Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Kun Fayakoon (1)

Kun Fayakoon (1)

کُن فیکون (1)

عبدالرحمن۔

تم نے بتایا ہے کہ ان دنوں تم بہت بیمار ہو اور چھٹیوں پر ہو اور ان پرانی کہانیوں کو پھر سے سننا چاہتے ہو جو میں تمہیں بچپن میں سنایا کرتا تھا۔ کائنات کی تخلیق کی، ستاروں کی، مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے عقائد اور رجحانات کی۔ سائنس، طبیعات اور مابعد طبیعات کی وضاحتوں کی وغیرہ وغیرہ۔ اب تم پہلے جیسے بچے نہیں رہے لہذا میں تمہیں قدرے تفصیل سے اس بارے میں لکھوں گا۔ شاید یہ کئی خطوط میں بلکہ بہت سے خطوط پر مشتمل ہو۔۔ پھر بھی۔

کیا کبھی تم نے رات کے آسمان میں سات ستاروں کاایک جھرمٹ دیکھا ہے؟ اسے ارسا میجر ursa major کہتے ہیں یا پھر عربی یا اردو میں طبع اکبر۔ پاکستان میں یہ جھرمٹ رات کے آسمان میں تقریباً ہر روز نظر آتا ہے اور اگر تمہاری آنکھیں دنیا کی سب سے طاقتور دوربین کی طرح ہوتیں تو تمہیں اس درمیان والے ستارے کے بالکل اوپر ایک چھوٹا سا دھبا نظر آتا۔ یہ GN-z11 یعنی کہ آج تک کی سب سے دور کی کہکشاں۔ کروڑوں ستارے ایک معمولی سے دھبے کی شکل میں اور ہم سے اتنا دور کہ اس کی روشنی(جس سے تیز رفتار اس کائنات کی کوئی اور چیز نہیں ہے) کو ہم تک پہنچنے میں چودہ ارب سال لگتے ہیں۔ اس چھوٹے سے بے نام حصے پر غور کرنے سے سے ہمیں اتنا تو پتہ چل جاتا ہے کہ انسان کائنات کے اس سفر میں کم سے کم چودہ ارب سالوں کے بعد آیا ہے یعنی سفر کا 99.9985 فیصد حصہ تو پہلے ہی گزر چکا ہے۔ ہم انسان تو بالکل آخری چند سیکنڈز میں آئے ہیں۔ ہم انسان کیسے اس کائنات کی پیدائش کو دیکھ پائیں گے؟

چلو ہم اور تم اپنے آپ کو وقت کی قید سے آزاد کردیں اور ان تمام علوم کو explore کریں جو ہمیں اس کائنات کی تخلیق ایک سچی کہانی سنائیں۔ ہمارے ارد گرد ایک علم بہت عام ہے جسے سائنس کہتے ہیں۔ دو سائنسدان تھے Arno Penzias اورRobert Wilson۔ ان دونوں کو نوبیل پرائز ملا تھا ان دونوں نے خلا میں ایک طرح کا ریڈیئیشن دریافت کیا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ریڈیئشن نہ ہی کسی ستارے سے آ رہا تھا نہ ہی کسی سیارے سے۔ اور نہ ہی کسی دوسری کہکشاں سے۔ یہ بس خلا میں ہر طرف بکھری ہوئی ایک انرجی کی طرح تھا۔ یہ لوگ کائنات میں جہاں کہیں بھی نظر ڈالتے ہیں انہیں یہ انرجی محسوس ہوتی دکھائی دیتی یوں لگتا تھا کہ کسی زمانے میں ایک بہت بڑے دھماکے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو اور ہر طرف پھیل گئی ہو جیسے کہ ایک عظیم اور زوردار دھماکے کی گونج۔ جو آج تک سنائی دے رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اسے Cosmic Microwave Background کا نام دیا۔

