Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Kitab Ul Muneer (3)

Kitab Ul Muneer (3)

کتاب المنیر (3)

اس کے بعد ظالم بادشاہ نے سارہ کو بلایا اور جب وہ اس کے پاس گئی تو اس نے اسے اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن (اس کا ہاتھ اکڑ گیا) اور وہ ظالم ڈر گیا۔ اس نے سارہ سےکہا۔ "میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا"۔ چنانچہ سارہ نے اللہ سے شفاء کی درخواست کی اور وہ صحت یاب ہوگیا۔ اس نے دوسری بار اسے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن (اس کا ہاتھ پہلے کی طرح اکڑ گیا بلکہ اور زیادہ سخت ہوگیا) وہ ظالم مزید پریشان ہوگیا۔ اس نے پھر سارہ سے درخواست کی، "میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا"۔ سارہ نے پھر اللہ سے دعا کی اور وہ ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک محافظ کو بلایا (جو اسے لے کر آیا تھا) اور کہا کہ تم میرے پاس انسان نہیں لائے ہو بلکہ ایک شیطان لائے ہو۔ مختصر یہ کہ ظالم بادشاہ نے ہاجرہ نامی ایک عورت کو سارہ کی لونڈی بنا کر دے دیا۔ سارہ (ابراہیم کے پاس) واپس آئی جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابراہیم نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر بادشاہ کے ارادے کو خاک میں ملا دیا اور مجھے خدمت کے لیے ہاجرہ عطا کی ہے۔ [عبدالرحمن، ایک روایت بتاتی ہے کہ اللہ نے اپنے حکم سے ابراہیم کو اس بادشاہ اور سارہ کے درمیان ہونے والی گفتگو ایسے دکھا دی تھی جیسے وہ خود وہیں موجود ہوں۔ تاکہ ابراہیم کے دل میں سارہ کی طرف سے کوئی برا گمان نہ ہو]۔

تفسیر ابن کثیر کے مطابق اس بے نام بادشاہ کو تین مرتبہ حق کی دعوت دی گئی تھی لیکن اس نے ہر بار انکار کیا یہاں تک کہ ان پر مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا گیا اور وہ ان پر اس بری تعداد سے آئے کہ انہیں سورج بھی نظر نہ آتا تھا اور تھوڑی دیر میں وہ مچھر ان کا خون گوشت پوست کھانے لگے۔ ان میں سے ایک مچھر بادشاہ کی ناک میں گھس گیا پھر وہ دیواروں اور پتھروں پر اپنا سر ٹکراتا اور آخر کار اسی طرح سسک سسک کر مر گیا۔

دو دریاؤں کے درمیان اس سرزمین میں رہنے والوں نے اگر واقعی اتنی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ اگر سمراہ کے رہنے والوں نے mathematics کی اتنی refined شکل دریافت کرلی تھی کہ وہ ستاروں کی چال کو حسابی طور پر predict کر رہے تھے۔ اگر وہ ستاروں کے علم سے اتنی یقینی پیشنگوئیاں کر رہے تھے کہ ایک سلاب آئے گا جو سب کچھ ختم کر دے گا یا پھر نمرود کے ستارہ شناسوں نے اسے ایک ایسے بچے کی پیدایش کا بتایا کہ جو ان کے مذہب کا خاتمہ کر دے گا تو پھر، آج یہ سارا علم کہاں ہے؟ اس علم کا کیا ہوا؟

1792 میں فرانس کے ایک ماہر فلکیات پیئر جوزف نے عراق کا سفر کیا تھا وہ بابل بھی گیا اس کو وہاں فلکیات سے متعلق کچھ خاص باتوں کا علم ہوا اور وہ باتیں اس نے اپنی ڈائری میں لکھ لیں۔ یہ ڈائری برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ لگی جنہوں نے فورا اس کو لندن منتقل کرنے کا ارادہ کیا۔ 1855 میں پانچ بحری جہازوں پر وہ تختیوں اور ریلکس بھر کر دریائے دجلہ کے ذریعے لندن لے جا رہے تھے۔

