IPP
آئی پی پی
پاکستان کا مطلب کیا؟ یہ مطلب سمجھنے کے لیے سب سے بہترین مثال "آئی پی پی یعنی Independent Power Producers" ہے۔ پاکستانی ریاست میں حکومت اور رعیت کے درمیان تعلق کو جانچنے کا اس سے بہترین پیمانہ ہاتھ نہیں آنے والا۔
"بجلی" بنیادی انسانی ضرورت بن چکی۔ انسانی حیات کا دارومدار معیشت پر ہے اور معیشت کا پہیہ بجلی سے چلتا ہے۔ گھر، دفتر، دکان، فیکٹری یا کھلیان، بجلی نہیں تو کچھ نہیں۔ حیات جامد ہے اور جمود موت ہے۔ بجلی کا بحران اس ملک میں شدت اختیار کر چکا ہے۔
پچھلی کوئی ایک چوتھائی صدی سے صنعت کی دنیا سے وابستہ ہوں۔ سیمنٹ انڈسٹری ہی میں دو دہائیاں ہونے کو آئیں۔ میں نے بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، ویسٹ ہیٹ جنریشن، سولر سسٹم اور سٹیم ٹربائینز لگتے دیکھیں اور لگائیں۔ مہنگے برآمدی کوئلے اور تیل جیسے ایندھن کی بچت کے لیے لوکل کوئلے، مکئی کے تُکے، چاول و کینولا کی بھوسی، آئل ریفائنری کا ویسٹ، ٹائزز کا ویسٹ، لوکل کوئلہ اور بورا جلانے کے سسٹمز حتی کہ کچرے کے ڈھیروں کے پلانٹ لگتے دیکھے۔ ملٹی نیشنل کمپنی ہو یا سیٹھ جی۔ ہر کوئی لاگت کم کرکے منافع بڑھانا یا قائم رکھنا چاہتا ہے۔ سیمنٹ کی فی ٹن قیمت میرے جیسے نچلے درجے کے ایک ورکر سے لے کر جی ایم تک پہلی توجہ طلب شے رہی۔ لاگت میں کمی اتنی بڑی ترجیح ہے کہ اسکے لیے ہارٹی کلچر والوں کی ساری کاوشیں کمپرومائز کرنی پڑتی ہیں۔
یہ مثال اس لیے دی کہ اسکا مضمون سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ سے صنعتکاروں اور تاجروں کی حکومت ہے۔ پیشہ ورانہ تجربے اور معلومات کی بنیاد پر طالبعلم جانتا ہے کہ ہمارے صنعتکار حکمرانوں کی فیکٹریوں، ملوں اور فاؤنڈریوں میں بجلی کی بچت اور سستی پیداوار کے کیسے کیسے جدید منصوبے ہیں۔ مزید برآں صنعت و تجارت کی اہمیت کا اندازہ پاکستان میں اس سے بہتر ممکن نہیں کہ ہمارے ملک کے تمام بڑے بڑے کاروبار ہماری فوج کرتی ہے۔
قیامِ پاکستان سے لے کر 1994 تلک واپڈا یعنی Water & Power Development Authority ملک میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل و تقسیم کا ذمہ دار ادارہ تھا۔ اس وقت تک بجلی پاکستان کے شہری علاقوں ہی کی زینت ہوا کرتی تھی۔ دیہات بجلی سے محروم ہوتے تھے۔ شاید حکمرانوں نے یہ سوچا ہو کہ ابھی ملک کو دولخت کرنا ہے تو ہمارے کھمبے اور تاریں ضائع نہ ہوں۔ ملک ٹوٹ لے پھر گانا بنائیں گے کہ " میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے"۔
جی ہاں یہی وہ وقت تھا جب مردِ مومن مردِ حق کے گیارہ سالوں پر محیط نوے دنوں کے وعدے کا نیا نیا اختتام ہوا تھا اور انکی لگائی ہوئی غیر جماعتی سیاسی منڈی کے ایم پی ایز اور ایم این ایز اب دو جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے جھنڈوں تلے ملک میں جمہوریت کی بنیادیں استوار کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے دیہات میں بجلی پہنچانے کی بات ہی کی تھی کہ دیہی علاقوں کے لوگوں نے باقاعدہ " بجلی دو ووٹ لو " کے نعرے لگانے شروع کر دیے اور یوں سیاست میں پی ایچ ڈی کرنے والے، یاروں کے یار کہلوانے والے آصف زرداری صاحب کو "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کی "پہلی قسط" جاری کرنے کا "مائع سنہری" موقع مل گیا کیونکہ پیٹرولیم کو Liquid Gold کہتے ہیں۔
