو ارمان پورے کرنے ہیں۔ "

لو جی میں تو ان کے ارمانوں پر واری گئی۔ سسرال سیالکوٹ میں ہے۔ یعقوب سے بڑی بہن باجی فرخندہ شادی شدہ اور اسی محلے میں جہاں میری سسرال ہے وہی رہتی ہیں۔ یعقوب سے چھوٹا یوسف اور پھر نمرہ۔ شادی ہوئی اور میں سیالکوٹ سدھاری۔ سیالکوٹ کوئی اجنبی شہر نہیں تھا کہ تایا کے گھر کی وجہ سے یہاں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ میرا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا کہ سب ہی اپنے لوگ تھے، محبتی اور مان والے۔

تین ماہ بعد میں شارجہ آ گئی۔ زندگی مصروف تھی۔ میری بلڈنگ میں ہندوستانی اور پاکستانیوں کی کثرت سو میں نے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کر دی اور میرا وقت بھی آسانی سے کٹنے لگا۔ دو سال بعد بھائی کی شادی پر پاکستان کا چکر لگا۔ میکہ، سسرال سب جمع تھا اور گرما گرم موضوع میری خالی گود تھی۔ بےبے کچھ رنجیدہ اور ساس شمشیر برہنہ تھیں۔

یا اللہ! یہ کیا ماجرہ ہے؟ بھلا ہو یعقوب کا، جس نے بخوبی اس کشیدہ صورت حال کو سنبھال لیا۔ بھائی کی شادی کے بعد بےبے مجھے آغا خان ہسپتال بھی لے گئی۔ سب رپورٹ ٹھیک تھی۔ ڈاکٹر نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ بھئی دو ہی سال ہوئے ہیں شادی کو! اس قدر واویلا کس لیے؟ میری واپسی شارجہ عافیت کے ساتھ ہوئی پر دل ذرا گھائل تھا۔ یہاں وہی روٹین کی مصروف زندگی پر اب اولاد کی کمی مجھے بھی کھٹکنے لگی تھی۔

یعقوب سے کہا تو اس نے کہا کہ اس بات کو سر پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں، جب مالک نے اولاد دینی ہو گی ہو جائے گی۔ جو میسر ہے اس پر خوش رہو اور جو فی لحال نہیں اس کے آزار میں مبتلا ہونا غیر مناسب۔ میں یعقوب کی دل سے قدر دان تھی اور اپنی خوش بختی پر نازاں بھی کہ اتنے سمجھدار اور کھلے ذہن کے انسان کا ساتھ نصیب تھا۔ پاکستان آنا جانا رہتا، ساس کے طعنوں تشنوں سے دل خراب ہوتا اور ہر بار یعقوب سنبھالا دیتے۔

میری شادی کے چھٹے سال، نمرہ کی شادی پر پاکستان آنا ہوا، خیر سے شادی ہوئی اور نمرہ بیاہ کر لاہور گئی۔ تائی کی طبیعت خاصی خراب رہنے لگی تھی سو تایا نے یعقوب سے کہا کہ بہو کو کچھ عرصہ سسرال ہی رہنے دیا جائے تاکہ تائی کا دل بہلا رہے۔ نہ یعقوب اس بات کے ہامی تھے اور نہ ہی میرا دل راضی تھا پر کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی انکار ممکن نہیں ہوتا۔ یعقوب مجھے سمجھا بجھا کر شارجہ روانہ ہو گئے۔

میں بھی مقدور بھر تائی کی خدمت میں جت گئی۔ ایک دن تائی نے عصر کے بعد تیار ہونے کو کہا، میں نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ تو کہنے لگی مزار پر جانا ہے بچے کی منت مانگنے۔ میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کو لیکر گھر میں کافی تلخی ہوئی۔ تایا بھی کہنے لگے بھلی لوکے جب تائی کہ رہی ہے تو، تو چلی جا۔ یعقوب سے اس مسئلے پر بات کی تو پہلی مرتبہ ان کے انداز میں جھلاہٹ تھی، کہنے لگے بھئی چلی جاؤ، اللہ تو نیتوں کا حال جانتا ہے۔