نوادرات کے علاوہ، جہاز کو کافی نقدی اور تحائف سے بھی لادا گیا تھا تاکہ مقامی شیخوں کے دریائی پولیس کو ادا کیا جا سکے جو محفوظ راستے کے لیے اکثر پیسے لیتے تھے۔ لیکن بغداد چھوڑنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر لوٹ مار شروع ہوگئی۔ بغداد اور القرنہ کے درمیان تقریباً 500 کلومیٹر دور دریا میں ڈاکوؤں کے مختلف گروہوں نے جہاز پر کئی بار چڑھائی کی۔ ہر بار وہ پیسے، خوراک، اور تجارتی سامان لے جاتے تھے جو جہاز میں تھا لیکن وہ نوادرات کو چھوڑ دیتے تھے۔

جلد ہی جہاز والوں کے پاس ٹول ادا کرنے کے لیے نقد رقم نہیں تھی اور انہوں نے مزید نقد رقم حاصل کرنے کے لیے دو نمائندوں کو پیدل القرنہ بھیجا۔ ایک رقم لے کر واپس آیا، لیکن دوسرے نے مقامی حکمران شیخ ابو سعد کو قافلے کی موجودگی سے آگاہ کرنے کے لیے وہیں رہ گیا۔ شیخ ایک طاقتور مقامی حکمران تھا، اور اس کا قبیلہ خاص طور پر سلطنت عثمانیہ کے خلاف مخالف تھا۔ جب قافلہ القرنہ کے قریب پانی میں داخل ہوا تو شیخ کی کمان میں ایک جہاز نمودار ہوا۔ ڈاکو نوادرات کا بڑا حصہ لے جانے والے مال بردار بحری جہاز سے ٹکرا گئے اور تقریباً اسے دریا کے بیچ میں الٹ دیا۔ مسلح بحری قزاقوں نے جہاز کو تقریباً غرق کر دیا۔ جوش کے عالم میں، حملہ آوروں میں سے ایک نے جہاز کا کنٹرول سنبھالا اور جہاز کو دریا کے مغربی کنارے کی طرف لے گیا جہاں جہاز تیزی سے دریا میں اتر گیا۔

پتھر کے مجسمے لے جانے والے چار بیڑے ابتدائی حملے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور مزید آگے دریا میں دوبارہ جمع ہو گئے۔ لیکن اگلے حملے میں وہ بھی دریا غرق ہو گئے۔ اب پورے علاقے کے سب سے مشہور تاریخی مقامات کے آثار قدیمہ کے ایک دہائی سے زیادہ کام، دجلہ کے تیز پانیوں کے نیچے دھنس گیا تھا۔ اس تباہی نے برطانویوں پر فرانسیسی مشن کی آثار قدیمہ کی بالادستی کو بھی ڈبو دیا۔ القرنہ میں تباہی کے چند مہینوں میں، مختلف ایجنٹوں اور مقامی حکام نے کھوئے ہوئے خزانے کو واپس لینے کی کوششیں کیں۔

فرانس بھی پیر جوزف کی ڈائری میں لکھی باتوں سے آگاہ ہو چکا تھا اور وہ بھی ان چیزوں کو ہر صورت حاصل کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے بھی تلاش کے لیے اپنا ایک مشن دریائے دجلہ بھیج دیا۔ جسے فریزنل مشن کہتے ہیں لیکن وہ تختیاں کسی کو نہیں ملی البتہ ان تختیاں میں علم کا ایک ایسا خزانہ ضرور موجود تھا کہ سو سال بعد 1971 تک بھی جاپان بھی ان تختیوں کو دجلہ کی گہرائیوں میں ڈھونڈتا رہا۔ وہ قذاق کون تھے اور وہ تختیاں کہاں گئیں؟

میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ کسی قسم کے محافظ تھے جو یا تو دنیا کے خطرے سے ان علم کے خزانے کی حفاظت کر رہے تھے یا پھر ان علوم کے خطرے سے دنیا کی حفاظت کر رہے تھے کہ وہ کبھی دنیا تک نہ پہنچیں شاید اسی لئے انہوں نے تختیوں سے بھرے پانچ جہازوں کو دجلہ میں غرق کر دیا جو آج تک نہیں مل سکیں۔

