Beco Aur CM Latif
بیکو اور سی ایم لطیف
محمد لطیف 1907ء کو مشرقی پنجاب کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام مہر میران بخش تھا۔ محمد لطیف کے والد اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور محمد لطیف کی چھوٹی عمر میں ہی ان کے والد وفات پاگئے۔ محمد لطیف نے اپنے والد کی خواہش کے مطابق اعلی ٰ تعلیم حاصل کی اور 1930ء میں مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1932ء میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کے نام پر "بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (بیکو BECO)" کی بنیاد رکھی۔
1934ء آتے آتے اُن کی کمپنی نے جانوروں کےلئے چارہ کاٹنے والی مشینیں بنانا شروع کردی تھی۔ 1939ء میں اُن کی کمپنی نے زرعی آلات بھی بنانا شروع کردئیے اور انہوں نے زرعی آلات کیلئے ایک فاؤنڈری بھی قائم کرلی تھی۔ اُن کا کاروبار دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہا تھا۔ محمد لطیف اب چوہدری محمد لطیف بن چکے تھے اور لوگ اُنہیں سی ایم لطیف کے نام سے یاد کرتے اور پکارتے تھے۔ سی ایم لطیف ایک بڑے صنعتکار کے طور پر اپنا لوہا منوا چکے تھے کہ تبھی 1947ء آگیا اور دو ملک وجود میں آگئے۔ سی ایم لطیف چاہتے تو بھارت میں رہ کر اپنا کاروبار بچا سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی فیکٹریاں اور اپنا سب کچھ بھارت میں ہی چھوڑا اور پاکستان کی محبت میں ہجرت کرکے لاہور آگئے۔
یہ اُن کی پاکستان سے محبت کی بہت بڑی مثال تھی۔ اُن کی کمپنی اور فیکٹری کو بعد ازاں سکھوں اور ہندوؤں نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
سی ایم لطیف نے لاہور میں بیکو کو پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دسمبر 1947ء کو اُنہوں نے لاہور کے علاقے بادامی باغ میں پھر سےکمپنی کو زیرو سے سٹارٹ کیا اور تین سال کی انتھک محنت کے بعد کمپنی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ کمپنی میں سٹیل ورکس، سٹیل فاؤنڈری، سٹیل رولنگ ملز، آئرن فاؤنڈری، مشین ٹول شاپ، ڈیزل انجن شاپ، سٹرکچرل شاپ اور جنرل انجینئرنگ شاپ سمیت 8 ڈیپارٹمنٹس قائم تھے۔
بیکو میں اُس وقت مشینوں کے پرزہ جات، واٹر پمپس، پاور لومز، کرینیں، الیکٹرک موٹرز اور سائیکل تیار کئے جاتے تھے۔ بیکو 60ء اور 70ء کی دہائی میں ایک انٹرنیشنل اور پاکستان کا قابل فخر ادارہ بن چکا تھا۔ مختلف ممالک کے سربراہان بیکو کا دورہ کرنے کیلئے بادامی باغ آیا کرتے تھے اور اپنے انجینئرز کو بھی بیکو میں ٹریننگ کیلئے بھیجا کرتے تھے۔
چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے بیکو کا دورہ کیا اور اپنے نجینئرزبیکو میں ٹریننگ کیلئے بھیجا، چو این لائی نے بیکو کے سٹرکچر اور انتظامی امور کی طرز پر چین میں باقاعدہ ادارے اور فیکٹریاں قائم کی۔
چو این لائی کے علاوہ شام کے سربراہ مملکت حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ بھی بیکو کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین کے ساتھ ساتھ جاپان اور جرمنی کے انجینئرز بھی بیکو میں ٹریننگ کیلئے بھیجے جاتے تھے۔ آج اِن تینوں ممالک کا انجینئرنگ میں طوطی بولتا ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں بیکو میں 6000 لوگ ملازمت کیا کرتے تھے۔ سی ایم لطیف اپنے وقت سے بہت آگے کے انسان تھے۔ انہوں نے ایک ایسا ادارہ قائم کر دیا تھا۔ جو اپنے وقت کا شاہکار اور پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھا۔ مگر کیا کیجئے کہ بدقسمتی چپکے سے ان کے ادارے کا پیچھا کر رہی تھی۔
