Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Khalaa Ke Burooj

Khalaa Ke Burooj

خلا کے بروج

میں آج 25دسبمر 2021 کے دن، پاکستانی وقت کے مطابق شام 5بجے، ناسا کے نارتھ امریکن کے تین کنٹرول سنٹروں سے براہ راست جیمز ویب خلائی دوربین کے لانچ کے مناظر دیکھنے میں مصروف ہوں۔ ارے بھائی۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ JWSTلانچ ہو گئی ہے۔ دس ہزار سے زیادہ سائنس دانوں کی کوششوں کا نتیجہ۔ یہ بڑا دن ہے۔ یہاں سب کہہ رہے ہیں۔ یہ خلائی دوربین سب دیکھ لے گی۔ حال بھی اور ماضی بھی۔ صرف ماضی نہیں بلکہ ماضی بعید۔ یہ اس دور میں نظر ڈالے گی جب بہت پہلے ستارے اور کہکشائیں بنی تھیں، 13.5 بلین سال پیچھے۔ دور قابل مشاہدہ کہکشاؤں تک، ویب کی انفراریڈ دوربین، کائنات کی ابتدا کو سمجھنے میں ہماری مدد کرے گی۔

کائنات میں کہکشائیں دور دراز کی دنیا کی تلاش، اور نظام شمسی، اور اس میں ہماری جگہ۔ یہ خلائی دوربین جگہ اور وقت کے ایسے حصے کا مشاہدہ کرے گا جو کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ بے مثال ریزولوشن اور حساسیت کے ساتھ۔ یہ ہماری کائنات کا مطالعہ کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بھی ہوگا۔ سائنسدان ہمارے سیاروں اور دیگر اجسام کا مطالعہ کرنے کے لیے بھی، یہ ویب کا استعمال کریں گے۔ نظام شمسی ان کی اصل، اور ارتقاء کا تعین، اور موازنہ کرے گی۔ ستاروں کے رہنے کے قابل زون میں واقع سیاروں کا بھی مشاہدہ کرے گی۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کائنات کو ایسی روشنی میں دیکھے گی، جو انسانی آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اس روشنی کو انفراریڈ ریڈی ایشن کہا جاتا ہے۔ جیسے فائر فائٹرز آگ میں دھوئیں کے ذریعے لوگوں کو دیکھنے اور بچانے کے لیے انفراریڈ کیمروں کا استعمال کرتے ہیں۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ، اپنے انفراریڈ کیمروں کو ہماری کائنات کو دیکھنے کے لیے استعمال کرے گا۔ جہاں ستارے اور سیارے بنتے ہیں، لہذا وہاں جھانکنا نئی اور دلچسپ دریافتوں کا باعث بنے گا۔ یہ ان اشیاء کو بھی دیکھ سکے گا (پہلی کہکشاؤں کی طرح) جو اتنی دور ہیں، کہ کائنات کے پھیلاؤ نے ان کی روشنی کو مرئی(دیکھنے قابل) سے انفراریڈ کی طرف منتقل کر دیا ہے۔

خلائی دوربینیں، دور دراز ستاروں سے روشنی کو اکٹھا کرنے اور فوکس کرنے کے لیے آئینے کا استعمال کرکے "دیکھتی ہیں "۔ آئینہ جتنا بڑا ہوگا، دوربین اتنی ہی زیادہ تفصیلات دیکھ سکتی ہے۔ ایک بڑے، بھاری آئینہ کو خلا میں چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا، انجینئرز نے ویب ٹیلی سکوپ کو 18 چھوٹے آئینے دیئے، جو ایک پہیلی کی طرح ایک ساتھ فٹ ہو گئے۔ JWSTکے آئینے راکٹ کے اندر سمٹ جاتے ہیں، پھر مدار میں ایک بڑا آئینہ بنانے کے لیے کھل جاتے ہیں۔ مگر سنو یہ کوئی پہلی ٹیلی آسکوپ نہیں ہے۔

