Khuda Ki Aas Par Dharakte Dil
خدا کی آس پہ دھڑکتے دل
باجی! کئی بار ساری رات نیند نہیں آتی، آ جائے تو آدھی رات دل پہ بوجھ سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ پھر رات کا ایک ایک پل قیامت لگتا ہے۔ صبح دور کھڑی جیسے میری بے بسی سے لطف لیتی ہو۔ ترسا ترسا کر آتی ہے۔ سامنے کھڑی موت کی منت کرتی ہوں، ساتھ سوئے ہوئے اپنے یتیم بچے کی زندگی اور مستقبل کا واسطہ دیتی ہوں تو وہ کم ازکم اس رات دروازے سے ایک طرف ہو کر صبح کو راستہ دے دیتی ہے۔ شکر کرتی ہوں۔
باجی میری فاطمہ سے بات کروا دو۔ فاطمہ! آپ مجھے بہت یاد آتی ہو۔ میں آپکے لیے بڑی دعائیں کرتی ہوں۔ دعا کرو خدا مجھے صحت دے دے تو میں آپکے سارے کام کروں گی۔
باجی اس بار جو ڈاکٹر نے گولی کم کی مجھے لگتا ہے اسکی وجہ ہے۔ یہاں گاؤں والے ڈاکٹر کے پاس گئی تو وہ کہتا ہے تمہیں دوائی نہیں دے سکتے وہیں پنڈی جاؤ۔ باجی پنڈی والے ڈاکٹروں کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ میری ساری بات سنیں، کچھ میں انہیں بات سمجھا نہیں سکتی۔ وہ سرائیکی نہیں سمجھتے مجھے اردو نہیں آتی۔ میرا بیٹا چھوٹا ہے۔ آپکے ملکوال والے ڈاکٹر صاحب نے جس ڈاکٹرنی کے پاس بھیجا تھا اسکی ٹرانسفر ہوگئی ہے۔ اب وہاں کوئی واقف نہیں۔ کہتے ہیں تمہارے ساتھ کوئی بڑا بندہ نہیں آ سکتا؟ اب ان کو کیا بتاؤں چھوٹے بندوں کے ساتھ کوئی بڑا بندہ نہیں ہوتا۔
بیٹی اور بیوی کی بات سنی تو انکے چہرے پانی میں بنتے عکس دکھائی دینے لگے۔ سوچا اس بار "بڑا بندہ" بن کر اسکندرآباد میں اپنے گھر کام کرنے والی خاتون عاصمہ کے ساتھ RIC جاؤں گا۔ اسکی اپوائنٹمنٹ کے دن صبح فون آیا۔ صرف کرائے کے پیسے تھے اب ECO کے ساڑھے گیارہ سو روپے پورے نہیں۔ اسکے بیٹے سے کہا ہم پہنچ رہے ہیں۔ کوئی بندہ ڈھونڈو جو تمہیں بینک ٹرانسفر کے بدلے یہ پیسے دے دے۔ ایک خاتون نے فون پر یہ گفتگو سن کر انہیں پیسے دے دیے۔ خدا انکے قبول کرے۔
وہ صبح پانچ بجے گھر سے شدید سردی میں اپنے بوڑھے ہوتے دل اور جوان ہوتے بیٹے کے ساتھ داؤدخیل سے چل کر ساڑھے آٹھ بجے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد پہنچی تھی۔ مشاہدے کی آنکھ چغلی کھاتی ہے یہاں اکثر نام پہچان کروانے نہیں چھپانے کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ RIC کے دروازے پر پہنچے تو اسکا بیٹا دکھائی دیا۔ گلے لگایا تو آئینہ بن گیا۔ آئینے میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ ثوبان، بھائی جان، بھابھی جان، یار وقار۔۔ یہی ہسپتال، یہی شہر۔۔ یہی دروازہ، او خدایا۔۔ انسان مرتے ہیں روح یادوں کو پھونک جاتے ہیں۔
