Al Saihata (1)
الصَّيْحَةُ (1)
عبد الرحمان۔
تم نے کائنات کی اس کہانی میں ایک عظیم سیلاب کی کہانی سن لی۔
حضرت نوحؑ کا بیٹا سام [جس کی اولاد عرب اور ایشیا کی طرف پھیل گئی] کا ایک بیٹا تھا ارم اور ارم کا پوتا ہوا عاد، جس کی اولاد اہل عاد کے نام سے مشہور ہوئی۔
حضرت نوحؑ کا ان کے دوسرے بیٹے سے ایک اور پوتا بھی تھا ثمود، اس سے بھی ایک نسل چلی جو آل ثمود کہلائی۔
قرآن پاک میں ان دونوں قوموں کا نام یعنی عاد اور ثمودکا ذکر اکثر ایک ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے، قرآن پاک میں چوبیس مرتبہ عاد اور تئیس مرتبہ ثمود کا ذکر آیا ہے۔
طویل عرصے پر پھیلی اس قوم کا مسکن وادی حجر تھا جو آج کے سعودی عرب اور اردن کے درمیان ایک راستے پر ہے قرآن پاک میں انہیں اہلِ حجر بھی کہا گیا ہے کیونکہ یہ پتھر کے بڑے بڑے پہاڑوں میں اپنے گھر تراشا کرتے تھے، ان کی طرف آنے والے نبی کا نام حضرت صالحؑ تھا اور اہلِ حجر نے حضرت صالحؑ سے ایک معجزے کا مطالبہ کیا تھا کہ آپ ہمیں پتھر کی چٹانوں سے ایک حاملہ اُنٹنی نکال کر دکھائیں اور پھر کیا ہوا؟
فَمَا أَغْنَ عَنْهُمْ مَا قَانُوا يَكْسِبُونَ
(یعنی کہ) کافی نہ ہوا ان پر جو انہوں نے حاصل کیا تھا [سوره حجر]
لیکن انہوں نے کیا حاصل کیا تھا؟ کون تھے یہ اہل ثمود؟ اور ان کی کون سی achievements کی بات ہو رہی ہے؟
یہ حجر والے (ثمود) ارم والوں کے بعد آئے تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں بتا دیا ہے۔
آرکیالوجی کے حوالے سے ارم والوں کی نسبت ہجر والوں کے نشانات کہیں زیادہ ملتے ہیں۔
ان کا پہلا ذکر آج سے پانچ ہزار سال پرانی سمراہ کی تختیوں میں ملتا ہے۔ ان کا دوسرا ذکر آج سے پونے تین ہزار سال پہلے ایک آشوری بادشاہ سارگونٹو کی تختیوں میں بھی ملتا ہے جہاں وہ صحرہ میں رہنے والے تاموڑی لوگوں سے شکوہ کر رہے کہ وہ اسے تحفے کیوں نہیں بھیج رہے۔
پھر ان کا تیسرا ذکر آج سے 2500 سال پہلے گزرے بابل کے آخری بادشاہ نیگونیڈس کے ایک حکم نامے میں بھی ملتا ہے جس کے اندر اس نےثمود کے ایک آدمی کو چاندی کے سکے ادا کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اور اس خط کے مطابق وہ شخص کوئی بہت بڑا تاجر تھا۔
ان کا چوتھا ذکر آج سے 2100 سال پہلے کی سفائیٹک ٹیبلٹس safaitic script میں ملتا ہے جو شام اور اردن کے خانہ بدوشوں کی لکھی ہوئی تختیاں ہیں۔
ان کا پانچواں ذکر قرآن سے صرف اٹھارہ سو سال پہلے کے رومنز کے ہاں ملتا ہے جہاں وہ سعودی عرب میں ار راوافا کے مقام پر ایک مندر کا ذکر کر رہے ہیں جو اس وقت کے رومن گورنر نے بذ ات خود ثمود کی مدد سے بنوایا تھا۔
سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دئیے گئے ایک پیغام کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے تمہیں عاد کے بعد جانشین بنایا ہے اور تمہیں زمین پر رہنے کی جگہ دی ہے۔ ایسے کہ تم نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر اس میں گھر بناتے ہو۔
