Duaon Bhara Dalan
دعاؤں بھرے دالان
دانوں بھرے تھال اور "دعاؤں بھرے دالان" میں پرسرار سی مماثلت ہے۔ آتش کدہ کی سی رموز بھری فضا۔ جیسے بھڑکتی آگ کا الاؤ ٹھنڈے بادل نے ڈھانپ رکھا ہو۔ جیسے بنجر زمین پر لہلہاتی فصلیں میٹھے پانیوں سے سیراب رہیں۔ جیسے چٹکی بجاتے ہی درد کا نام و نشاں نہ رہے لیکن بہتا دکھائی دے۔ شاعر کی شخصیت میں جو دھیمی سی آنچ ہے جس کا الاو باہر شاید کسی کو دکھائی نہ دے لیکن وہ آنچ ہر شعر کے اندروں سرایت کیے ہوئے ہے۔
کوئی دعا مرے اندر نمو کو جاری رکھے
ہزار بار بھی ٹوٹوں تو پھر دوبارہ بنوں
شاعر دعا کی تاثیر کے تمام تر لوازمات سے واقف ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہےکہ "دعاوں بھرے دالان" میں درویش کی بیٹھک ہے جہاں دل کی کیفیت میں ایسے ایسےخم ابھرتے ہیں جو کبھی رکوع بن جاتے ہیں اور کبھی سجدہ۔ بظاہر ہوا رکی رہتی ہے لیکن سفر کی لے سر بکھیرے جاری رہتی ہے۔
تپتی دوپہر میں جلتے ہوئے لوگوں کے لیے
ایک پنکھا تھا دعا کا جو ہوا دیتا تھا
شاعر عاجزی کے بوجھ سے جل رہا ہے اور کسی اور ہی فضا میں سانس لیتا ہے۔
دعا کی بھیڑ تھی اتنی جگہ نہ ملتی تھی
کسی غبار کو سینے میں گرد بھرنے کی
دعا وہ دوا ہے جو ہر مرض کے لیے کارگر ہے۔
سینوں اور زمینوں کی سیرابی کیسے ممکن ہو
اس بستی میں جس میں کمی ہو پھولوں اور دعاؤں کی
وقت کے زہر کو نگلنے والی دعائیں سپیرے کے لیے عصا ہیں وہ عصا جو اسے سیدھا کھڑا ہونے میں مدد کرتا ہے۔ حماد نیازی کے ہاں تخلیقیت کا وفود طلسماتی گرہوں سے بندھا ہے جو سمیٹے رکھنے میں مددگار ہے۔ شاعر خوش بو کے سائے میں جلا پاتا ہے۔ ایسی فضا ابھرتی ہے جس میں جغرافیائی حدود اور تعصب کی کرنیں بجھتی چلی جاتی ہیں۔
شاعر سطحی پن کی درزوں میں بھی نہیں جھانکتا۔ اس کی نظریں غیر مرئی مناظر کی طرف گڑی ہیں۔ دم سادھ کر وہ ان ہونی کا کرب سینچتا ہے۔ یوں لگتا ہے یوگا کا کوئی آسن ہے جو شاعر کے وجود کو دہکائے رکھتا ہے۔
حماد نیازی کے ہاں کرب کی جڑیں زمین سے منسلک ہیں جو زماں کے گھاو میں ڈھل جاتی ہیں۔ لیکن شاعر مابعد بصارت کی مدد سے گمان کا سفر طے کرتا ہے۔ اس کے ہاں تدبر کے زاویے ہیں جو قبولیت کا رستہ آسان کرتے ہیں۔
اک تیقن میں گزرتے تھے شب و روز مرے
اور کوئی کار جنوں تھا جو جلا دیتا تھا
جنوں بے یقینی کی گھات نہیں بچھاتا۔ بلکہ وجود کی باطنی تہہ داری سے قبولیت تک رسائی دیتا ہے۔ شاعر ایک روحانی انبساط کا اسیر ہے جو روایات کی روشنی ہے۔ رشتوں، انسانیت اور احساسات کی مہک در و دیوار کو مہکائے رکھتی ہے۔ حماد نیازی ایک مکمل تہذیب کا نام ہے جو روایت کی پگڈنڈی پر سہولت سے رواں دواں ہے۔ سپردگی گردو پیش سے پرسرایت کشید کرنے میں ہمہ تن محو گوش ہے۔ حماد کا یہ دالان اقدار کے ارتقائی عمل کا گڑھ ہے۔ جہاں سامان رسد میں کمی نہیں آتی۔ جہاں قلی دعا کے صندوق پر بچھے ریشمی رومال پر پھول کاڑھنے میں مگن ہیں۔
دیر تک منظر کو دیکھا اور آنکھیں بند کیں
یک بہ یک منظر مری آنکھوں کے اندر آ گیا
شاعر کے ہاں کلچر یا ثقافت میں نیا پن کا معانی تعلق کی مضبوطی کے سوا کچھ نہیں۔ محبتوں کے بے شمار رنگوں کی قوس قزح سے رنگ کشید کرنا اتنا بھی آسان نہیں۔
یہ ما بعد جدید زمانہ ہم ایسوں کو کیا بدلے گا
ہم مٹی کی رنگت والے کچے گھر بنوانے والے
ہوس، محبت اور دو تہذیبیں، دو کلچر اور بابو جی
ہٹ فلمیں ہیں، لیکن کب تک، سوچو تو افسانے والے!
ہجرو وصل میں بھی شاعر کا اسلوب روایتی ڈگر سے ہٹ کر سامنے آتا ہے۔ یہ جذبے اپنے باطن کے بھید سے آشنا ہیں۔ بے سمت راستے وجود کو بکھرنے نہیں دیتے۔ روح تک تاثیر ضعف بھرے ہاتھوں کی ہی اترتی ہے۔ کچے گھڑے میں دعائے سلامتی کی مہک اترتی ہے اور منظر یک نظری کا بوجھ برداشت نہیں کرتا بلکہ لہروں کی روانی ریگستان میں بھی چشمے بہا دیتی ہیں۔
دشت نوردی اور ہجرت سے اپنا گہرا رشتہ ہے
اپنی مٹی میں شامل ہے مٹی سب صحراؤں کی
وجودی معنویت کسی لمس سے ڈگمگاتی ہے نہ بھٹکی آتما کے پر فریب الفاظ کی اسیر ہوتی ہے۔ ہجر و وصل کے تقابل میں داستانوی فضا تخلیق کی جاتی ہے۔
ہجر کی سر زمینوں سے چلتی ہوئی، دل کے پیڑوں کا نقصان کرتی ہوئی
چاند جیسی وہ پیشانیاں بجھ گئیں، ایک آواز اعلان کرتی ہوئی
اور
باغ سر سبز میں، پھولوں کی نگہداری میں
کھو دیا اس نے مجھے وصل کی سرشاری میں
حماد نیازی کے ہاں سہ رنگ ہر عمارت کے ڈیزائن کو جدت دیتا ہے۔