Rasta Nahi Milta
رستہ نہیں ملتا
" زبان گوشت کا ایک لوتھڑا، نہ حسن، نہ دلکشی اور اس پہ یہ غرور بے جا! ٹٹیری کی سی خوش گمانی گویا آسمان تھام رکھا ہو"۔ کان نے آنکھ سے گویا دبی دبی سرگوشی میں شکایت کی۔ آنکھ نے یہ سرگوشی دیکھ تو لی لیکن اسے فوری طور پر جواب دینے کی فرصت نہ تھی۔ وہ سطحی مناظر کی جانچ میں گم تھی۔
اکثر ایسا ہی ہوتا کہ آنکھ حقیقی تصویر سے منہ موڑے چمکتے دمکتے دلفریب مناظر میں کھوئی رہتی۔ ابھی بھی پردہ چشم کے سامنے ایک منحنی سا لاغر لڑکا پچکے گال اور کالے سیاہ ہونٹ کے ساتھ سٹاپ پر کھڑی لڑکی کے سینے پر ہاتھ مار کر آگے بڑھ چکا تھا۔ لڑکی یک دم ہڑبڑائی اور سہمی نظروں سے زمین پر نادیدہ خدا ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کے چہرے پر سراسیمگی پھیل چکی تھی جس نے چہرے کی چمک کو کھا لیا تھا۔
چہروں کی چمک کھانا ویسے بھی ہر دور میں آسان ترین ہدف رہا ہے۔ لڑکا تھوڑی دور اب ایک کھمبے کے ساتھ جڑا عضو تناسل گھسا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سی وحشت تھی۔ مردہ لڑکی کو بھنبھوڑنے کے بعد زندہ سینے کی دھڑکن اس کے اندر بھانبھڑ مچا رہی تھی۔ بزدلی کے آخری جنون میں کھمبے کو نزاکت و لطافت سے بھر پور جوبن تصور کرنا معجون کی سی طاقت دے رہا تھا۔ ایسے مناظر کی بہتات تھی اور آنکھ ان سے سرسری گزرتی کان کی سرگوشی پر متوجہ ہوئی۔ کتنے رنگ تھے اس کے اندر۔۔
سامنے سے گول کچھ ابھری ہوئی، استخوانی حلقہ میں رکھی گئی چشم میں مکاں سے لا مکانی کے بے شمار اور بیش بہا امکانات موجود تھے۔ تین تہوں، ہزاروں رگوں اور ایک انچ سے بھی کم قطر پر مشتمل آنکھ جہان سامری اور لا تعداد خوابوں پر ہی مشتمل نہ تھی، اس کے اختیارات بھی لا محدود تھے۔ چاہتی تو سمندر بن جاتی۔۔ اور کبھی دشت کی وحشت سمیٹ لیتی۔ فلک کی وسعت اس کے سامنے کینوس ہو سکتی تھی اگر وہ تاروں کی مانگے کی چمک میں نہ الجھتی۔
پار کا ہرمنظر اس پر کھل سکتا تھا۔ نادیدہ جہان کے اسرار اس کی ایک جست سے بھی کم فاصلے پر تھے۔ محبوب کے دل کے سوا اس کی رسائی ہر جگہ ممکن تھی لیکن اکثر پکسلز پھٹ جایا کرتی تھیں۔ کیونکہ ہوا میں آنکھ کھلتے ہی روشنی قرنیۂ چشم یا آنکھ کے شفاف پردے سے ٹکراتی ہی منتشر ہونے لگتی ہے۔ ہوا سے زیادہ کثیف اور گھنی ہونے کی وجہ سے ارتکاز رہ نہیں پاتا۔
پوش پپوٹے جن کی حرکت پر روشنی کی آمد کا انحصار ہے، ظاہری روشنی سے تمام مناظر کی شکلیں چشم حیرت میں انڈیل رہے تھےجہاں سے دماغ کو جانے والا رستہ تھا۔ دماغ کے سٹور میں کتنے ہی فلٹر، نیگیٹو اور تصاویر بکھری پڑی تھیں جن میں ہزارہا تصاویر کا تو کوئی مصرف ہی نہ تھا۔ یہ مناظر چاہتے تو آنکھ کی سب سے بیرونی تہ پر ہی قیام پذیر رہتے یا پھر پریڈ کی طرح گزرتے چلے جاتے۔ پپوٹوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ مسلسل کام سے جب وہ تھکنے لگتے تو خود بخود ڈھلکنے لگتے تھے۔
ایسے عالم میں آنکھ پر خوابوں کی برف باری ہوتی تو کبھی شرار سلگنے لگتے اور خوف کی لہر دماغ تک رینگتی چلی جاتی۔