سعودی عرب اور اردن کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی حجر یا مدائن صالح کہتے ہیں۔ 131 بڑے بڑے پہاڑ جنہیں تراش تراش کر گھر بنائے گئے تھے۔
1812 میں سوئٹزر لینڈ کا ایک مسافر اردن گھومنے گیا اور غلطی سے راستہ بھٹک کر پہاڑوں میں اہل ثمود کے محل دریافت کر بیٹھا تھا۔ اس کی ان کہانیوں نے ایک اور انگریز چارلز مونٹاج کو بڑا متاثر کیا اس نے بھی عرب میں بڑے بڑے پہاڑوں میں موجود گھروں کی کہانیاں سن رکھی تھی لہذا 1876 میں یورپ سے حج پر آنے والے ایک قافلے کے ساتھ چلا آیا اور وادی حجر کو دریافت کر لیا۔ 131 عظیم الشان پہاڑ جنہیں کاٹ کاٹ کر تراش تراش کر ان میں محل بنائے گئے تھے۔ سورہ انکبوت میں ارشاد ہے کہ۔۔
"اور ہم نے اہلِ عاد اور اہلِ ثمود کو بھی غارت کیا جن میں سے بعض کے نشانات تمہارے سامنے ہیں"۔
لیکن کیا وادی ہجر میں 131 پہاڑوں کو تراش کر گھر بنا لینا ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی؟
شاید نہیں یہ 131 پہاڑ کاٹ لینا کافی نہیں تھا۔ ثمود کے زمین میں مقیم ہونے کا ذکر سورہ ہود میں بھی ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ثمود کے نبی صالح نے کہا کہ اللہ ہی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے تمہیں زمین میں بسایا ہے۔۔
عبد الرحمان۔
قو م ثمود کا صرف پہاڑوں میں محل بنا لینا کمال نہیں تھا۔ یہ لوگ ایک بہت ہی خاص جگہ پر آباد تھے۔ وادی حجر کی ایک بہت ہی سٹریٹیجک لوکیشن پر۔ ایک ایسی جگہ جو چند صدی کے بعد بننے والے بہت بڑے ٹریڈ روٹ کا مرکز تھی، پوری دنیا کا یہی وہ واحد راستہ تھا جو انڈیا سے مصالحے، عرب سے خوشبوؤیں، افریقہ سے جانوروں کی کھالیں، چائنا سے لکڑی، ریشم، قیمتی پتھر اور بہت سی دوسری اشیا لے کر یورپ، عرب، انڈیا اور جاوا کے جزیرے تک کی تجارت کی گزرگاہ تھا۔ پاکستان میں موجود شاہراہ ریشم اسی2700 سال پرانے ٹریڈ روٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ گلوب کوغور سے دیکھو تو یہ تمام تجارتی راستے ایک خاص جگہ پر افریقه، ایشیا، عرب اور یورپ کو جو ڑنے والا حب hub عین اسی جگہ پر ہے جہاں اہل ثمود رہا کرتے تھے۔
دولت اور پیسے کے اعتبار سے یہ قوم انتہائی ترقی یافتہ ہو چکی تھی۔ ان کے پاس افریقه، ایشیا، عرب اور یورپ یعنی دنیا بھر کی دولت چلتی چلی آ رہی تھی۔ شاید اب تم کوسمجھ آ رہی ہو کہ بابل کے بادشاہ نےایک بہت بڑے تاجر کو چاندی کے سکے ادا کرنے کا حکم کیوں دیا ہوگا یا پھر آشوری بادشاہ ان کی طرف سےتحفے نہ آنے کا گلہ کیوں کر رہا تھا۔
بے شک حضرت صالحؑ اور ثمود اس تجارتی راستے کے باقاعدہ رائج ہونے سے بہت پہلے کے لوگ تھے لیکن یہ علاقہ یقیناً دنیا کے سب سے بڑے ٹریڈ روٹ کا مرکز تھا اور ان کے محل اس بات کے گواہ ہیں۔
لیکن ان کا جرم کیا تھا؟ ان کا جرم بھی سورہ اعراف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں آباد کیا انہوں نے پتھروں کے پہاڑوں میں بڑے بڑے محل بنائے لیکن پھر ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھے۔ با لکل اپنے کزنز اہلِ عاد کی طرح زمین میں تکبر، کرپشن اور کفر۔ اور کفر کے بھی بد ترین شکل کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگ گئے اسی اللہ کے ساتھ جس نے انہیں آباد کیا تھا۔