آج دنیا اس دھماکے کو Big Bang کے نام سے جانتی ہے کہ آسمان زمین اور اس کے درمیان موجود سب کچھ پہلے ایک ہی تھا اور پھر پوری قوت سے ہونے والے ایک دھماکے کے بعد علیحدہ ہوا۔ لیکن اس دریافت نے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا اس مسئلے کا نام Horizon Problem ہے یعنی کہ آسمان میں ہمیں کسی جگہ یہ انرجی 46 بلین لائٹ ائیرز کے فاصلے پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور کسی جگہ صرف 3 لاکھ سال کے فاصلے پر۔ اب اس مسئلے کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ کائنات میں روشنی مختلف جگہوں پر مختلف رفتار سے سفر کر رہی ہے جو کہ ناممکن ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ روشنی کی تو ایک ہی رفتار ہوتی ہے تین لاکھ کلومیٹرفی سیکنڈ لیکن اس کے علاوہ کوئی اور explanation تھی بھی نہیں۔

اگر یہ بات سچ ہے کہ کچھ جگہوں پر روشنی کی رفتار مختلف ہے تو ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان جگہوں پر وقت گزرنے کی رفتار بھی باقی جگوں سے مختلف ہی ہوگی۔ اب اس مقام پر پہنچ کر ہمیں ایک احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید سائنس بھی ہمیں صرف ایک حد تک ہی علم دے سکتی ہے اور اس میں سائنس کا قصور ہے بھی نہیں کیونکہ ہمیں سائنس کی اس شکل سے متعارف ہوئے ابھی صرف چند سو سال ہی گزرے ہیں لہٰذا ہمیں ایک اور علم کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔ ان چند سو سالوں سے پہلے کے لوگوں کا علم کہ وہ کیا کچھ جانتے تھے اور ان کا علم جاننے کے لیے ہمیں تاریخ میں جانا پڑے گا۔ ایک بہت بہت پرانی تاریخ۔۔

آج سے کوئی 173 سال پہلے کی بات ہے۔ 1849 میں عراق کے شہر نینوہ میں ایک آرکیولوجسٹ آسن ہنری (Austen Henry) کو کھدائی کے دوران مٹی کی چند تختیاں (Tablets) ملی تھیں یعنی کہ مٹی سے ملی وہ ٹیبلٹس جن پر قدیم زمانے میں لکھائی کی جاتی تھی۔ یہ basically سات تختیوں پر لکھی ایک داستان تھی جس میں آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے کے لوگ اس کائنات کی تخلیق کے حوالے سے آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور وہ کہتے ہیں کہ جب اونچے آسمان کا نام نہ تھا جب نیچے کوئی زمین نہ تھی۔ جب صرف پانی تھا۔ نہ کوئی جھاڑی تھی نہ کوئی پہاڑ تھا اور نہ ہی کوئی دلدل تھی یا کوئی نفس نہ تھا اور نہ ہی کوئی قسمت لکھی گئی تھی۔ تب۔۔ تب۔ اس میں خدا کا حکم آیا۔۔

(۔۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے اور اگر ہم اس پوری عبارت کو پڑھیں تو انہی ایک ہزار لائنز میں کسی بھی چیز کی تخلیق سے پہلے پانی کے ہونے کا ذکر ملتا ہے کہ بس پانی تھا)

ان تختیوں کے یونانی ترجمے کا ایک لفظ لوگوس ہے یعنی ایک کہی ہوئی بات کا اثر۔ ان میں لکھا ہوا ہے کہ جب خدا نے تخلیق کرنا چاہی تو ایک بات کہی۔ لیکن کیا بات کہی اس معاملے میں یہ تختیاں خاموش ہیں۔

چلو ایک اور قدیم تہذیب کی طرف چلتے ہیں جو ان سے بھی پہلے کی تھے۔ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب سمارا (samara)۔ سمارا بھی موجودہ عراق ہی کا ایک علاقہ تھا اور انہوں نے بھی اپنی مٹی کی تختیوں میں لکھا ہے کہ نمو نامی ایک قوت تھی جو ہمیشہ سے موجود تھی۔ نمو نے پانی کے ایک بہت بڑے ذخیرے سے زمین اور آسمان بنائے۔ تم یہ مت سمجھ لینا کہ سمارا کوئی چھوٹی تہذیب تھی۔ سمارا تاریخ کی سب سے پرانی تہذیب ہے اور آج کی دنیا میں موجود چیزوں میں سے کم سے کم ایک سو ایجاد ا ت سمارا ہی کے لوگوں نے کی تھیں مثلاً سب سے پہلی لکھائی رائٹنگ، سب سے پہلی گھڑی، سب سے پہلا آبپاشی کا نظام۔ جیومیٹری کا سب سے پہلا استعمال۔ وغیرہ۔