آنکھ کے دو دروازے تھے ایک وہ جو اندر کھلتا تو اناالحق کی صدا بن جاتا لیکن اس پر مصلحت کے ریشمی پردے ٹنگے ہوئے تھے۔ باہر کا دروازہ البتہ ہر وقت کھلا ہی رہتا تھا۔ یہاں کوئی واک تھرو گیٹ نہیں تھا، نہ ہی کارڈ اور نمبر چیک کیے جاتے تھے۔ بس آنکھ کی پتلی لاتعلقی سے سب کو آتے جاتے دیکھتی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ کسی کا نقش ٹھہر جاتا۔ رقص کرتا، ادائیں دکھاتا اور استحقاق سے دل کے کواڑ دھکیل کر نہ صرف اندر داخل ہوتا بلکہ مستقل قیام پذیر بھی رہتا ایسا ہزاروں سالوں میں نرگس کی بے نوری کے بعد ہی کہیں ہوتا اوردل کے چمن میں دیدہ ور کی جھلک ابھرتی۔
زبان بھی تو زیادہ تر آنکھ کو بیرونی مناظر کی کہانیاں سنا کر محدود رکھنے کی کوشش کرتی اور کافی سے زیادہ حد تک کامیاب بھی رہتی۔ زبان کے سو بہروپ تھے۔ چرب زبانی۔ بے باکی، شوخی۔ درازی بیان۔ دشنام گوئی۔ حلاوت۔ ظرافت۔ شگفتگی۔ خوش گفتاری، شیرینی، چاپلوسی، تیزی و طراری اور خاموشی بہ معنی طراز۔۔
کان کی شکایتی سرگوشی پھیل رہی تھی اور سمٹنے کو دور جدید میں اقدار کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ آنکھ اگر بولتی تو کوئی مقرر اس کی تاب نہ لا سکتا تھا اور خموشی کی زبان سمجھنے کا علم ہر دور میں ہی متروک رہا ہے۔ آنکھ کی پتلی جتنا بھی پھیلتی، زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ آنکھ کی خوب صورتی و تحیر اور ندامت سب زبان کے سامنے بے بس تھے۔ کان تو دو تھے لیکن آنکھ دو ہو کر بھی ایک ہی تھی۔۔ دل جیتنے کے ہنر سے ناواقف۔۔
اور دل اس کے تو ہزار دریچے تھے۔ ہر دریچہ کو دھوپ روشنی اور ہوا کی ضرورت۔۔ دل کی اپنی شعبدہ بازیاں تھیں۔ کبوتر، فاختہ چڑیا اور کتنے ہی معصوم پرندے وحشی درندوں کے ساتھ خوشی خوشی آباد تھے، چار خانوں میں بٹی دل کی سلطنت جتنی مضبوط تھی اتنی ہی کمزور بھی۔۔
ذرا سے دھچکے اور فشار پر پورا نظام ہل جاتا۔۔ تمام جسم کو دل سے بہت سی ان کہی شکایات تھیں۔ وہ سب دل کی نازک مزاجی سے خفا تھے یہ کیا کہ دل کی گرانی سب پر آفت بن کر ٹوٹتی اور دل کی سرشاری آنکھوں کی نیند اڑا دیتی اور سارے جسم پر اس کے اثرات کیا کچھ ستم نہیں ڈھاتے تھے۔
دل کی ہزار خواہشیں اور ہزار کہانیاں تھیں۔ دل عالم کے رنگوں کا گواہ تھا اور خود میں ڈوب کر بادشاہ بن سکتا تھا لیکن اسے تو لوبھ لے بیٹھا۔ مسکان سے خوف زدہ خواہشیں آلودگی کے ملبے پر بیٹھی زار زار ہنس رہی تھیں۔ دل کبھی تو آنکھ کو ٹھیرنے کا حکم دیتا اور کبھی بے نیازی کی صورت بند رہنے کی صلاح دیتا۔۔ اس کے باوجود دل آنکھ کا غلام بھی تھا۔ اس کے اندر کی آنکھ بھی تو بند تھی اور دروازہ بھی۔۔
در حقیقت تمام اعضاء کی سلامتی کا دارومدار آنکھ کی شفافیت اور زبان کی دیانت پر تھا۔۔ ہمیشہ سے ہی گڑھا کھودنے میں آنکھ اور زبان کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ یہ گڑھے اتنے تھے کہ کبھی بھرتے ہی نہ تھے۔ زبانی جمع خرچ پہ نقصان کا اندیشہ نہ تھا لیکن نقصان تند و تیز سیلاب کی صورت روح کو کچل کر وصولی کر لیتا۔ آنکھ کی عدم توجہی اور بسا اوقات زیادہ توجہ سے دل کے اضمحلال میں اضافہ ہی ہوتا۔ باقی سب کچھ نارمل نظر آتا۔
اعضاء میں راہ و رسم تو تھی لیکن خلوص کی لو دھیرے دھیرے بجھتی جا رہی تھی۔ وہ سب ایک رسی سے بندھے تھے لیکن ان کے مقاصد اور اطراف جدا جدا۔۔ اسی لیے وہ سطح آب کے مناظر سے آگے نہ بڑھ سکتے تھے۔ آنکھ کی اوپری سطح گیلی ہوتی تو دل چپ سادھ لیتا اور دل سوختہ سامانی میں بلکتا تو آنکھ بے نیاز نظر آتی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ دل میں طغیانی آتی تو آنکھ میں سیلاب بہہ نکلتا۔
آنکھ پر یہ عالم طاری ہوتا تو زبان بھی کچھ نہ پھوٹتی۔ ایسا نہ تھا کہ دل کی چیخیں خاموش تھیں لیکن کان جیسے بہرے ہو جاتے۔ ایک کان سے دوسرے کان تک کے سفر میں دماغ ہل کر رہ جاتا۔ یہ اثرات سیاسی داو پیچ جانتے تھے۔ سب اچھا ہے کی تکرار تبھی کھلتی جب ٹیسٹ کی رپورٹس موصول ہوتیں تو دل کی گہما گہمی چپ سادھ لیتی۔ اسے یہ بوجھ آخر تک ڈھونا تھا۔
ساری آزادی کے باوجود دل میں اتنی عقل ہی کہاں تھی۔۔ اور چلا تھا کاروبار سلطنت چلانے۔۔
دل ہمکتا، مچلتا، روتا، چیختا لیکن اس پر کسی ساحر کی بندش تھی اسے اپنے آپ کو سنبھالنا ہی پڑتا۔ دل درویش بھی تھا۔ گداگر بھی۔ شاہ بھی۔ لٹیرا بھی۔ سو بہروپ تھے۔ لاکھ طغیانیاں اٹھتیں۔ تاراج کر جاتیں۔۔ آنکھ کی کمزوری نظر آتی تھی تو مصنوعی آئینہ خانے کے عدسوں سے مدد لی جاتی۔ دل کی کم زوری اور ٹوٹ پھوٹ کو بھی نالیوں سے باندھ دیا جاتا۔ جھٹکے دے کر چلنے پر مجبور کیا جاتا۔
روحانی علاج کی شعبدہ بازیاں عروج پہ تھیں لیکن علاج ندارد۔۔ دل کی ویرانی مندر مسجد گرجا سب کی ویرانی سے بڑھ کر تھی۔۔ جلتا، بجھتا۔۔ طواف آرزو میں ہلکان۔۔ بے حال۔۔ بد حال لیکن حال کا امین۔۔ ماضی کی یاد کی گٹھڑی سمیٹے۔ اندیشوں کی رمل کاریوں سے لرزتا چلے جا رہا تھا۔ سفاک زندگی کی امانت سنبھالے دل پر جو گزرتی تھی اس کا بیان آج تک ادھورا ہے۔ اس کا ذکر میر و غالب سے پوچھیے۔۔ ہائے ہائے کے تیر تفنگ۔۔ لپٹتے لپٹاتے دل آنکھ کی کور چشمی سے جھانکتا چلے جاتا اور آنکھ بجھتی جلتی دل کو سنبھالنے اور دل کی خبریں چھپانے میں ہلکان رہتی۔۔
آنکھ اور دل کے تماشے میں تماش بینی کا کام دیگر اعضا کے سپرد تھا۔ آخر کار ان تمام جذبات کو سپرد خاک ہونا تھا۔ دور جدید میں آنکھ دجالی ہو چکی تھی۔ گویا ایک آنکھ میں ضعف بصارت کے مسائل لاینجل تو ہیں ہی لیکن دوسری آنکھ کی رنگا رنگی اور توہم نے دھندلے مناظر کی تفہیم کے راستے میں دلدل پیدا کر دی ہے۔ اس دلدلی زمین پر دجالی آنکھ نے دعوت گلگشت دے رکھی ہے۔ سو دل آنکھ کے تعاقب میں اور آنکھ دل کے تابع، کان سماعت کی بجھارتوں سے بے نیاز۔ زبان کو مائیک نے اپنے حلقہ ارادت میں لے لیا تھا۔
انسان اپنے اعضاء سے کام لے کر بھی محتاج تھا۔ اس کے سامنے راستہ تھا لیکن اعضائے رئیسہ مضحمل تھے۔ مصنوعی پن کی آزادی کا دور مظاہر کی حقیقت پر سانپ بن کر پھنکار رہا تھا۔ مثل سر مار گنج اور سب اپنے سے خوف زدہ دبکے بیٹھے ہیں۔