ہوا، پانی اور ایٹم کے تین سستی ترین بجلی کے ذرائع اور مواقع سے لبریز پاکستان نے آئی پی پی کے مہنگے تو کُجا ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل راستے کا انتخاب کیا۔ بجلی پیدا کرنے والی سترہ کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے گئے جنکو پڑھ کر دل اس خون کے آنسو روتا ہے جو تیل کی صورت ان آئی پی پیز کو دیا گیا۔ معاہدہ ملاحظہ فرمائیے کہ تیل روپوں میں خرید کر حکومت انہیں دے گی، وہ بجلی کی وصولی ڈالروں میں کریں گے اور ظلم در ظلم یہ کہ کپیسٹی چارجز کی مد میں چاہے ایک یونٹ بھی بجلی نہ خریدی جائے مگر وصولی اس پلانٹ کی ٹوٹل کپیسٹی کی ہوگی یعنی فرض کیجیے اگر ایک پلانٹ سو میگا واٹ کا ہے لیکن واپڈا نے اس سے سردیوں میں بجلی کی کم کھپت یا سستے ذرائع سے ضرورت پوری ہونے کم بجلی خریدی یا حتی کہ بالکل ہی نہیں خریدی تو بھی ادائیگی سو میگا واٹ کی کرنی ہوگی۔ الامان الحفیظ۔ یہاں تو پنجابی محاورے "چوراں دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز" والا محاورہ بھی درست ثابت نہیں ہوتا کہ یہاں تو جنکے کپڑے اتارے گئے وہ ایک مفلوک الحال قوم تھی۔
اندازہ لگائیے کہ عالمی اداروں کی ضمانت پر تیس سال کے لیے ایک قوم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسکا خون چوسنے کے لیے اپنے فرنٹ مینوں کے آگے پھینک دیا گیا اور باندھنے والے کون؟ وہ صنعتکار جو اپنی ذاتی ملوں میں پیداواری اخراجات کم کرنے کے ماہر ہیں۔ جو پاکستان کی بڑی بڑی صنعتوں اور تجارت کے مالک ہیں۔ جنکی ملیں ہر عہد میں نئے بچے جنتی ہیں۔ اب پتا چلا کہ وہ نئی ملیں کیسے لگتی ہیں؟
یہ بات بڑی معنی خیز اور غور طلب ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب دنیا میں ڈیمز کی تین بہترین قدرتی پوزیشنز میں سے ایک کالا باغ ڈیم پر سب سے زیادہ مزاحمت سندھ اور اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخواہ ہی سے ہوتی تھی۔ بدقسمتی دیکھیے کہ قومی مستقبل کے حامل سستی ترین دس ہزار میگا واٹ بجلی اور زرعی انقلاب والے ایک قومی منصوبے کو محض آئی پی پی میں چند افراد کے مال کمانے کی خاطر کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔ کالا باغ ڈیم کی سائیٹ پر کچھ عرصہ قبل گزرتے دلِ ناتواں اس قوم کی حالتِ زار پر ماتم کرتا رہا۔ جہاں مشینری، کالونی اور کچھ تنصیبات سے پاکستان کا مطلب کیا کے نعرے کی گونج سنائی دیتی ہے۔
خیر یہ پلانٹس لگے اور یہاں بجلی کی قاتل پیداوار شروع ہوئی۔ آغاز ہی سے انکے ٹیرف اور فی یونٹ قیمت میں پہلے سے چلتے نظام کی پیداوار سے زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس پر اپوزیشن میں شورشرابا کرنے والے میاں صاحب جب 1996 میں تشریف لائے تو انہوں نے پیپلز پارٹی دور کے ان معاہدوں کو عوام دشمن قرار دیا۔ لیکن اس کے خلاف کوئی ٹھوس حکمتِ عملی بنانے سے قاصر رہے۔ اسکی بڑی وجہ عالمی اداروں کی دی گئی ضمانت تھی۔ بہر کیف اگلے تیس سال قوم کو لٹنے سے بچانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ اس عہد میں دو تہائی اکثریت کے حامل "امیر المومنین" بننے کی خواہش رکھتے میاں صاحب نے ان معاہدوں کو تسلسل عطا کیا۔ بلکہ اپنے اگلے دور میں تو ذاتی کاروبار کے مفاد میں ملک و قوم کا اور نقصان کیا۔