دجلہ کی وہ تختیاں تو شاید ہمیشہ کے لیے کھو گئیں لیکن عراق کی زمین پر مزید تختیاں اور ان پر موجود علوم کے لیے لڑائی جاری رہی۔

عبدالر حمن۔

تم کو اس سے بھی زیادہ حیرت کی ایک بات بتاتا ہوں کہ آج تک عام لوگوں کو جو معلومات حاصل ہیں وہ 1977 سے پہلے کاہی ترجمہ ہے لیکن 1977 سے لے کر آج تک جو بھی تختیاں ملی ہیں ان میں سے کسی ایک کا ڈیٹا بھی پبلک کے لیے ریلیز نہیں کیا گیا اللہ جانتا ہے کہ انہوں نے ان تختیوں میں اب تک کیا کیا علوم دیکھ لیے ہوں گے۔

2011 میں مریم موسا نام کی ایک جرنلسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدام حسین نے ایک میوزیم میں رکھنے کے لیے ان تمام تختیوں کی نقل بنوائی تھی اور پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر دیا اور ٹھیک پرانے بابل شہر کی زمین یعنی ٹھیک بیبلون کی آرکیولوجکل سائٹ کے اوپر اپنا فوجی کیمپ بنایا تھا جسے کیمپ الفا کہتے ہیں اور اگلے دو سال تک وہاں امریکنز اور پولش فوجیں رہتی رہی تھیں۔ ان لوگوں نے تختیوں کی جو نقل بنوائی تھیں انہیں، دو میوزیمز کو اور ایک لائبریری کو تباہ کر دیا۔ اس حوالے سے مریم موسیٰ کے علاوہ برٹش میوزیمز کے ڈائریکٹر جان کرٹس نے بھی مکمل ایک رپورٹ بنائی تھی۔

وہ کون سے علوم ہیں جو 1977 کے بعد والی تختیوں پر موجود ہیں جنہیں پبلک کرنے پر پابندی ہے یا وہ کون سے علوم تھے جو دجلہ میں غرق ہو گئے اور آج تک بار بار ڈھونڈے جانے کے باوجود بھی کسی کو نہیں مل سکے یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

عبدالرحمن۔

لیکن اس دور کا ایک اور علم بے کراں تھا جو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمیشہ کے لیے کھو گیا ہوں ان تختیوں پر موجود علم سے کہیں زیادہ عزت والا اور بابرکت علم۔۔ حضرت ابراہیمؑ کے صحیفے جو قدیم ترین آسمانی صحیفوں میں سے ایک تھے جن کا ذکر قران میں کم سے کم چار جگہوں پر ہے، کتاب المنیر، کتاب المنیر بھی اسی زمانے میں ایک آسمانی کتاب تھی۔

عبدالرحمن، ذرا بستر سے نکلو قرآن کھولو اور سوره ٱلْأَعْلَىٰ پڑھو اور دیکھو کہ اس کی اٹھارویں آیت میں کیا لکھا ہے: اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى

یہ باتیں تو پہلے کے صحیفوں میں بھی ہیں۔

ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں اور عبدالرحمن یہ کونسی باتیں ہیں؟

کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔۔

ہر انسان کے لیے صرف وہ ہے جس کی اس نے خود کوشش کی۔۔

اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔۔

تمام چیزوں کا پہنچنا صرف آپ کے رب ہی کی طرف سے ہے۔۔

وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔۔

وہی مارتا ہے اور وہی زندہ کرتا ہے۔۔

اسی کے ذمہ دوبارہ پیدا کرنا ہے۔۔

وہی غنی کرتا ہے اور وہی دولت دیتا ہے۔۔

اسی نے پہلے والے عاد کو ہلاک کر دیا اور ثمود کو بھی۔

جن میں سے کوئی نہ بچا۔۔

Check Also

Barkat Kisay Kehte Hain?

By Qamar Naqeeb Khan