Ayat Ke Aansu
آیت کے آنسو
آج کا دن، اللہ اللہ۔ چشم حقیقت سے وہ منظر دیکھنے والی آنکھیں امر ہوگئیں۔ ہم فقط چشمِ تصور کے بینا۔ تخیل کی بصارت کے لائق۔ مگر تصور و تخیل کہاں چل دیے۔ وہ منظر، وہ نظارہ وہ آج کا دن۔۔ ہاں فقط آج ہی کادن۔ ایک منادی ہوئی فلک پر۔ "وما ارسلنک الا رحمت للعالمین"۔
اس دن کا بخت تو دیکھو کہ اسکی تاریخ نے تاریخ رقم کر دی۔ وقت کی تخلیق سے اس ایک دن تک چلتی گھڑیوں کا رک کر زمانے کی دہلیز پر سجدہِ شکر ادا کرنے کا جی چاہ رہا تھا۔ افق نے خود پر کوئی الگ ہی ناز کیا تھا کہ آج کے دن کا ظہور اس پر ہوا۔ وہ پہلی کرن تخلیق شمس سے آج تلک ایک معمول سے ظلمت کا پردہ چاک کرتی تھی مگر آج تو ریت کے ٹیلوں کے درمیان تابندہ رقص کرنے کو یوں بے تاب و بے قرار تھی کہ پہلے کبھی نہ تھی اور وہ ریت کے ذرے جن پر پڑتے انکے قدم انہیں ہیرے جواہرات کا اعتماد دینے لگے۔ وہ سورج کہ جسکا ظہور زمین پر سحر لے کر آتا ہے آج خود صبحِ نو کا دیدار کرنے ابھرا تھا۔
ریت کے ٹیلوں پر پڑے شبنم کے قطرے یوں منشورِ ارض ہوئے کہ اس کرن کو منعطف کرکے پورا آسمان دھنک بنا دیا۔ چمن نے گلوں کی پتیوں کو تھپتھپا کر کہا اٹھو جاگو فلک سے خوشبو کے پیامبر آ رہے ہیں۔ گلوں نے جاگ کر دیکھا تو اپنی خوشبو کو نہ پایا، معلوم ہوا پوری کائنات کی خوشبو جمع ہو کر اس مقدس وجود کی پہلی سانس بننے کی منتظر اس ممتا کی دہلیز پر براجمان ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ آج تو گویا فطرت کی جانب سے مدحتِ سرکار کی نغمگی ہوگئی۔ زمین اپنے وجود میں جس بادِ صبا کے جھونکوں سے نئی زندگی بھرکر صبح کی انگڑائی لیتی ہے آج وہ بادِ صبا خود جنابِ شرق منہ کیے گہری سانسیں لے رہی تھی۔ اشجار کی ٹہنیاں، پتے، ڈالیاں، پھول، پھل سب تازگی کا اچھوتا سا احساس لیے جھکے جاتے تھے۔
ستارے جیسے کہکشاؤں سے نکل کر بارگاہِ خداوندی میں ہاتھ باندھے گریہ زاری کر رہے تھے کہ آج فقط آج دن میں چمکنے کی اجازت دی جائے کہ انسانیت کے قطبی ستارہ قدموں کو زمین پر اترتے خود دیکھ سکیں۔ چاند نے آج سورج سے کہا آج تلک کی مستعار روشنی کا شکریہ کہ اب تابانی زمین سے آئے گی۔ خدا کے حضور زمین کی میخیں بنائئے گئے پہاڑوں کے جامد سینے خود میں وہ دھڑکنیں محسوس کرنے لگے گویا واقعی روئی کے گالے ہوں۔ خس و خاشاک تک کو زندگی کی اس رمق کا احساس ہوا جو آج سے پہلے محض انکی حسرت تھی۔ دریا، سمندر، ندی نالے، چشمے، آبشاریں اپنی پیاس بجھانے کو بے قرار فلک سے اترتے اس ابرِ رحمت کو عقیدت سے دیکھ رہے تھے۔