ہبل خلائی دوربین، زمین کے مدار میں گردش کرنے والی ایک خلائی رصد گاہ و دوربین ہے۔ اسے خلائی جہاز ڈسکوری کے ذریعے اپریل 1990ء میں مدار میں بھیجا گیا تھا۔ اس کا نام امریکی خلائی سائنس دان ایڈون ہبل کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ ہبل بھی کوئی پہلی خلائی دوربین نہیں، لیکن اس نے خلائی سائنس کے لیے تعلقات عامہ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے، JWSTہبل سے کافی بڑا ہے۔ جب کہ ہبل اسکول بس کا سائز ہے، JWSTٹینس کورٹ کے سائز کے برابر ہے۔ JWSTمیں ایک بہت بڑا آئینہ ہے جو ہبل کے آئینے سے تین گنا بڑا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ کائنات میں دور تک دیکھنے کے قابل ہو گی۔

ہبل اور JWSTکے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے، کہ وہ زمین سے کتنا دور وقت گزار رہے ہیں۔ ہبل زمین سے تقریباً 353 میل (570 کلومیٹر) کے فاصلے پر لٹکا ہوا ہے۔ جبکہ JWST زمین سے 930، 000 میل (1.5 ملین کلومیٹر) دور چکر لگائے گا۔ بلکہ اس کی بہت بڑی سن شیلڈ زمین، سورج اور چاند کی روشنی کو روک دے گی۔ ہبل کی سب سے مشہور تصاویر میں سے ایک خلا کے اس حصے کی ہے، جس میں دھول اور گیس کے ایک ستارے کی شکل دینے والے بادل نظر آتے ہیں۔ یہ تصویر یکم اپریل 1995 کو ہبل نے کھینچی تھی۔ اس تصویر کو space.comنے کائینات کی دس خوبصورت ترین تصاویر میں شامل کیا۔

یہ ٹھنڈی گیس کے تین بڑے بڑے کالموں کو دکھاتا ہے، جو ستاروں کے جھرمٹ سے روشنی سے روشن ہوتے ہیں۔ کائناتی سوراخ کے کناروں کے ساتھ قطار میں جیسے کئی "ہاتھیوں کی سونڈ" ہیں۔ یا گھنے گیس اور دھول کے خوفناک ستون، جن کی کالموں کے اوپری حصے میں، انگلی کی طرح پھیلی ہوئی اشارے میں گھنے، گیسی گلوبیولز ہیں جن کے اندر ستارے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ ایک بند ہاتھ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، جس کی انگلی صفر کے مرکز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہاتھی کی یہ سونڈ تقریباً 7 نوری سال لمبی ہے۔

آسانی سے یوں سمجھو کہ ہبل کی تصویر میں تین بلند و بالا ستون نظر آ رہے ہیں، اس قدر بلند کہ روشنی اپنی تیز ترین رفتار کے باوجود، ان کی بنیاد سے ان کی بلندی تک پہنچنے میں پانچ سال لیتی ہے، اور ہم سے اس قدر دور، کہ وہی روشنی ہم تک پہنچنے میں 7000 سال لے لیتی ہے۔ ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی، کے ایک سائنسدان نے ان ستونوں کو ایک بہت عجیب نام دیا"تخلیق کے بروج" یا پھر انگریزی میں (pillars of creation)لیکن آخر کسی شے کا کوئی نام تو ہوتا ہی ہے۔ عجیب بات کیا ہے؟ وہی الفاظ جو کتنی صدیوں بعد آج دنیا میں گونج رہے ہیں۔ سورۃ حجر کی آیت نمبر 16 کا پہلا حصّہ یوں ہے:

وَلَـقَدۡ جَعَلۡنَا فِىۡ السَّمَآءِ بُرُوۡجًا

"اور بیشک ہم نے آسمان میں بروج بنائے "

برج یعنی ستون؟ آخر کونسے ستون؟ (اکثر لوگ اس سے مراد ستارے لیتے رہے ہیں)۔ لیکن ہبل نے بتا دیا ہے کہ واقعی ستون بھی ہیں۔ اور اب JWSTخلا میں پہنچ گئی ہے۔ ابھی حضرت انسان کو اور کیا کچھ سیکھنا باقی ہے؟

Check Also

Madina Sharif Kahan Waqe Hai?

By Irfan Siddiqui