اہلِ ثمود کی مذہبی طور طریقوں کے حوالے سے چار بڑے نام ملتے ہیں۔۔ سفائیٹک ٹیبلٹس safaitic script، جو 1.4 BC میں لکھی گئی تھیں، میں اہلِ ثمود کے تین بتوں لات، عزی اور منات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورہ نجم میں نام کے ساتھ ان تینوں کا تذکرہ ہے۔ یہ تینوں بدنام زمانہ بت تھے اور ہزاروں سال بعد بھی مکہ کے کافر ان کو پوجتے رہے تھے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ تینوں فی میل بت تھے جنہیں کافر سورہ نجم کے مطابق اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور اسی لیے حضرت صالحؑ نے حجروالوں کو توحید کی دعوت دی۔
صالحؑ کی یہ دعوت تم کو سورہ اعراف میں بھی ملے گی کہ اللہ کی نعمت کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرو۔ سورہ ہود اور سورہ نمل میں بھی اس دعوت کا ذکر ہے۔ اور ان لوگوں کا جواب کیا تھا؟ ان کا جواب سورہ ہود میں ہے کہ صالح ہمیں آپ سے بڑی امیدیں تھیں اور آپ ہمیں ان کی عبادت سے روک رہے ہیں کی جن کی عبادت ہمارے آباو اجداد کرتے چلے آئے ہیں؟
سورہ شوری کے مطابق وہ بولے ہمیں تو لگتا ہے کہ آپ پر کسی نے کوئی جادو کر دیا ہے؟ آپ تو ہمارے ہی جیسے انسان ہیں لیکن اگر آپ سچے ہیں تو پھر ہمارے لیے ایک معجزہ لائیں۔ ہمارے لیے اس پہاڑی چٹان سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی نکال کر دکھائیں یعنی ایک ایسی اونٹنی جو بچہ جننے سے صرف پانچ مہینے دور ہو۔
عبدالرحمان۔
آخر کار اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے صالح ایک پتھر کے سامنے دو زانو بیٹھ گئے۔ جو مدت سے پہاڑوں کے پاس پڑا تھا اور پہاڑ کی خاموشی سے کلام کرنے لگے۔ پہاڑ میں لکیریں ابھرنے لگی تھیں اور عجب نقشے بننے لگ گۓ تھے جیسے دیوار سے اکھڑتے پلستر، چٹانوں کی دراڑ، برساتی سیلن کے بھیگے نشان، دیوار پر دھوئیں کی کالک، ٹھیرے پانی کی سطح پر کائی، کونے کھدروں میں پھپھوند اور سفید کاغذ پر سیاہی کے دھبے میں اشکال مرتب ہونے لگتی ہیں۔ ایک لمبی لکیر کھنچتی چلی گئی جیسے اس کو پیر لگ گئے ہوں اور اس میں سچ مچ پیر نکل بھی آیا، ایک لکیر بنی کسی کوہان کی طرح، ایک لمبوتری تھی کہ دور سے گردن معلوم ہوتی تھی، ایک لکیر دم کی طرح ہلنے لگی اور ایک اور ایک آنکھ کی طرح چمکتی تھی۔
پتھر کے اوپر اونٹنی کے نقوش ابھرنے لگے، لکیریں مل کر ایک شبیہہ بنانے لگیں اور اونٹنی کا روپ دھار لیا۔ تصویر مکمل ہوگئی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ پتھر میں سے اونٹنی نکل آئی۔ وہ اونٹنی کھلا ہوا معجزہ تھی اور رنگت اس کی پہاڑی نمک جیسی۔ اونٹنی جو چلی تو ایسا لگا کہ نمک کا ٹیلا ٹھمکتا جاتا ہے۔
اس اونٹنی کا ذکر قرآن پاک میں کم سے کم چھے مرتبہ ہے اور تین جگہوں پر اسے ایک نام بھی دیا گیا ہے: "ناقۃ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی اونٹی"۔
جاری۔۔