اندر گئے تو عاصمہ سے ملاقات ہوئی۔ میری بیوی کے گلے لگ کر رو دی۔ لوگ مرنے والوں کو روتے ہیں یہاں جینے والوں کو رویا جاتا ہے۔ عجیب عالم ہے۔ ایکو کے لیے 24 نمبر تھا۔ کہنے لگی دو بار گئی ہوں اس دروازے پر۔ دوسری بار بری طرح ڈانٹ دی گئی۔ بتایا نہ پہلے بچوں کے ٹیسٹ ہونگے اب آئی تو باہر نکال دوں گا۔ یہ بات سنی تو ایکو والے وارڈ کے اس گیٹ کیپر کے پاس گیا۔ پوچھا کون سا نمبر چل رہا ہے؟ کہنے لگا یہاں کوئی نمبر نہیں۔ پوچھا بھائی تو پھر نمبر جاری کیوں کیے گئے؟ رعونت سے بولا۔۔ وہ چیک آپ کے لیے ہیں ایکو کے لیے کوئی نمبر نہیں ہے۔ آپکی مریضہ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک طرف ہو کر بیٹھ جائے نمبر آئے گا تو بلا لیں گے۔ میں نے کہا آپ جب نمبر وائز بلا ہی نہیں رہے تو اسکا نمبر کیسے آئے گا۔ کہنے لگا بحث نہ کریں۔ ابھی بلا لیتے ہیں۔ آگے ہو کر اسکا کارڈ دیکھنا چاہا تو کارڈ جیب سے اتار کر کہنے لگا یہ لیں جسکو مرضی دکھا دیں۔ خود پر ضبط کرتے میں وہاں سے ہٹ گیا۔
ایک کاؤنٹر سے پوچھا کمپلینٹ آفس کہاں ہے۔ بتائے گئے پتے پر بیسمنٹ میں پہنچا۔ ایم ایس کے دفتر کے سامنے پی اے نہیں تھا۔ ہمت کرکے اندر داخل ہوگیا۔ مخل ہونے کی معزرت چاہتا ہوں ایک کمپلینٹ لے کر آیا ہوں سر۔ سامنے بیٹھے ڈاکٹر صاحب نے کچھ حیرت اور کچھ ناگواری سے کہا۔ کیا ہوا ہے۔ سارا ماجرا بیان کیا۔ عرض کیا جب آپکا وہ بیوروکریٹس کی رعونت والا گیٹ کیپر مجھے کارڈ تھما رہا تھا تو پہلے میں پکڑنے لگا تھا مگر پھر سوچا کارِ سرکار میں مداخلت نہ ہو۔ سر With due respect سوال صرف یہ ہے کہ کیا واقعی ECO والے وارڈ میں کوئی نمبر سسٹم نہیں؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے نہیں نہیں لازمی ہوتا ہے۔ بیل دی پی اے آیا کہنے لگے وقاص سے کہو انکا مسئلہ حل کرے اور وسیم سے کہے انسان بنے غلط کام نہ کرے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور پی اے کے ساتھ باہر آ گیا۔ پی اے نے باہر آتے کھسیانی سی ہنسی ہنستے کہا آپ سیدھا کمرے میں چلے گئے۔ اتنے میں وقاص نامی "افسر" کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وقاص نے سارا مسئلہ سننے کے بعد مجھ سے میرا تعارف پوچھنا شروع کر دیا۔ اس لمحے وہ مجھے کوئی روائیتی تھانے دار لگا۔ سارا تعارف لے کر جب اسے یقین ہوگیا کہ میں کوئی " بڑا آدمی " نہیں اور مریضہ کا مجھ سے تعلق ایک House Maid کا ہے تو کہنے لگا کہ ایکو کے اسسٹنٹ پروفیسر کا جو آرڈر ہے وسیم اسکا پابند ہے ورنہ وسیم کی کیا جرات؟ آپ کمپلینٹ لے کر آگئے اس میں کمپلینٹ بنتی ہی نہیں۔۔ میں نے ضبط کرکے مسکراتے ہوئے کہا ابھی تو ایم ایس صاحب نے کہا کہ ہر گز نہیں نمبر سسٹم لاگو ہوتا ہے۔ وقاص نے کہا او جی ایم ایس کو نہیں پتا یہ ایکو وارڈ والے اسسٹنٹ پروفیسر کا کام ہے۔ میں خاموشی سے باہر آگیا دوبارہ ایم ایس کے دفتر جانا چاہتا تھا لیکن پی اے بھانپتے ہوئے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا میٹنگ ہو رہی ہے پہلے بھی آپ بغیر پوچھے داخل ہو گئے شکر کریں صاحب نے غصہ نہیں کیا۔۔ خاموشی سے میں اوپر مریضہ کے پاس آ گیا۔