اسکے بعد اپنوں کو مکے دکھانے اور غیروں کو سیلوٹ مارنے والے جنرل مشرف کا دور آ گیا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی اعلی قیادتیں اپنے حقیقی ممالک میں ہونے کی وجہ سے مشرف صاحب کے سامنے کوئی دیوار نہ تھی۔ عمران خان اس وقت ابھی ابھرنے کی تیاریوں میں تھے اور متحدہ مجلسِ عمل کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے پاس تھی جنکو ایک قانونی ترمیم کے ذریعے بطورِ اپوزیشن لیڈر ہوشربا مراعات عطا کردی گئی تھیں۔ کیمپ ڈیوڈ میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کے ذاتی دوست کی حیثیت سے جاتے مشرف کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ دہشتگردی کی جنگ کے ہنگام قرض معاف کرانا تو کجا کم ازکم یہ آئی پی پی منصوبے ہی کسی طرح سے سیٹل کروا لیتے مگر کاؤلن پاؤل کی کتاب کے مطابق وہ تو ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئے۔
مشرف نے بھاشا ڈیم کے اعلان اور کالا باغ ڈیم پر قومی مشاورت کا شوشہ بھی اپنی پالیسیوں کے خلاف اٹھتی آوازوں کو دبانے کی خاطر عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے کیا۔ کسی نے ٹھیک لکھا تھا کہ ہمیں تو ڈکٹیٹرز بھی اچھے نصیب نہ ہوئے۔ کہ جو پاکستانی ریاست کا اقتدار اپنے ادارے کے پاس براہِ راست یا بالواسطہ ہونے کی لا متناہی طاقت کو کسی بڑے طویل المعیاد عوامی مفاد کے منصوبے کے لیے استعمال کر سکیں۔ دھمکی آمیز لہجے میں مشرف صاحب کا ڈیمز کا اعلان محض ایک اعلان ہی رہا اور ایک اہم موقع ضائع ہوگیا۔
اسکے بعد بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کا سانحہ ہوا اور اب 1996 سے اقتدار کی راہ تکتی پیپلز پارٹی کی راہ بھی نظریے کی آخری رکاوٹ بھی ختم ہوگئی۔ مشرف دور میں بجلی کے نئے پیداواری یونٹس کی عدم منصوبہ بندی 2008 سے شروع ہونے والے پیپلز پارٹی کے عہد میں شدید لوڈ شیڈنگ کی شکل میں عوام کے سامنے آئی جب شہروں میں بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ سولہ سولہ گھنٹے تک پہنچ گیا۔ کاروبارِ زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ پیپلز پارٹی نے 1994 میں کئے گئے آئی پی پی کے بھیانک معاہدوں کا ازالہ کرنے کی بجائے اس طویل اور غیر معینہ مدت کی لوڈ شیڈنگ کا حل ایک نئے منصوبے کی صورت نکالا۔
ٹی وی پر آکر وزیر پانی و بجلی نے کالا باغ ڈیم کی فائل بند کا اعلان کرتے ہوئے دیامر بھاشا ڈیم کا اعلان تو کیا لیکن اس کی تعمیری معیاد دس سال کا بتا کر ایک نئے منصوبے کے آغاز کا اعلان کر دیا۔ جس سے اس سفید ہاتھی منصوبے کے توسط سے یہ انکا نام بھی پڑ گیا۔ لیکن عوام میں"راجہ رینٹل" کہلوائے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ زرداری صاحب کے رینٹل پاور منصوبوں سے عوام کو کوئی 200 ارب کا ٹیکہ لگانے کا انعام راجہ پرویز اشرف صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی صورت میں ملا۔ جب زرداری صاحب کی دولت بچانے کے لیے یوسف رضا گیلانی صاحب نے سپریم کورٹ کے حکم پر سوئس بینکس کو خط لکھنے سے انکار کر دیا اور میاں صاحب کے "نیچے اترو گھر جاؤ" کہنے پر وزارتِ عظمیٰ سے فارغ قرار دیے گئے۔
یاد رہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اوپر جانے سے آئی پی پیز کو پیہم فائدہ اور پاکستانی عوام کو مسلسل نقصان ہو رہا تھا۔ مزید یہ کہ آہستہ آہستہ بجلی کا فی یونٹ عوام کی گھٹتی ہوئی قوتِ خرید سے باہر ہو رہا تھا۔ ایک اور حل جو ان پلانٹس کو گیس پر کنورٹ کرکے نکالا جا سکتا تھا اس کو گیس کی عدم منصوبہ بندی اور سونے پہ سہاگہ ملکی قیمتی گیس کو پیٹرول، ڈیزل کا نعم البدل بنا کر گاڑیوں میں پھونک دینے نے ختم کر دیا تھا۔ اب یہ بھی آپکو خادم بتائے کہ سی این جی سٹیشنز، سیلنڈر، کٹس کس کے تھے اس ملک میں۔ اتنے آپ بھولے؟ او بھئی صرف ناچیز کے علاقے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے ناموں کے تھے۔
اس وقت راقم الحروف کلرکہار ایک سیمنٹ پلانٹ پر نوکری کرتا تھا۔ جنگ اخبار کے دو رنگین صفحات پر ایک اشتہار چھپا تھا کہ لاہور، اسلام آباد موٹر وے پر کوئی پندرہ مقامات پر ونڈ ملز لگیں گی۔ ہمارے پلانٹ سے کلرکہار ریزارٹ کے ٹاپ پر دو پنکھے لگے بھی، دور سے دکھائی بھی دیتے تھے مگر نہ جانے کیوں چلے کبھی نہیں۔ کچھ عرصہ بعد اتار پھینکے گئے۔
2013 میں خان صاحب کی اپنے "سویپ" کرنے کی پیشگوئی نون لیگ کی دو تہائی اکثریت کی صورت سامنے آئی اور میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ میاں صاحب ایک بڑے ڈیم یا چھوٹے اور درمیانے کئی ڈیمز کا افتتاح کر دیتے۔ لیکن ہائے رے کاروباری مجبوریاں۔ میاں صاحب چین سے وہ کوئلے کے پلانٹ لانے لگے جو کہ چائینہ ماحولیاتی آلودگی اور عالمی منڈی میں اچھے کوئلے کے بڑھتے ہوئے ریٹس کی وجہ سے متروک کر چکا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستانی کوئلہ سلفر کی مقدار کی وجہ سے بطورِ صنعتی ایندھن استعمال نہیں ہو سکتا۔ ساؤتھ افریقن کوئلہ ہمارے سیمنٹ پلانٹس پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ ماحول دشمن مہنگے کوئلے کے پاور پلانٹس یہاں لائے گئے جو کہ آئی پی پیز میں شامل ہوتے گئے اور ان کی تعداد سو کے لگ بھگ ہوگئی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صرف سلمان شہباز صاحب کے تین آئی پی پیز ہیں۔
جب پانامہ کیس میں میاں صاحب کو نکالا گیا تو اگلی باری ایل این جی کی تھی۔ مہنگے تیل اور گیس کی قلت پوری کرنے کے لیے ایل این جی کے ایسے معاہدے کیے گئے کہ کراچی کے صرف ایک ٹرمینل کی بات کی جائے تو اسکے پورٹ قاسم پر پہنچنے کے بعد پتا چلا کہ ہمارے ہاں ساحل کے قریب سمندر کی گہرائی اس ایل این جی ٹرمینل کے لیے تکنیکی وجوہات کی بنا پر موزوں نہیں جبکہ غریب و مقروض اور ڈالر کی اشد ضرورت میں مبتلا قوم کے خون پسینے سے انکا یومیہ ڈالر میں کرایہ شروع ہو چکا تھا۔ ایل این جی میں بھی چند افرد نے اس قوم کو خوب چونا لگایا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1994 میں پچاس ارب روپے کے لگائے گئے پلانٹ تاحال اس بے چاری قوم سے لگ بھاگ چار ہزار ارب روپیہ وصول کر چکے تھے جبکہ سرکلر ڈیٹ یعنی گردشی قرضے کی مد میں کوئی پانچ سو ارب روپیہ انکا واجب الادا تھا۔ اسکی عدم ادائیگی سے اس پر سود الگ سے لگتا جا رہا تھا۔ کچھ شرائط پوری نہ کرنے پر ان آئی پی پیز کے ذمہ کوئی پچاس ارب کے لگ بھگ جرمانہ تھا اور ایک وقت میں یہ آئی پی پیز معاہدے کی میز پر کوئی بیس فیصد چھوڑنے پر بھی تیار تھے۔ لیکن پاکستان اور پاکستانی معیشت کو اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری کہنے والے اسحاق ڈار صاحب نے حیران کن طور پر تمام پیسے بغیر جرمانے اور رعایت کی پیشکش کے ایک ہی دن میں ادا کر دیے۔ پانچ سو ارب روپے کی خطیر رقم بغیر کسی آڈٹ کے آئی پی پیز میں بانٹ دی۔ آڈیٹر جنرل کے سربراہ نے جب اتنی بڑی رقم بغیر آڈیٹر جنرل کی کاروائی کے قانونی تقاضے کے بانٹنے پر سوال اٹھایا تو ان پر مالی بدعنوانی کا الزام لگا کر انہیں ہی فارغ کر دیا گیا۔
اسکے بعد 2018 میں خان صاحب کی حکومت آئی جنکے پاکستانی پانیوں کا سودا کرنے والے ایوب خان کے پوتے اور نون لیگ کے پانی و بجلی کے وزیر گوہر ایوب کے بیٹے عمر ایوب صاحب نے اسمبلی کے فلور پر بتایا کہ مہنگے ایل این جی معاہدوں اور عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی کلی مہنگائی کی وجہ سے اب ایل این جی والی بجلی اور تیل والی بجلی میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ خان حکومت نے آئی پی پیز سے سنجیدہ مذاکرات کیے اور انہیں کسی حد تک قابو میں لانے کی کوشش کی لیکن اسکا انتظام بھی پہلے ہی کر رکھا تھا پہنچے ہوؤں نے جب خود خان حکومت میں آئی پی پیز کے تین مالکان جہانگیر خان ترین، ندیم بابر اور عبدالرزاق داؤد شامل تھے۔
خان حکومت میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس المعروف "ڈیم بابا " ثاقب نثار صاحب نے جسطرح بھاشا ڈیم کا سپریم کورٹ ڈیم فنڈ اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسکا پہرہ دینے کا اعلان کیا اور جو جو غیر سنجیدہ حرکتیں اس عہد میں ہوتی رہیں وہ پانی و بجلی کے شدید بحران کا شکار قوم کا مزاق اڑانے کے مترادف تھیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ملک ریاض کے المعروف "قادر ٹرسٹ" والے پیسے "ڈیم فنڈ" میں کھپا دیے گئے۔ ترکی کے طیب اردگان صاحب نے جس طرح ترک کمپنی کی کرپشن اور قوانین کی خلاف ورزی پر خان صاحب کو انکی "مستقبل کی خارجہ پالیسی " پر بلیک میل کرکے عالمی عدالت میں ترکی کی ساکھ بچائی اور پاکستان کی ڈبوئی وہ بھی ستم رسیدگی کی الگ داستان ہے۔
بہرحال ایک رپورٹ کے مطابق خان حکومت میں آئی پی پیز سے کیے جانے والے مزاکرات میں آئی پی پیز کے ساتھ ڈالر کے فکس ریٹ پر کچھ بات بن گئی۔ وگرنہ ماہرین کے خیال میں آج بالکل ہی اندھیر نگری ہوتی۔ ویسے تو کسر اب بھی نہیں۔
خان حکومت کے جانے کے بعد اے پی ڈی ایم کی تحریکِ عدم اعتماد کی صورت میں آنے والی حکومت سے ڈالر نے جو اڑان بھری اللہ اللہ۔ کہاں ایک 140 پر ملا کہاں 300 کے قریب لا کر چھوڑا۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ شدید معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ازل کے عادی رندوں کو ایک بار پھر مہنگی قرض کی مے لینے آئی ایم ایف کے ازلی مے خانے جانا پڑا اور گردشی، اندرونی اور بیرونی قرضوں کی وجہ سے بجلی کے ریٹس آئی ایم ایف طے کرنے لگا۔ آئی ایم ایف نے حکومت پر بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی شرط عائد کر دی اور یوں مہنگائی مارچ سے آنے والی حکومت نے عوام کے سروں پر بجلی کا بم بھی پھوڑ دیا۔
