Election Aur Imran Khan (2)
الیکشن اور عمران خان (2)
سیاسی استحکام ملک کی معیشت اور دفاع کیلئے کتنا اہم ہے یہ کبھی ہم نے سمجھنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی۔ 1988ء سے لیکر 1999ء تک نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔ 1999ء میں ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور جنرل پرویز مشرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ اگلی ایک دہائی تک ملک میں مارشل لاء نافذ رہا اور اس ایک دہائی تک ہم امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُس کے اتحادی بھی رہے اور خود دہشت گردی کا شکار بھی۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں عام انتخابات کروائے گئے اور اندازوں کے عین مطابق اقتدار کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر سج گیا۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے وزیراعظم اِس بار بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔
2013ء میں ایک تاریخ ضرور رقم ہوئی کہ پاکستان میں پہلی بار قومی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی اور اقتدار ایک حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل ہوا۔ 2013ء میں میاں محمد نواز شریف صاحب نے ملک کی کمان سنبھال لی۔ ملک میں دہشت گردی کنٹرول ہورہی تھی، توانائی کا بحران ختم ہو رہا تھا اور انٹر نیشنل ادارے ملکی معیشت کی ریٹنگ مثبت کررہے تھے کہ عمران خان صاحب کے دھرنے شروع ہوگئے اور پانامہ اسکینڈل سامنے آگیا۔
25 جولائی 2017ء کو تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا، نواز شریف کا اقتدار ختم ہوا اور وزیر اعظم ایک مرتبہ پھر اپنی مدت ملازمت پوری نہیں کر سکا۔ 2018ء میں ہونے والے الیکشنز میں عمران خان صاحب ملک کے وزیر اعظم بن گئے اور بدقسمتی سے وہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ پارلیمنٹ میں اُن کے خلاف عدم اعتماد پیش ہونے کی وجہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
یہ ملک کی 76 سالہ تاریخ کا احوال ہیں۔ یہ 76 سال غلطیوں، کوتاہیوں اور خود غرضیوں کے سال ہیں۔ اِن 76 سالوں میں ہم سیاسی طور پر بس اِتنا میچور ہوپائے ہیں کہ 2008ء کے بعد سے قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرکے اقتدار ایک حکومت سے دوسری حکومت کے سپرد کردیتی ہے۔ اِن 76 سالوں میں ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا اور ہر وزیراعظم اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد جیل چلاجاتا ہے۔ اِس کے برعکس بھارت اور کوریا جیسے ممالک جو ہمارے ساتھ یا ہم سے تھوڑا عرصہ پہلے آزاد ہوئے تھے، انہوں نے اپنی آزادی کے بعد سے ہی اپنے ملکوں میں سیاسی نظام کو طاقتور کیا، عوام کی رائے کو ترجیح دی اور اپنے اداروں کو مضبوط کیا۔ آج وہ لوگ اس محنت کا پھل کھا رہے ہیں۔ چین ہمارے بعد آزاد ہوا تھا۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہےجبکہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کے ساتھ ساتھ سپر پاور بننے کی جانب بھی گامزن ہے۔
بھارت، چین اور کوریا کی ترقی کے پیچھے بہت بڑا ہاتھ وہاں کا سیاسی استحکام ہے۔ جس وقت یہ ممالک خود کو سیاسی طور پر مضبوط بنا رہے تھے تب ہم مارشل لاء لگانے، عوامی رائے کو دبانے اور ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں مصروف تھے۔ ہم نے سنبھلنے اور ترقی کی بنیاد ڈالنے والا قیمتی وقت سیاسی اتار چڑھاؤ میں ضائع کردیا۔ 26 جنوری 1950ء کو بھارت نے اپنا آئین تشکیل دے دیا تھا اور 1952ء تک وہاں عام انتخابات ہوچکے تھے ہم نے یہی کام آدھا ملک گنوا کر اور 24-25 سال ضائع کرکے سرانجام دیئے۔ دنیا یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ چکی تھی کہ معاشی ترقی کا ڈائریکٹ لنک سیاسی استحکام سے ہیں۔ روز روز حکومت کی تبدیلی اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کی جانے والی معاشی پالیسیوں میں تبدیلی سرمایہ کاروں کا اعتماد کھو دیتی ہے۔ مگر ہم یہ بات ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔
بار بار حکومتوں کی سازشوں کے ذریعےیا جبری تبدیلی نے عوام اور بالخصوص نوجوان نسل کو ہمارے سیاسی نظام سے متنفر کرکے رکھ دیا ہے، ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کا خواب ہمیشہ چکنا چور ہی ہوا اور عوام کا ہر بار ہمارے سیاسی نظام سے تعلق مزید کمزور ہوا ہے۔ عمران خان ایک ایسی شخصیت تھے جو لوگوں کا اعتماد ہمارے سیاسی نظام پر بحال کر سکتے تھے۔ اُن کی خود کی اچیومنٹ تمام سیاسی رہنماؤں کی ذاتی اچیومنٹ سے زیادہ تھی۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کے ساتھ ساتھ، نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم جیسے اداروں کا قیام بہر حال ان کی بڑی کامیابیاں ہے جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت باقی تمام سیاسی رہنماؤں سےکافی زیادہ ہے۔ ویسے بھی لوگ پرانے سیاسی چہروں سے اُکتا چکے تھے اور نظام میں تبدیلی چاہتے تھے۔ اگر عمران خان کو 5 سال مکمل کرنے دیئے جاتے تو شاید آج ملکی حالات قدرے بہتر ہوتے۔
عمران خان کے ساتھ لڑائی میں ہماری معیشت کا جنازہ نکل گیا اور نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد ملکی نظام سے ہی مایوس ہوگئی۔ لوگ ہر حال میں میں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑ جانا چاہتے ہیں چاہے اس کیلئے اُن کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ یہ مایوسی اور ملکی سیاسی نظام پر عدم اعتماد ہی تھا کہ جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عمران خان کی حکومت جانے پر مظاہرے کیے۔ ملکی سیاسی نظام پر اعتماد ابھی بھی قائم کیا جاسکتا ہے اگر پی ٹی آئی کو بھی باقی سیاسی جماعتوں کی طرپلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائےاور انہیں بھی باقی پارٹیوں کی طرح آزادانہ الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی اس وقت ملک کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت اور عمران خان سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہے۔
مگر صد افسوس کہ ابھی بھی وہی ڈرامے کئے جارہے ہیں جو پچھلے 75 سالوں سے کئے جارہے ہیں ریٹرننگ آفیسر ملک کے سب سے مقبول لیڈر کے کاغذات نامزدگی ریجیکٹ کررہا ہے اور الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لے رہا ہے۔ ایک عدالت انتخابی نشان واپس پی ٹی آئی کو دے دیتی ہے تو دوسری عدالت انتخابی نشان پھر سے واپس لے لیتی ہے۔ 80 فیصد سے زائد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی ریجیکٹ ہو چکے ہیں۔
الیکشن قریب آرہے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ عمران خان الیکشن لڑیں گے کہ نہیں اور اگر لڑیں گے تو بھی کس انتخابی نشان پر لڑیں گے۔ ہرطرف بے چینی کی صورتحال ہے۔ عمران خان کو شاید اس الیکشن کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں جتنی اس ملک کو ایک مضبوط اپوزیشن اور مقبول لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ مقبول لیڈر شپ ہی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے ترکی کے رجب طیب اردوان، روس کے پیوٹن اور بھارت کے نریندر مودی اس کی واضح مثالیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے پرانی غلطیوں کو دہرانے سے پرہیز کریں مگر افسوس کیا کیا جاسکتا ہے کہ تاریخ کا سب سے تلخ سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا۔