زمین پر پائی جانے والی تمام مخلوقات گویا امان و تحفظ کی سرشاری میں مشکورو ممنون۔ زمین پر محوِ خواب انسانیت نے آنکھیں کھول لیں کہ اپنی اس تعبیر کو پانے کا دن آگیا جو ازل سے رشکِ خواب تھی۔ آسمان اس عالی مرتبت روح کے زمین پر اترتے گویا بطورِ سواری خود ساتھ ہی دھرتی پر قدم رکھنا چاہتا ہو۔
الغرض علم و استعداد محدود ہے کہ "عالمین" کا احاطہ کر سکے۔ مگر یہ عالمین خود اس رحمت کا احساس من میں لیے سرشار و پر کیف ہیں۔ یہ پھولوں کی خوشبو، یہ خوشبو کا جادو، یہ تاروں کی چمک، یہ پھولوں کی مہک، یہ شمس و قمر کی تابانی، یہ بحر و دریا کی روانی، یہ پرندوں کی چہچہاہٹ، یہ بادِ صبا کی سرسراہٹ، یہ ریت کے ذروں کا اعتماد، یہ پتھروں میں زندگی کی بیاد، یہ آسمان کا زمیں پہ منور عکس، یہ زمین کا سرشاری و رقص، یہ شبنم سے بنتی دھنک کے رنگ، یہ ستاروں کے سیاروں سے ڈھنگ، یہ فطرت کے اس خواب کی ابدی تعبیر، ہاں ہاں یہی ہے وہ رحمت کی تاثیر کہ جس رحمت کا اعلان ہوتے ہی انکی رحمت کے دریا، سمندر، ندی نالے، چشمے، آبشاریں اپنی پیاس بجھانے کو بے قرار فلک سے اترتے اس ابرِ رحمت کو عقیدت سے دیکھ رہے تھے۔ سے عالمین تشکرو ممنونیت کا اظہار کرنے لگے۔ "رحمت للعالمین" کے معانی جان گئے یہ سب۔ دو عالم پہ رحمت، رحیم خدا کی زمین پر اتاری گئی رحمت۔
یہ چرند، پرند، یہ تارے، یہ آفتاب و ماہتاب، یہ برگ و بار، یہ پھول یہ خوشبو، یہ پہاڑ، یہ دریا، یہ سمندر، یہ صحرا، یہ میدان، یہ زمین، یہ آسمان الغرض نباتات و جمادات و حیوانات کے عالمین انسان و انسانیت کی جانب دیکھنے لگے کہ یہ اشرف المخلوقات اس رحمت کا اظہار کیسے کرے گا۔ اک تجسس، اک رشک مگر ایک حسرت، ایک تاسف اور ایک ملال میں بدل گئے۔ کائنات میں اس سے بڑا نقصان کوئی نہیں۔ عالمین میں اس سے بڑا ضیاع نا ممکن۔ تاریخِ انسانی کے سینے پر زیاں کاری کا اس سے بڑا بوجھ ہو نہیں سکتا۔ عالمین محوِ گریہ ہیں۔ زمین و آسمان ماتم کناں۔
پوری کائنات یہ عالمین یہ دوجہاں ایک آنکھ بن چکے جس میں خون کے آنسو ہیں۔ جانتے ہیں یہ خون کس کا ہے۔ یہ ایک انسان کا خون ہے۔ انسانوں کے خون سے تو یہ دھرتی از ہابیل تا ابد رنگی رہے گی مگر یہ خون الگ ہے، سب سے جدا۔ یہ انکے ماننے والوں کے ہاتھوں سے انکے نام پر بہنے والا انسانوں کا خون ہے۔ خدا کی پناہ، انکا نامِ اقدس پکارتے ہوئے بہایا گیا، رحمت للعالمین کا نامِ اقدس زباں سے جپتے۔ یہ نوکِ قلم سے بہتا لہو ہے۔۔ کیسے لکھوں۔۔ کیسے کہوں کہ یہ۔۔ یہ "وما ارسلنک الا رحمت للعالمین" کی آیت کی پلکوں سے بہتا خون ہے۔۔ کوئی ہے جو آج کے دن اس آیت کی آنکھیں پونچھ لے۔۔ کوئی ہے؟