Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Kya Hum Bhikari Hain

Kya Hum Bhikari Hain

کیا ہم بھکاری ہیں

1901ء سے شروع ہونیوالا نوبیل پرائز دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے اپنے شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر دیا جاتا ہے۔ 1901ء سے لیکر 2023ء تک 975 لوگوں کو یہ ایوارڈ دیا جاچکا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان 975 لوگوں میں سے 214 لوگ یہودی تھےجو کہ نوبیل پرائز جیتنے والوں کا 22 فیصد بنتے ہیں۔ یعنی دنیا میں نوبیل پرائز جیتنے والے 22 فیصد لوگ یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہودی لیڈروں نے اپنی قوم کو ذہانت، کاروبار، میڈیا اور سیاست سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں پوری طرح تیار کیا اور ایسا تیار کیا کہ یہودی اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے سے نوبیل پرائز جیت رہے ہیں۔

ایک ایسی قوم جس کا باقاعدہ اپنا کوئی ملک نہیں تھا، ایسی قوم جو دنیا بھر میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور ایک ملک سے دوسرے ملک نقل مکانی کرنے پر موجود تھی۔ اُس قوم نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خود کو پوری طرح منوایا اور نا صرف منوایا بلکہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ غیر معمولی صلاحیتیں ہی مضبوط قوموں کی بنیاد رکھتی ہے۔ 1948ء میں اسرائیل کا قیام وجود میں آیا۔ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل کو اپنی سا لمیت کے شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ اُس کے تمام ہمسائیہ ممالک مسلمان تھے جن کے پاس بڑی افواج تھی۔

اپنے قیام کے وقت اسرائیل کے پاس فوج بہت کم تھی۔ اسرائیل نے اِس چیز کا حَل یہ نکالا کہ اپنی پوری قوم کو فوجی ٹریننگ دینا شروع کردی۔ اسرائیل کے لیڈرز نے اپنی پوری قوم کو فوج بنا دیا۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے شہری ہر وقت خود کو جنگ کیلئے تیار رکھتے ہے۔ ڈاکٹرز ڈیوٹی کے دوران بندوق اپنے گلے میں لٹکائے رکھتے ہیں، آفس میں کام کرنے والے پستول اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور حد تو یہ کہ نیوز اینکرز ٹی وی شوز کے دوران گن اپنے پاس رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اپنی قوم کو کیسے تیار کرتے ہیں اسرائیل اس کی اعلیٰ مثال ہے۔ جنگی تیاری تو ایک طرف آج دنیا اسرائیلی آئی ٹی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی۔

اب آئیے پاکستان کی طرف۔ 1947ء میں پاکستان آزاد ہوا اور 1948ء میں ہم نے امریکہ سے پہلی امداد لی اور تب سے لیکر آج تک ہم صرف امداد اور قرضوں کے آسرے پر ہی ملک کو چلارہے ہیں۔ ہمارے لیڈران نے کبھی پاکستان کو خودار بنانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی اور ناہی کبھی قوم کو اِس مقصد کیلئے تیار کیا۔ 1947ء سے لیکر 1970ء تک ہم نے الیکشن ہونے نہیں دیئے۔ 1970ء میں الیکشن کروائے بھی توعوام کی رائے کو ردی کی ٹوکری کی نظر کردیا۔ جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ 1971ء کے بعد سے کبھی لولی لنگڑی جمہوری حکومتیں قائم ہوئی اور کبھی مارشل لاء کی سیاہ رات ملک پر چھائی رہی۔ ہم ان تمام ہنگاموں میں مضبوظ ملکی ادارے قائم کرنے، سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرنے، انڈسٹری کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور بزنز فرینڈلی ماحول ملک میں قائم کرنے میں یکسر ناکام رہے۔

ہم نے 74 سالوں سے ملک کو تجرگاہ بنارکھا ہے۔ ہم بار بار ملک میں تجربے کرتے ہیں، وہ تجربے فیل ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کا نقصان ہوتا ہے مگر ہم اُن تجربوں سے سیکھنے کی بجائے مزید نئے تجربات کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس ملک کو عارضی بنیادوں پر چلارہے ہیں۔ کبھی اِدھر سے ادھار پیسے لےلیئے، کبھی اُدھر سے امداد لےلی، کبھی اِس بنک سے قرض لیکر دن گزار لئے اور کبھی کسی اور ملک کی پیسوں کی خاطر منت سماجت کرلی۔ ہمیں 75 سالوں سے امداد اور قرضوں کی لت لگ چکی ہے۔ ہم محنت کرنے اور ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنےکی جستجو کرنا کب کا چھوڑ چکے ہیں۔