اب تم کہو گے کہ صرف دو ہی تہذیبیں کافی نہیں ہیں اس لئے ہم تھوڑی سی کھوج مزید لگاتے ہیں۔ تین ہزار سال پرانا مصر جو اپنے دور کی ایک سپر پاور تھا۔ وہ لوگ بھی بتاتے ہیں کہ نن نامی ایک طاقت نے پانی کے ایک بہت بڑے طوفانی سمندر سے زمین اور آسمان بنائے۔ ایک ایسا سمندر جو بالکل اندھیرے میں تھا۔

اگر تئیس سو سال پرانی یونانی تہذیب کی بات کریں تو وہ بھی پانی کے ایک کالے سمندر اوقیانوس سے زمین اور آسمان کی تخلیق کے concept کی بات کرتے ہیں لیکن تم یہ بھی سوچ سکتے ہوکہ یہ تہذیبیں تو بالکل ایک دوسرے کے آس پاس تھیں۔ ان میں زیادہ فاصلے بھی نہیں تھے۔ تو ہو سکتا ہے کہ ان تہذیبوں نے ایک دوسرے سے ہی یہ کونسپٹ سیکھے ہوں۔ اس لیے میں تم کو ان سب سے بہت دور واقع چند دوسری تہذیبوں کی تاریخ میں لے کر چلتا ہوں۔

آسٹریلیا کے ایبوریجنل (Aboriginal) لوگوں کے مطابق تمام روحوں کی مالک ایک بہت بڑی طاقت تھی جس کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ اس نے روشنی بنائی اور زمین کو زندگی دی۔ اب ان ایبوریجنیز سے دور چائنا کی تاویسٹ مائیتھالوجی (Taoist mythology) کو دیکھتے ہیں۔ وہ لوگ بھی ایک ایسے خدا کا ذکر کرتے ہیں جس نے بڑے پانیوں کو علیحدہ کیا۔ جس نے پہاڑوں کو ان کی جگہ رکھا اور یہ سب کچھ اس نے اپنے علم اور کہے ہوئے الفاظ سے کیا۔

چائنا کے بعدپہلے ویسٹ افریقہ کی مانڈے اور سینٹرل افریقہ کی یوروبا مائیتھالوجی کو دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں مائیتھالوجیز ایک بہت بڑی قوت کی موجودگی کا ذکر کرتی ہیں۔ جو بالکل تن تنہا تھی اور پھر اس نے پانی سے تخلیق کی۔ دوسرا بر اعظم امریکہ کا جہاں ایک بہت پرانا قبیلہ چیروکی قبائل تھا جو کہ ریڈ انڈینز کا ایک قبیلہ تھا۔ سمندر کے بیچ و بیچ واقع ہوائی کے جزائر جن کا باقی دنیا سے تقریباً کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہاں پر بھی یہی کانسپٹس ملتے ہیں کہ زمین اور آسمان پانی سے وجود میں آئے اور سات دن تک سب کچھ بنتا رہا اور آخر میں یورپ کا ملک فن لینڈ جہاں آج بھی وائن امائنل Väinämöinen کی داستان زبان زد عام ہے کہ کیسے اس نے پانی سے تمام دنیا تخلیق کی تھی۔

ان تمام تہذیبوں اور کلچرز میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان میں حرف بحرف ایک ہی جیسا واقعہ ملتا ہے کہ ایک بہت عظیم قوت تھی۔ تن تنہا تھی اور اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا اسی نے پانی سے ساری دنیا کی تخلیق کی اور یہ سب کچھ چھ یا سات دنوں میں ہوا۔

Check Also

Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha

By Amirjan Haqqani