2023 کے عام انتخابات سے اب تک بجلی کے بلوں کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ اس سارے قضیے کو اس سے بہتر انداز میں نہیں سمجھا جا سکتا کہ 200 یونٹس کا بل 3500 اور 201 یونٹس کا بل 8000 کے فارمولے پر شور مچنے پر "گورننس" کو پچیس کروڑ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کی مشق بنا کر پاکستان کا بہترین ایڈمنسٹریٹر کہلوانے والے محترم شہباز شریف صاحب نے جس دن کیمرے آن کرکے ایک غریب کا بل 201 کرنے والے شخص کے خلاف کاروائی کا حکم دیا اسی دن انہی کے دستخط سے انکے دونوں بیٹوں کے آئی پی پیز کو "کپیسٹی چارجز" کی مد میں کروڑوں کی ادائیگیاں ہوئیں۔
تو قارئینِ کرام یہ ہے ساری رام کہانی۔ ہماری بد بختی کا اندازہ کیجیے کہ ہم پر وہ صنعتکار اور تاجر حکمران ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انکے اجداد صنعتوں کے مالک ہیں اور مٹی کو سونا بنانے کی اہلیت رکھتے رہے ہیں جنکے بچے تک ارب پتی ہیں۔ وہ صنعتکار ایک ہی وقت میں دو معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں۔ ایک اپنی ذاتی فیکٹری کے لیے سستی بجلی کا اور ایک پاکستانی عوام کے لیے مہنگی بجلی کا اور مہا ستمگری دیکھیے کہ مہنگی بجلی قوم کو بیچتے وقت دکاندار بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے خون پسینے سے انکے پالتو جانوروں کو بھی ٹھنڈے محلات میں رکھتی ہے یہ اتنا ظرف بھی نہیں رکھتے کہ اسکے بچوں کے سروں پر تندوروں جیسی دہکتی کوٹھڑیوں میں ایک پنکھا ہی چلنے دیں۔ یہ اس پنکھے کے بھی پیسے بچوں کی روٹی چھین کر وصول کرتے ہیں۔ اس لیے میں آئی پی پی Independent Power Producer نہیں Independent Poverty Producer یا Infinity Profit Producer لکھتا ہوں۔
یہ بھی ایک الگ سے سوچنے کا مقام ہے کہ اس قوم کی ترجیحات، شعور، اور اپنے حقوق کے بروقت علم ہونے کا اندازہ لگا لیجیے کہ 1994 میں پچاس ارب روپیہ لگا کر ہزاروں ارب اس قوم سے لوٹنے کی "کاریگری " کا علم ہمیں تب ہوا جب معاہدے کے تیس سال مکمل ہونے میں پانچ ماہ رہ گئے ہیں۔ زرداری صاحب اور میاں صاحب اس وقت مشترکہ طور پر حکمران ہیں۔ کیوں نہ آئی پی پیز کے معاہدے ختم ہونے پر یہ دونوں پچاس پچاس پلانٹ خرید کر اگلے تیس سال کا نیا معاہدہ کر لیں بلکہ قوم پچھلے تیس سال کی "برقی خدمت" کے بدلے یہ سو پلانٹ خود ان دونوں کو ہدیہ کر دے۔ تاکہ ان کے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کو ہماری آنے والی نسلوں کے سامنے کوئی قطری خط اور سوئس بینکوں کے کاغذات نہ لہرانے پڑیں۔
سو آغاز میں اسی لیے عرض کیا تھا کہ اس سے بہتر پاکستانی ریاست اور رعیت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے کسوٹی ہاتھ نہیں آنے والی۔ ایک طرف کروڑوں خاندان اور دوسری جانب یہ چند خاندان۔ یہی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