ایک ریفرنس تلاش کیا جنہوں نے مجھے کہا ایم ایس کے پی اے وقاص سے میرے ریفرنس سے مل لو۔ انہیں ساری روداد بتائی اور انکے کہنے پر دوبارہ وقاص کے پاس پہنچ گیا۔ وقاص نے اس بار بدلے ہوئے لہجے سے کہا اچھا اچھا آپ ہیں۔۔ بیٹھیں سر۔ موبائل نکال کر وسیم سے بات کی اور کہا انکا کام کر دو۔ اوپر گیا بچے ویسے ہی مکمل ہو چکے تھے۔ دل کے مریض نوزائیدہ بچے، اپنے ننھے چہروں سے بڑے ماسک، اپنی جسامت سے کہیں بڑے آکسیجن سلنڈر۔ خدایا کیا یہ آزمائش انسانیت کے بس سے بڑی نہیں۔ وہ انسانیت جو ان بچوں کے لواحقین کی امید و یاس کے درمیان جھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ انسانیت جو ان ہسپتالوں کے فرشوں پر ایڑھیاں رگڑتی ہے۔ وہ انسانیت جسے دروازوں پر کھڑے پی اے دھتکارتے ہیں تو کونوں میں جا کر سہم کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
وسیم نے خشمگیں نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور مریضہ کو اندر بھیج دیا۔ ایکو ٹیسٹ ہوا تو پتا چلا رپورٹ ساڑھے بارہ بجے ملے گی۔ کیفیٹیریا میں چلے گئے۔ ٹھنڈے سموسے اور ٹھنڈی بریانی نے ہمارا سواگت کیا۔
رپورٹ ملی تو "بڑا آدمی" مریضہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ کے پاس گیا۔ انہیں ایک ہی سانس میں اسکی ساری علامات گوش گزار کر دیں۔ کہنے لگیں۔ انکو بتایا ہے مرض لا علاج ہے آپریشن ممکن نہیں۔ یہ کام بالکل نہ کریں۔ بوجھ ہر گز نہ اٹھائیں۔۔ ساری عمر گھروں میں کام کرکے زندگی کا بوجھ اٹھاتی عورت کو آج زندگی کا رہا سہا بوجھ اٹھانے کے لیے کام نہ کرنے کی تلقین کی جا رہی تھی۔ کیا کہتا۔۔
مزید کہنے لگیں ابھی جو علامات ہیں وہ خون کی شدید کمی سے ہیں۔ انہیں خون پیدا کرنے والی چیزیں کھلائیں۔ ایک کیپسول آئرن سپلیمنٹ لکھ کے دیتی ہوں۔ امید ہے بہتری ہوگی۔ مگر مکمل ریکوری ممکن نہیں۔ ہم دل پر بوجھ ہٹانے کی دوائیں دے رہے ہیں۔ اس سے ہائی پوٹینسی نہیں دے سکتے۔ اللہ خیر کرے دیکھیں دل کب تک ساتھ دیتا ہے۔ یہ سن کر مریضہ پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ سوچا اللہ خیر کرے کا جملہ اس بے چاری کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق امید بھری آمین کا حقدار نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کے دل کے لیے بھوک، جوانی کی بیوگی، غربت، احتیاج اور سماجی بے وقعتی ہی کافی تھی۔۔ یہ بیماری کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے ان سے بھی تو مر ہی جانا تھا۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، جیتے جی موت تو خدا کے ہاتھ میں نہیں۔
انہیں دواؤں اور دعاؤں میں رخصت کرتے ہم باہر آئے تو ہسپتال کی دیواروں پر ایک خاتون کی تصویریں تھیں۔ انکی تصویروں کے ساتھ مفت دواؤں اور علاج کے دعوے درج تھے۔ موبائل نکالا تو خبر پڑھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس صوبے کی یہ خاتون حکمران اپنا علاج کرانے اس ملک گئی ہوئی ہیں جن سے ہم نے آزادی لی تھی۔
خدا اپنی آس پہ دھڑکتے دلوں کو دھڑکتا رکھے۔