Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Suqrat Ka Falsafa e Ikhlaqiat

Suqrat Ka Falsafa e Ikhlaqiat

سقراط کا فلسفہ اخلاقیات

سقراط کو یونانی فلسفے کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہ عظیم مفکر 399 قبل از مسیح میں پیدا ہوا۔ یہ بلا کا ذہین تھا اور اس کی تعلیمات حق گوئی پر مبنی تھیں۔ یہ سوفسطائیوں سے بےحد متاثر تھا۔ سقراط کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لوگوں کو مفت تعلیم دیتا تھا۔ اسے جہاں کہیں بھی موقع ملتا وہ لوگوں کے ہجوم سے خطاب کرنے لگ جاتا تھا۔ سقراط کا ایک اپنا مکتب فکر تھا۔ سقراط ایک بہترین فوجی بھی تھا اس نے نہ صرف جنگوں میں حصہ لیا بلکہ بہادری کے کئی کارنامے سر انجام دیے۔

سقراط سوفسطائیوں کے نظریہ انفرادیت اور تخریبی کارروائیوں سے بے حد متاثر تھا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کا پیروکار تھا۔ سقراط نے اپنے نظریات کو ان کے نظریات سے ہم آہنگ کیا لیکن اس کے باوجود سقراط کے اور ان کے نظریات میں بےحد تضاد پایا جاتا ہے۔ سوفسطائیوں کے اس مقولے"فرد حقیقت اور سچائی کی کسوٹی ہے" پر یقین نہ رکھتا تھا۔ سقراط کہتا تھا کہ حقیقت کو صرف وہی لوگ ہی پہچان سکتے ہیں جو عالم فاضل ہوں کیوں کہ حقیقت کو علم کے ذریعے سے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔

سقراط اس بات کا قائل تھا کہ کسی بھی چیز کو دیکھ کر فوراً قبول نہیں کرلینا چاہئے جب تک اس کو عقل کی کسوٹی پر نہ پرکھا جائے اور وہ آپ کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب نہ کرے خواہ وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو۔

سوفسٹ کہتے تھے کہ "اپنے آپ کو استعمال کرو" لیکن سقراط کا نظریہ تھا کہ پہلے اپنے آپ کو پہچانو کہ تم کیا کرسکتے ہو، پھر کسی چیز کیلئے کوشش کرو۔

سقراط کا نظریہ تھا کہ حکومت کرنے کا حق صرف پڑھے لکھے افراد کو حاصل ہونا چاہئے کیوں کہ ان سے بہتر کوئی دوسرا طبقہ امور مملکت سرانجام نہیں دے سکتا، ان دنوں یونان کی دو ریاستوں سپارٹا اور ایتھنز میں جاگیردار ہی حکومت کرتے تھے اس لیے سقراط کہتا کہ حکومت کرنے کا حق جاگیرداروں کو ہی حاصل نہیں ہونا چاہئے، پڑھے لکھے افراد کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہئے۔ سقراط کہتا تھا کہ نیکی علم ہے۔

(Virtue is knowledge) یعنی کسی چیز کو جاننا، اس کی کارکردگی سے واقف ہونا ہی علم ہے۔ لیکن سقراط سے پہلے اس کا تصور کچھ اور تھا۔ ان کے نزدیک ان کے آباؤ اجداد نے جو کچھ کیا ہے، ٹھیک کیا تھا۔ سقراط کے خلاف نوجوانوں کو بگاڑنے اور دیوتاؤں کو نہ ماننے کا الزام تھا۔ اس کو گرفتار کرلیا گیا، اس کو عدالت میں پیش کیا گیا، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کے حق اور سچائی کے فلسفے کو دفن کرتے ہوئے اس کو موت کی سزا سنا دی گئی۔

سقراط نے تقریباََ 70 سال کے قریب عمر پائی اور 469ء قبل مسیح میں سقراط نے موت کی سزا ملنے کے بعد زہر کا پیالہ پیا اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ لیکن وہ ایک سبق دنیا کو دے گیا کہ حق بات کہنے سے کسی صورت نہیں ڈرنا چاہئے۔ اس کی موت سے اس کے دوستوں، شاگردوں، کو بہت افسوس ہوا، سقراط کی موت کا افلاطون پر گہرا اثر ہوا اور وہ دل برداشتہ ہو کر ایتھنز چھوڑ کر مختلف ممالک کے دوروں پر روانہ ہوگیا۔ جب سقراط کو موت کی سزا سنائی گئی تو اس کو دوستوں نے کہا کہ تم فرار ہوجاؤ لیکن اس نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ "میں قانون کی خلاف ورزی کبھی نہیں کروں گا"۔

سقراط نے تلاش حق کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور اس نے اس کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا حق بینی، حق کوشی، حق پرستی سقراط کی شخصیت کے کردار کی نمایاں خصوصیات تھیں جب اگاتھن نے کہا۔

سقراط! میں آپ کی تردید نہیں کرسکتا، اس پر سقراط نے فوراً جواب دیا۔

"نہیں، نہیں میری جان! ایسے نہیں بلکہ یہ فرمائیں کہ آپ حق کی تردید نہیں کرسکتے، سقراط کی تردید کرنا تو آسان ہے"۔

سقراط نے علم سکھانے کیلئے کبھی زور نہیں لگایا، بلکہ وہ خیالات انسانی کو جگاتا تھا، ان تصورات کو آواز دیتا تھا جو انسان کے ذہن میں چھپے ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کا متلاشی تھا کہ تصورات اس کی پکار کا ضرور جواب دیں گے۔

سقراط سیاست اور اخلاقیات میں گہرا تعلق سمجھتا تھا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سقراط نے یونانی لوگوں کو اخلاقیات کی تعلیم دی اور اسی تعلیم کی وجہ سے اس پر نوجوانوں کو خراب کرنے اور بگاڑنے کا الزام لگا کر سزائے موت دے دی گئی۔ تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگرچہ اہل یونان سیاست اور اخلاقیات میں گہرا تعلق سمجھتے تھے لیکن سقراط کی موت نے ثابت کردیا کہ سیاست اور اخلاقیات میں گہرا اختلاف پایا جاتا تھا۔

سقراط کے مطابق ہر شخص کو چاہیے کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرے اور خاص طور پر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے، انسان اگر برا کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا اگرچہ انسان اوپر سے اپنے آپ کو خوش رکھتا ہے۔ لیکن جب انسان کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کو دلی خوشی ہوتی ہے۔ اور اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے انسان صرف چیزوں کو پرکھنے کیلئے کسوٹی ہی نہیں ہے بلکہ اپنے لیے بھی وہ ایک کسوٹی ہے یعنی اپنے آپ کو پرکھنے کیلئے کہ وہ کیا ہے۔ صحیح رستے پر یا غلط۔

سقراط کے مطابق اخلاقی اقدار نہ صرف بتائی یا پڑھائی جاسکتی ہیں بلکہ ان کو عملی طور پر معاشرے میں رائج بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہی نیکی کی اصل روح ہے۔ سقراط کے اخلاقیات اور نیکی کے نظریے کو ہمیشہ تمام مغربی نظریات کے مقابلے میں اہم اور قابل قدر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ سقراط نے جان کی قربانی دے کر سچ کو پروان چڑھایا۔

Check Also

Irani Sadar Ka Dora, Washington Ke Liye Do Tok Pegham?

By Nusrat Javed