Monday, 07 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar Akash
  4. Rooh Kya Ha?

Rooh Kya Ha?

روح کیا ہے؟

انسان جس شے کو نہ سمجھ سکا اس کو واہمے سے تعبیر کیا۔ مفروضے بنائے پھر ان مفروضوں پر راسخ الایمان ہونے کی رسم بنائی تاکہ آئندہ نسل کے ذہن میں تخلیق اور کائنات سے متعلق فلسفیانہ سوالات کو دبایا جا سکے۔

"زندگی" کی کوئی تعریف متعین نہ ہو سکی تو عہد طفولیت میں انسانوں نے روح کا تصور ایجاد کیا۔ یہ تصور ماقبل تاریخ انسانی سے چلا آرہا ہے اور یونان میں ہومر جیسے شاعر نے اس تصور کو گویا مشہور کیا تب شائد وہ نہیں جانتا تھا کہ اپنی شاعری میں جو نظریہ وہ پیش کر رہا ہے اس کے پوری دنیا کی ثقافتوں پر کتنے گہرے اثرات ہوں گے۔ یونانی مفکرین فطرت کی کئی پہلیوں کو سلجھانے پر کام کرنے کی بابت معروف ہوئے مگر یہ بھی سچ ہے کہ روح والی پہیلی کو وہ سلجھا نہیں سکے بلکہ کچھ نے تو روح کے ساتھ سائے کو بھی جوڑ دیا کہ ہمارے سائے ہی ہماری روح ہیں۔ جبکہ سایہ میت کا بھی ہوتا ہے۔

اس تصور کی خستگی کا اندازہ لفظی معنی سے ہی ہو جاتا ہے کیونکہ روح قدیم یونانی میں ہوا کے جھونکے کو کہا جاتا تھا اور اب اس کے مطالعے کو ہم نفس کا علم یا نفسیات کہتے ہیں۔ روح کے حوالے سے اسلام اور یورپی تصورات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس عنوان پر نا صرف لا علمی کا اظہار کیا گیا بلکہ اس بات پر غور کرنے پر حوصلہ شکنی کی گئی کہ جیسے یہ کوئی لا ینحل مسئلہ ہے۔ روح ذہن کے افعال کا نام تھا یہ بات گزشتہ صدی میں نکھر کر تب سامنے آئی جب سگمنڈ فرائڈ کا کام نفسیات پر ہمارے سامنے آیا۔ نفسیات ہماری وہ پروگرامنگ ہے جو ہمارے ذہن نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی کی ہے۔

روح اگر کوئی جسم لطیف ہو جیسا کہ فلموں میں دکھایا یا مقدس کتب میں پڑھایا جاتا ہے، تو جدید آپریشن جس میں دو انسانوں کے مکمل سر دھڑ سرجری کر بدل دئیے جائیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نفسیات یا روح بھی بدل جائے گی کیونکہ یہ سارے جسم میں رہنے والی کوئی چیز نہیں بلکہ ہمارے دماغ کے فنکشن کا نام ہے۔

مذاہب علم نفسیات کو گمراہی سے تعبیر کرکے قدغن لگاتے ہیں کیونکہ ان کا تمام تر مدعا ہی روح کے قدیم تصور پر ٹکا ہوا ہے۔ اگر وہ جسم سے الگ نکل پر اپنا کوئی وجود برقرار نہ رکھ پانے والی کوئی ذات ہو تو ان کا سزا جزا اور جنت دوزخ کا سارا مقدمہ ہی ڈھے جاتا ہے۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ روح یا نفسیات دماغ کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ جیسے اقبال نے کہا تھا

موج دریا میں ہے بیرون دریا کچھ بھی نہیں

اس لئے انسان جس شے کو نہ سمجھ سکا اس کو واہمے سے تعبیر کیا۔ مفروضے بنائے پھر ان مفروضوں پر راسخ الایمان ہونے کی رسم بنائی تاکہ آئندہ نسل کے ذہن میں تخلیق اور کائنات سے متعلق فلسفیانہ سوالات کو دبایا جا سکے۔

Check Also

Hamari Redline Kon?

By Prof. Riffat Mazhar