Parvez Aik Fikri Mughalta
پرویز ایک فکری مغالطہ
ڈارون نے صحیح کہا تھا جسے زندہ رہنا ہے اسے بدلنا ہوگا۔ جب نظریات مرنے لگتے ہیں تو ان کی جدید تشریح کرکے انہیں قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی جاتی ہےیا انہیں مسترد کرکے نئے قوانین متعین کر لئے جاتے ہیں۔
میں نے پرویز صاحب کو 2017 میں پڑھنا شروع کیا جب مجھے پہلی بار معجزے کا تصور اسلام میں عجیب لگا۔ میں ایک عرصہ اس شخص کے طلسم میں رہا بھی۔ یقینا جو فہم ادراک اس نے پایا وہ واضح طور پر نمایاں تھا۔ غلام احمد پرویز نے مذہب میں عقل اور منطق کو جگہ دی۔ اس سے قبل جو منطق مدارس میں پڑھائی جارہی تھی وہ مذہب کے طابع تھی ان کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ انہوں نے مذہب کو عقل کے طابع جانا اور ایسا ہی بنا کر پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ غامدی جیسے علماء پرویز سے کسی حد تک متاثر ہوئے۔
پرویز کی تشریحات کی مستشرقین بھی داد دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے اسلام پر اٹھانے گئے زیادہ تر سوالوں کا جواب دے دیا تھا خواہ اس کے لئے اسے نئی لغت بھی اپنی بنانی پڑی، حدیث کا مکمل انکار کرنا پڑا، قرآن کی تشریح جدید تقاضوں کے مطابق کھینچ تان کر بھی کرنی پڑی۔ اس سے اسلام کا ایک عقلی ورژن تو تیار ہوگیا مگر جب انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اسلام جس پر امت کا اجماع تھا وہ بہت دور رہ چکا تھا۔
ان کا ماننا تھا کہ اسلام میں پرستش کا کوئی تقاضا نہیں کیونکہ خدا کوئی ایسی ہستی ہے ہی نہیں جسے کسی پرستش سے خوش کیا جا سکے۔ وہ صلوٰۃ کو نماز کی بجائے اسلام کا ریاستی نظام سمجھتے تھے جو ریاست چلانے کے کام آئے اور جناب عمر کے دور میں مثالی دور کہتے کیونکہ ان کے دور میں ریاست مدینہ اپنے عروج پر تھی۔
زیادہ تر علماء نے انہیں کافر کہا یہاں تک کہ عرب مفتی علامہ ابن باز نے بھی ان کو کافر مانا۔ فکری طور پر پرویز کئی جگہ پر مغالطے میں ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی مگر کسی کے بھی کفر اور ایمان کا فیصلہ کبھی کسی انسان یا ریاست کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ایک مثال ہی یہاں ذکر کروں گا۔
پرویز نے احادیث سمجھی جانے والی روایات کو ڈنکے کی چوٹ پر اپنی کتاب مقام حدیث میں اسلام کا ماخذ نہ ہونے پر دلائل دئیے۔ ان کی سب سے مضبوط دلیل یہ تھی کہ یہ سب باتیں انسانوں نے کہی، انسانوں نے لکھی اور انسانوں نے ہی پیغمبر اسلام سے منسوب کر دی۔ مگر وہ خود کو حدیث تک محدود کر لیتے ہیں یہی بات وہ ہم قرآن کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں حتیٰ کہ ہر خدا کا کلام سمجھی جانے والی کتاب انسانوں نے لکھ کر خدا سے منسوب کر دی۔ مگر یہاں وہ وحی کے عمل کو ناقابلِ فہم کوئی پراسرار سی شے بنا کر پیش کرنے لگ جاتے ہیں جسے کوئی غیر نبی نہیں سمجھ سکتا۔ یعنی وہی روایتی حیلہ جو پنڈت، پادری کرتا ہے جب پکڑا جائے۔
کچھ بھی ہو یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے اگر جدید سماج میں ہمیں ہم آہنگی چاہیے تو علم الکلام، اجتہاد، نئی تشریح یا سرے سے ہی مذہب کے انکار کی ضرورت ہے مگر اس سے روایتی مذاہب اور ان کے مجاور دونوں خطرے میں ہیں۔ سوچ لیں کیونکہ ڈارون نے کہا تھا کہ جسے زندہ رہنا ہے اسے بدلنا ہوگا۔