تم کچھ مت مانگنا بس ان کے ساتھ چلی جاؤ تاکہ ان کی تسلی ہو جائے۔ مرتی کیا نہ کرتی چارو ناچار تیار ہو گئ۔ ان دس دنوں میں شاید ہی سیالکوٹ کی کوئی ایسی مزار تھی جہاں ہم منت مانگنے نہیں گئے ہوں گے۔ سیالکوٹ کی تمام مزارات سے نپٹنے کے بعد ایک جمعرات تائی نے اعلان کیا کہ اب گجرات جائیں گی۔ وہاں ایک بہت ہی پہنچے ہوئے بزرگ کی مزار ہے اور وہ بہت حاجت روا و مشکل کشا(نعوذ باللہ) ہیں۔

میں نے نہ ہی زیادہ غور کیا اور نہ صاحب مزار کی تفصیل پوچھی، یوں بھی اگلے مہینے مجھے شارجہ روانہ ہونا تھا سو میں مزید کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔ بس سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا اور مزار پہ لوگوں کا ازدھام تھا۔ او میرے خدا، یہ کیسی مخلوق تھی؟ عجیب خلقت کے بچے، چھوٹے چھوٹے نوکیلے سر، منہ سے بہتی رال، نا سمجھ میں آنے والی زبان، سبز کفنی گلے مے ڈالے لوگوں سے سوال کرتے ہوئے بےشمار کم عمر بچے۔

میرا تو دہشت سے دم حلق میں آ گیا اور میں تائی کے ساتھ بالکل جڑ کے چل رہی تھی۔ واپسی پر ایک بچے نے بھیک کے لیے میری چادر کھینچی اور میرے منہ سے بے اختیار چیخیں نکلتی چلی گئیں۔ میں بالکل بدحواس ہو چکی تھی اور گھر پہنچتے ہی مجھے ہلہلا کے بخار چڑھ گیا۔ باجی فرخندہ بتاتی ہیں کہ میں سوتے میں چیخ مار کے اٹھ جایا کرتی تھی۔ کوئی تین چار دن بعد میری طبیعت قدرے سنبھلی مگر میں اس قدر وحشت زدہ ہو چکی تھی کہ میں نے کراچی کی ضد پکڑ لی۔

تائی نے اس چادر کے کھینچے جانے کو نیک شگون جانا مگر میری تو حالت خراب تھی۔ پھر تایا نے مجھے جہاز پہ بیٹھا کر کراچی روانہ کر دیا۔ کراچی ایک ہفتے قیام کے بعد میں شارجہ آ گئی۔ اپنے گھر آ کر مجھے سکون ملا، پھر ان عجیب الخلقت بچوں کے متعلق میں نے کمپیوٹر پر سرچ کیا تو عجیب ہوشربا حقیقت سامنے آئی۔

یہ حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ دریائی گنج بخش کی مزار ہے۔ یہ اپنے دور کے سماجی کارکن تھے۔ انہوں نے 1620 میں سکھ سردار ہرگوبن سنگھ کے حملے میں گجرات کا دفاع کیا اور ہرگوبن سنگھ کو شکست دی۔ انہوں نے معذور بچوں (ایسے بچے جنکی معزوری کی وجہ سے ماں باپ ان کو dis own کر دیتے تھے) کی پرورش کے لیے ادارہ بنایا تھا۔ ان سے ایک یہ روایت بھی جوڑی گئی ہے کہ مہارانی جس کے یہاں اولاد نہیں تھی، اس نے دعا کی درخواست کی اور شاہ صاحب نے شرط رکھی کہ پہلی اولاد اگر اولاد نرینہ ہوئی تو ملکہ وہ اولاد شاہ صاحب کے نذر کر دے گی۔

اس شرط پر ملکہ راضی ہو گئی۔ اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ ملکہ کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی اور ملکہ بیٹا نذر کرنے سے منکر ہو گئی۔ بس اس کے بعد ملکہ کے جتنے بچے ہوئے سب کے سر چھوٹے اور چوہے سے مشابہ ہوتے تھے۔ یہ گھڑی ہوئی کہانی ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب یہ ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں آنے والے اپنی دعا کے قبول ہونے کے عوض اپنی پہلی نرینہ اولاد مزار کو دان کر دیتے ہیں۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt