Tashadud Pasandi Ka Tadaruk Kaise Mumkin
تشدد پسندی کا تداراک کیسے ممکن
زندگی سُبُک خرام بھی ہے اور بارِگراں بھی، اس کے مزاج کو نہ سمجھنے والے عمر بھر پریشانیوں، الجھنوں اور ناکامیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ شدت پسندی و انتہاء پسندی ہمارے سماج کے لیے ناسور بن چکی ہے اس کی بڑی وجہ معاشرے میں سنگ دلی، درندگی، سفاکیت، فتنے، سرد مہری، انتہاء پسندانہ سوچ، عدم برداشت، مسلح تصادم کا ٹکراؤ، جلاؤ، گھیراؤ، مارپیٹ، بے رحمی، جیوانیت، تنگ نظری، لاقانونیت، دھینگا مشتی، تخریب کاری، تعصب، غصہ، نفرت انگیز واقعات، پرتشدد رویہ، اخلاقی اقتدار اور امن و سکون کو غارت کر رہی ہے یہ وہ سوچ ہے جس میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر صد افسوس اس پر جنگی بنیادوں پر سدباب کی ضرورت ہے انتہاء پسندی و شدت پسندی کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں تاریخ میں اتنی گھناؤنی مثالیں نہیں ملتیں۔
شدت و انتہاء پسندی کی بڑی وجہ ہمارے ہاں اداروں کے حقوق کے لیے افہام و تفہیم کے راستے کا فقدان ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ کہ کبھی ڈاکٹرز، ہیلتھ ورکرز، ٹیچرز، مذہبی رہنما، پیرامیڈیکل سٹاف، پیبلشنرز، انصاف کے متلاشی اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ان کے مطالبات کا حل ان پر ڈنڈے برسا کر، سر پھاڑ کر، ٹانگیں توڑ کر، پانی کے ٹینکرز سے دھلائی کر کے، آنسو گیس کے استعمال کر کے انہیں شدت پسندی اور انتہاء پسندی پر اکسایا جاتا ہے اور پھر وہ ردعمل میں املاک کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو معاشرے میں عجب افراتفری دیکھنے کو ملتی ہے یہ انتہاء پسندی اور شدت پسندی کا بیج بو کر امن و سکون اور محبت کے پھول نہیں کھلتے، جو بویا ہے وہی اُگے گا اور کٹے گا۔
سانحہ سیالکوٹ پر ہم شرمندہ ہیں کہ اللہ تعالی اور نبیﷺکو کیا منہ دیکھائے گے جس انسانیت کا درس ہمیں دیا، ہم اس پر کتنا کاربند ہیں ہمارے اندر سے انسانیت کہاں کھو گئی ہے۔ اسلام ایک پُرامن اورقانون پسند مذہب ہے۔ سانحہ سیالکوٹ ہو یا سانحہ قصور ہو یا لاہور موٹروے پر خاتون کے ساتھ ہیبت ناک سلوک ہو یا حالیہ دنوں میں فیصل آباد میں چوری کے الزام میں خواتین کے ساتھ شرمنا ک و المناک واقعات ہوں وغیر ہ وغیرہ ایسے نوعیت کے تمام کیسز آرمی کی خصوصی عدالتوں میں ٹرائل تشکیل دینے چاہیے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہاں کون پروپیگنڈا کر رہا ہے اور ایسے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہونے چاہیے۔
وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر ذی روح انسان کو اُس چڑیا کو مثال بناتے ہوئے اِس آگ پر چڑیا کی طرح اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ ضرور ڈالنا چاہیے تاکہ روزمحشر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ روزمرہ معاملات کا جائزہ لیں تو سوشل میڈیا، اخبارات، ٹی، چینلز پر نت نئی شرم ناک خبریں، ویڈیوز منظر عام پر آتی ہیں کہ انسانیت شرما جائے، کہیں مایوسی سے ہر روز خودکشیاں اور کہی قیامت نماواقعات دیکھنے کو ملتے ہیں خود ساختہ عدالتیں، خود ساختہ سزا و جزا نظر آتی ہے۔ ہر طاقتور اپنے سے کمزور کو خود ساختہ عدالتیں قائم کر کے خو د ہی سزا و جزا دے رہا ہے۔
سائنسدان و طبی ماہرین اب اس بات کا کھوج لگا رہے ہیں کہ ہم میں چند افراد اس کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور مختلف افراد میں اس کی شدت کیوں مختلف ہوتی ہے؟ "دباو" سے متعلق اس نظریہ نے ایک نئی سائنسی شاخ کا آغاز کیا ہے جسے سائیکونیورو امیونولوجی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت ذہن اور بدن کے باہمی تعلق اور عمل کو نئے نظریات کی بیاد پر سمجھنے کا آغاز ہوا ہے۔ اس نئی شاخ کی سب سے پہلی دریافت کہتی ہے۔ اگر آپ صحت مندرہنا چاہتے ہیں تو صحت مند رویہ اپنائیے۔
شدت پسندی و انتہاء پسندی کا جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ریاست، ادارے، والدین، اساتذہ، دانشور، میڈیا، علماء کرام، سیاسی و سماجی تنظیمیں بے بس نظر آتی ہیں۔ مثبت رویہ ہمیں ناکامی سے مایو س ہونے کی بجائے اس سے سبق سیکھنے اور غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کی تربیت دیتا ہے ہر شکست اور مایوسی کے اسباب تلاش کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم عملی زندگی کے بارے میں مثبت رویہ نہ رکھتے ہوں۔
ذہنی رویہ معاشرے میں اہم کردار اور مددگار ہوتا ہے مددگار اس اعتبار سے کہ وہ ہمیں دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو درگزر ار نظر انداز کی قوت عطا کرتا ہے اس طرح ہم غیر ضروری غلطیوں، کمزوریوں، شدت و انتہاء پسندیوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہر شدت پسندی میں دو یکساں حالتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس کے پاس علم کی کمی اور معلومات زیادہ ہوتی ہیں اور یہ معلومات بھی یکطرفہ ہوتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر شدت پسند اپنے نظرئیے یا خیال کو حتمیت و قطعیت کے درجے پر رکھتا ہے۔
تشویش کی بات ہے تعلیمی ادارے، سکول، کالج، یونیوسٹیاں میں شدت پسندی و انتہائی پسندی پر کوئی نصاب تعلیم نظر نہیں آ رہا کہ کیسے اس گھناؤنے جال سے نکل کر جڑ سے اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس مکروہ فعل سے اور اس کے انجام سے وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہیں کہ یہ ناسور کیسے معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں فوری نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے جس میں بنیادی انسانی اقدار، رواداری، برداشت، حسن اخلاق کو جگہ دینی چاہیے۔ قومی اور انسان دوست تعلیمی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول کرنا بھی اہم ہے ایسے طلباء کی توانائیاں مثبت سرگرمیوں میں صرف ہوتی ہیں۔
نظام کا لفظ نظم سے نکلا ہے جس کے معنی و مطلب حدود کے ہیں یعنی جب کسی شے کو بالکل آزاد چھوڑا جائے بلکہ کچھ اصولوں کی بنیادوں پر چند حدود مقرر کر دی جائیں تاکہ منظم زندگی گزاری جا سکے۔ ہمارا نصاب تعلیم غیر ضروری مواد کی بجائے کمزوریوں کو زیر بحث لائے تاکہ جو اخلاقیات انسان کو اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کر کے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں اور یہی قومیں تاریخ کے اوراق میں اپنی جگہ بنا پاتی ہیں اور آئندہ آنے والی نسل کو اِن کے طے کردہ اخلاقی ضابطوں کو نشان راہ سمجھتی ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار سینہ بہ سینہ چلتی ہیں اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں اور مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک طوطا، طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا۔ ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے کہا، کس قدر ویران ہے یہ گاؤں۔ طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الوّ کا گزر ہوا ہے۔ جس وقت طوطا اور طوطی باتیں کر رہے تھے عین اس وقت ایک الوّ بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس نے طوطے کی بات سنی اور رُک گیااور مخاطب ہو کر بولاکہ آپ لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو۔ آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ اور میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ الوّ کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکا ر نہ کر سکا اور انہوں نے الوّ کی دعوت قبول کر لی۔ کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو الو ّ نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔"تم کہاں جا رہی ہو"؟ طوطی پریشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔
اس پہ طوطا، طوطی الوّ پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی۔ دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ پڑھی تو الوّ نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ قاضی جو فیصلہ کرے گا ہمیں قبول ہوگا۔ لہذا قاضی نے دونوں فریقین کی بات غوروفکر سے سنی اور فیصلہ الوّ کے حق میں دے دیا۔ طوطے نے حیرانی سے الوّ کی طرف دیکھا اور بولا اب میری طرف ایسے کیوں دیکھتے ہو، میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو۔ یہ اب میری نہیں تمہاری بیوی ہے۔ الو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے کہا، نہیں میرے دوست طوطی میری نہیں، تمہاری بیوی ہے۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ "بستیاں الوّ ویران نہیں کرتے بلکہ ناانصافیوں سے ویران ہوتی ہیں "۔
ذاتی رائے ہے کہ ہم "اگر، کے لفظ کا استعمال بند کردیں اور اس کی جگہ "کیونکر" کو دیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک لفظ کے استعمال سے زندگی کا منفی رخ آنے کی بجائے مثبت پہلو ابھرنے لگے گا آپ مستقبل کے موہوم وسوسوں میں دھنسنے کے بجائے عمل کی طرف مائل ہوں گے اور منزل تک پہنچنے کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔ مثبت رویہ ہمیں ناکامی سے مایوس ہونے کی بجائے اس سے سبق سیکھنے اور غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کی تربیت دیتا ہے ہر شکست اور مایوسی کے اسباب تلاش کرنا اس وقت ممکن نہیں جب تک ہم زندگی کے بارے میں مثبت رویہ نہ رکھتے ہوں۔ ہر انسان کو اللہ پاک نے خدداد صلاحیتوں سے نوازا ہے ایسے لوگوں سے وابستگی پیدا کرنی چاہیے جو بیمار یا منفی رویوں کے مالک نہ ہوں بلکہ زندگی کے بار ے میں عملی اور صلاحیت آمیز نقطہ نظر رکھتے ہوں۔