یکم جنوری 1972ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اقتصادی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے 31 اہم صنعتی اداروں کو نیشنلائز کرنے یعنی قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کرلیا۔ جس میں بیکو بھی شامل تھا۔ ایک ہی رات میں سی ایم لطیف سے سب کچھ چھین لیا گیا، ان کے سالوں کی محنت ضائع کردی گئی اور ان کو ان کے اپنے ہی ادارے سے نکال کرادارے کو حکومت پاکستان نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ایک ہی رات میں وہ پھر سے 1947ء والی پوزیشن پر آچکے تھے۔ جس ملک کی محبت میں انہوں نے سب کچھ چھوڑا 1972ء میں اُسی ملک نے اُ ن سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ حکومت وقت نے بیکو کا نام تبدیل کرکے پاکستان انجینئرنگ کمپنی(پیکوPECO) کر دیا۔ حکومت نے اپنے وقت کے اِس صنعتی شاہکار ادارے کو بعد میں اُن لوگوں کے سپرد کر دیا گیا۔ جنہیں مکینیکل انجینئرنگ کی الف تک نہیں آتی تھی اور پھر اس عالیشان ادارے کا وہی حال ہوا جو ہر سرکاری ادارے کا ہوتا ہے۔
بیکو نے پھر کبھی منافع نہیں کمایا اور پاکستان کا قومی اثاثہ کہلایا جانے والا ادارہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔ بیکو نے 1972ء سے لیکر 1998ء تک 760ارب روپے سے زیادہ کا نقصان کیا۔ بعد میں جنرل ضیاءالحق نے سی ایم لطیف کو بیکو واپس لینے کی آفر کی جن کو انہوں نے ٹھکرا دیا۔ سی ایم لطیف پاکستان سے مایوس ہوکر جرمنی چلے گئے اور انہوں نے اپنی باقی تمام عمر جرمنی میں گزار دی۔ سی ایم لطیف نے بعد میں ساری زندگی کوئی کاروبار کیا اور نہ ہی کوئی فیکٹری بنائی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت باغبانی اور پھولوں کو اُگانے میں لگاتے تھے۔ شاید انہیں یقین تھا کہ یہ پھول ان سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔
سی ایم لطیف ایک ذہین اور محب وطن انسان تھے اگر بیکو کو اُن کے پاس رہنے دیا جاتا تو آج ہم ایک صنعتی طاقت ہوتے، لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو روزگار مل رہا ہوتا اور ہم ایک اچھا خاصہ زر مبادلہ بھی کما رہے ہوتے۔ مگر ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہر چیز کو برباد کردیا۔ بھارت بھی ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا۔ اُس نے اپنے اداروں کے آگے بڑھنے اور مزید ترقی کرنے کی راہ ہموار کی اور آج بھارت 3 ٹریلین(3 کھرب) ڈالر کی معیشت ہے۔ ٹاٹا بھارت کا معروف صنعتی ادارہ ہے، حال ہی میں ٹاٹا (TATA)نے ائیر انڈیا ایئر لائن کو خریدا ہے اور یہ بات آپ کیلئے حیران کن ہوگی کہ ٹاٹا نے اپنی ایئر لائن کیلئے نئے جہاز خریدنے کے جو معاہدے کئے ہیں ان کی مالیت 82 بلین (82ارب) ڈالر ہے۔ یہ بھارت کے صرف ایک کاروباری ادارے کی دولت کا حجم ہے اور ہم ایک ایک ارب ڈالر کیلئے ساری دنیا سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور اگر بھیک مل جائے تو قوم کو مبارکبادیں پیش کرتے ہیں۔ اگر سی ایم لطیف بھی بھارت میں رہ جاتے تو شاید ٹاٹا کے پایہ کے صنعتکار ہوتے۔
سی ایم لطیف 2004ء میں 97 سال کی عمر میں جرمنی میں فوت ہوئے اور وہی پر دفن ہوئے۔ بادامی باغ میں قائم ان کی فیکٹری میں ٹنوں کے حساب سے لگے سٹیل اور سریہ کواتار کر اب بیچا جا چکا ہے اور اب وہاں صرف خالی ویران عمارتیں ہے اور صنعتی ترقی کا قبرستان۔ صنعتی ترقی کے ساتھ ہماری خوشحالی اور قومی عزت کا قبرستان بھی ساتھ ہی موجود ہے۔