1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sabiha Dastgir/
  4. Main Jana Pardes

Main Jana Pardes

میں جانا پردیس

پاکستان سے باہر کسی بھی ملک میں جا کر تعلیم حاصل کرنا، وہاں روزگار حاصل کرنا، پھر کچھ سال وہاں رہنا، فیملی کے ساتھ مستقل سکونت اختیار کرنا اور شہریت حاصل کرنا ہر دوسرے شخص یا طا لب علم کا خواب بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ، کینڈا، یورپ، متحدہ عرب امارات اور کئی دیگر ممالک کا سحر اور کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خواہ وہاں تک پہنچنے کے لئے انہیں اپنا زیور، زمین جائیداد یا گھر ہی کیوں نہ فروخت کرنا پڑے۔

غریب اور نا خواندہ طبقہ تو پیٹ کی آگ بجھانے اور مفلسی مٹانے کیلئے باہر جاتا ہے۔ لیکن ملک میں سیاسی بحران، اقتصادی اور معاشی لحاظ سےغیر یقینی صورتحال کے پیش نظر صاحب حیثیت اور متمول طبقہ بھی پرسکون اور بہتر طرز زندگی کے لئے ملک چھوڑنے کا خواہا ں نظر آتا ہے۔ وطن کی محبت کے مارے چند فیصد لوگ ایسے بھی ہیں، جن کا مرنا جینا صرف پاکستان میں ہے، اور وہ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود اپنا وطن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

غریب الوطنی کا ایک المیہ یہ ہے جب مرد اپنی فیملی کو چھوڑ کر اکیلا کسی دوسرے ملک روزگار کمانے نکل پڑتا ہے۔ کم تعلیم یافتہ یا مزدور طبقہ دیار غیر جا کر ہر طرح کی محنت مشقت کرتا ہے کہ اپنے گھر والوں کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ اکثر وہاں چھوٹے سے کمرے میں چھ سے آٹھ افراد اکٹھے رہ کر دن رات کام کرتے ہیں۔ کبھی کسی فیملی والے دوست کے گھر کھانا کھاتے ہوئے نوالہ حلق میں اٹکنے لگتا ہے۔ فیملی کے ساتھ گزارا وقت آنسو بن کر آنکھوں سے بہتا ہے۔ کبھی پردیسی معقول آمدنی نہ ہونے، زیادہ بچت کے خیال یا پھر ویزہ اور قانونی پچیدگیوں کی وجہ سے اپنی فیملی کو ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ ریال، پاؤنڈز، یوروز یا ڈالرز کے عوض اپنوں کی محبت کھونے کا درد اور ان کی جدائی میں دل کس طرح تڑپتا ہے؟

یہ وہ شخص ہی بتا سکتا ہے جو اس کرب سے گزرتا ہے۔ والدین کی خدمت امپورٹڈ دوائیاں بجھوانے یا میڈیکل بل ادا کرنے تک محدود ہو جاتی ہے۔ بیوی خاوند کی جدائی میں اداس اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی محبت اور دل لگی کا مرکز مہنگے کاسمیٹکس، ملبوسات اور پرفیومز بن جاتے ہیں۔ کہ بہر طور جینا بھی تو ہے؟ سالوں بعد چند ماہ کی چھٹی پر آنے والے باپ کی شبیہہ بچوں کی آنکھوں میں دھندلا نے لگتی ہے۔ ہاں! اس کے بھیجے ہوئے قیمتی کھلونے اور چاکلیٹس آنکھوں میں ایک جھوٹی سی چمک ضرور لے آتے ہیں۔ باپ بھی اس مہمان کی طرح لگتا ہے جس کے آنے پر گھر میں کچھ خاص اہتمام سا محسوس ہو، اورسب ٹھیک ہے کہہ کر کچھ باتیں چھپا لی جائیں۔

پردیسی بھی اپنے مسئلوں کو اندر ہی دبا لیتا ہے، اور کچھ جھوٹ سچ بول کراپنی چھٹی بدمزگی کی نذر نہیں کرتا اور گھر والوں پر اپنی پریشانی ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ اگر فیملی میں والدین ساتھ رہ رہے ہوں تو کئی گھرانوں میں بیچارہ مرد ایک پرسکون چھٹی کو بھی ترس جاتا ہے۔ جو ماں باپ سے بیوی کی شکایتیں سننے اور سسرال کی روک ٹوک پر بیوی کے آنسو پونچھنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ چھٹی ختم ہوتے ہی وہ بوجھل دل اور ذمہ داریوں سے لدے کندھوں کے ساتھ پھر واپس نوکری پر آجاتا ہے۔

اگر کوئی پردیسی وطن لوٹنے کا ارادہ ظاہر کرے بھی تو اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ابھی تو تم صحت مند ہو، کام کر سکتے ہو اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ واپس آنے کی غلطی ہر گز نہ کرنا، پچھتاؤ گے۔ اکثر اوقات شہریت کے حصول اور تنہائی کی اذیت سے گھبرا کر دوسری شادی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ فیملی پریشر سے بچنے کے لئے دین اسلام کا حوالہ دے کر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور باقی زندگی مزید مشکلات کی زد میں آ جاتی ہے۔

ہم پاکستان سے باہر کیوں جانا چاہتے ہیں؟ بیروزگاری، مہنگائی، لا قانونیت، رشوت، کمزور پر ظلم و زیادتی، نا انصافی، اخلاقی گراوٹ، عدم تحفظ، چوری ڈکیتی اور نسلوں کی غلامی سے تنگ آکر لوگ باہر کا رخ کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ اپنے جائز کام کے لئے رشوت نہیں دینی پڑتی۔ ہر پروفیشن کی عزت کی جاتی ہے۔ اساتذہ کو ماسٹر یا استانی، ایگزیکٹو شیف کو باورچی اور فزیوتھراپسٹ کو ما لشیا نہیں کہا جاتا۔ دوستی یا ملنے جلنے کا معیار عہدہ، گاڑی یا گھر نہیں ہوتا۔ مصنوعی پن اور بناوٹ نہیں ہوتی، خود اپنے ہاتھوں سے سب کام کیے جاتے ہیں۔ نہ ہی گدا گری اور لوٹ مار اتنی عام ہے۔

خود داری اور محنت سے کام کرکے سر اٹھا کے جیا جاتا ہے۔ چائلڈ لیبر کا کوئی تصور نہیں۔ آدمی کو اس کی قابلیت اور ظرف سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی وہ سب کچھ ہے، جو ہمارے دین کی بنیاد ہے لیکن ہم اسے بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دس بییس سال بعد اگر کوئی فیملی لوٹ جائے اور پاکستان میں رہنا چاہے، تو وہاں کے حالات و واقعات سے گھبرا کر اور خود کو وہاں کے ماحول میں مکمل طور پر مس فٹ سمجھتے ہوئے واپس لوٹ آنے میں ہی خیروعافیت سمجھتی ہے

وہ سب عقیدے، تمام قدریں، خیال سارے

جو مجھ کو سکے بنا کے بخشے گئے تھے

میرے حواس خمسہ سے معتبر تھے

جب ان کو راہبر بنا کے نکلا

تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے

میں ایسے بازار میں کھڑا ہوں، جہاں کرنسی بدل چکی ہے

سچ تو یہ ہے کہ ہم بیرون ملک ہر طرح کا کام بلا جھجک کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں لوگ عام سی قابلیت پر اعلی عہدوں کی توقع کرتے ہیں، اور انتظار میں سالوں بیکار بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ سوشل پریشر یعنی لوگوں کا منفی رویہ بھی ہے۔ جس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ پاکستانی اعلی ڈ گری ہولڈر جیسے کہ ڈاکٹر، وکیل یا انجئینر اگر باہر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرے یا شروع میں کوئی عام سی نوکری کرے تو اسے ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اور اس کے بغیربلکل فارغ رہ کر وہ survive بھی نہیں کر سکتا۔ جبکہ اپنے ہی ملک میں اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ جملہ ہمارے معاشرے میں کافی مانوس سا لگتا ہے کہ بس! ایک دفعہ میں کسی طرح پاکستان سے نکل جاؤں تو زندگی سیٹ ہو جائے۔ اور ایسا سچ میں ہوتا بھی ہے، صرف تب جب آپ محنتی ہیں اور ہوا میں تیر چلانے کے بجائے اپنا لائحہ عمل ساتھ لے کر آۓ ہیں، ہر چھوٹی بڑی ملازمت کو بخوشی اور جان لڑا کر کرنے کو تیار ہیں، تو بفضل خدا آپ کامیاب ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے آنے والے کو اپنی قابلیت کا پتہ ہونا چاہیے؟ ایجنڈا کیا ہے؟ کاغذی ڈگریوں کے علاوہ آپ کو کوئی ہنر بھی آتا ہے؟ آپ اپنے ذاتی بنیادی کام جیسے کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور استری کرنا، صفائی وغیرہ خود کرسکتے ہیں؟

اگر آپ ایک طالب علم کی حیثیت سے آرہے ہیں تب بھی پڑھائی، اپنے ذاتی کام اور پارٹ ٹائم جاب کے لئے تیار رہیں۔ ٹائم مینجمنٹ سیکھیں۔ پاکستان سے نکل کر کسی بھی اور ملک پہنچتے ہی ہر قدم پر عملی زندگی کی ایک نئی حقیقت پوری آب وتاب کے ساتھ آپ پر واضح ہونے لگتی ہے۔ سنے سنائے قصوں اور رنگین خوابوں کا سحر ٹوٹنے لگتا ہے۔ دیس ہو یا پردیس، محنت کے بغیر کہیں بھی کامیابی نہیں ملتی۔ پردیس میں آپ کے ساتھ صرف خدا تعالی کی ذات ہوتی ہے، جو اپنے بندوں کو کبھی بھی اور کہیں بھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ اور خدا ان کی مدد ضرور کرتا ہے، جو کامیابی کے لئے انتھک محنت اور خود ہاتھ پاؤں مارنے پر یقین رکھتے ہیں

عجب زمیں پہ اترا ہوں، اس کے رنگ عجیب

پرے دھکیلتی ہے، پاؤں بھی پکڑتی ہے

Check Also

Zid Ke Shikar Imran Khan

By Javed Chaudhry