جو بھی نیا حکمران آتا ہے وہ کشکول تھامے دوست ملکوں سے امداد لینے کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور ستم ظریفی تو یہ کہ ہم اتنی امداد لینے کے باوجود بھی ناکام ہیں۔ ہمارے حکمران آج تک بیرونی امداد کو صحیح طریقے سے ملکی ترقی کیلئے استعمال ہی نہیں کرسکے۔ اپنی قوم کو برے کے وقت کیلئے تیار کرنے اور انہیں محنتی، خودار اور عزت سے رہنا سکھانے کی بجائے ہمارے حکمرانوں نے عوام کو بھی امداد جیسے مہلک نشے پر لگا رکھا ہے۔

آپ ہماری کم عقلی ملاحظہ فرمائے کہ ہم ہر سال 471 ارب روپے پاکستانی قوم میں بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر مفت بانٹ دیتے ہیں۔ عوام ہر سال مفت کے 471 ارب روپے ڈکار جاتے ہیں۔ امداد کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کی امداد جتنی بھی دے دی جائے کم ہی لگتی ہے۔ اس کو حاصل کرنے والوں کو اس کی لت لگ جاتی ہے۔ امداد جتنی بھی دے دی جائے اس سے افراد یا اقوام کبھی بھی خوشحال نہیں ہوتی۔ امداد لینے والے ایک دفعہ امداد ملنے کے بعد دوسری دفعہ پھر سے امداد ملنے کی آس میں بیٹھ جاتے ہیں اور یہی کچھ پاکستانی قوم کر رہی ہے۔

471 ارب روپے بہت بڑی رقم ہوتی ہے اگر ہم اس رقم کا مناسب استعمال کرے تو ملکی مسائل کافی حدتک حل ہوسکتے ہیں۔ اگر حکومت یہ رقم لوگوں میں مفت بانٹنے کی بجائے، لاکھ یا دولاکھ روپے کی صورت میں، نوجوانوں کو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کی غرض سے قرض حسنہ کے طور پر فراہم کردے تو ہم ملک میں پھیلی بے روزگاری پر بہت حد تک قابو پا سکتے ہیں۔ لاکھ یا دولاکھ روپے سے چھوٹی کریانہ کی دوکان، ریفریشمنٹ پوائنٹ، کھانے پینے کا ٹھیلہ، درزی اور حجام کی دوکان کھولی جاسکتی ہے۔

قرض دینے کے بعد حکومت نوجوانوں سے ہر ماہ انتہائی قلیل پیسوں پر مشتمل اقساط وصول کرتی رہے کہ جب تک ان کا قرض ختم ناہوجائے۔ اِس سرگرمی سے پیسا بھی واپس حکومت کے پاس آجائے گا اور لاکھوں لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔ حکومت ہر سال یہ سرگرمی دہراتی رہے تو یقین مانے چند سالوں میں ملک میں چھوٹے کاروبار کی ایک پوری انڈسٹری کھڑی ہوجائے گی۔ چھوٹے کاروبار کسی بھی ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ بعد میں انہی چھوٹے کاروباروں میں سے بڑے کاروبار باہر نکلتے ہے اور مزید لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔

ایک دفعہ حکومت یہ عمل بھی کرکے دیکھ لیں ورنہ ہماری حالت اب یہ ہوچکی ہے کہ پاکستانی دنیا بھر کے ملکوں میں ویزے لیکر بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں ان گنت پاکستانی یہ کام کررہے ہیں۔ باقی خلیجی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔ حد یہاں تک کہ ملائیشیا تک میں پاکستانی بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں۔ جو پاکستانی ان ممالک میں باعزت طریقے سے روزگار کما رہے ہیں اُن کیلئے یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ اُن کے ہم وطن یہ سب کر رہے ہیں۔

مزے کی بات تو یہ کہ آپ کو پوری دنیا میں کوئی بھی یہودی بھکاری نہیں ملے گا۔ مگر ہمارا حال سب کے سامنے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نا ہو کہ دنیا ہمیں انٹر نیشنل بھکاری ہی ڈکلیئر کردے۔ مگر یہاں کسی کو کوئی فکر نہیں ہے اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے کہ حکمرانوں کی دیکھا دیکھی اب عوام بھی اسی ڈگر پر چل نکلی ہے۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf