Saans Aur Qatil Dhuan
سانس اور قاتل دھواں
اگر آج پاکستان کو درپیش مسائل کی درجہ بندی کی جائے تو سموگ سر فہرست ہے کیونکہ سانس لینا ایک خود کار اور نادانستہ و مسلسل عمل ہے۔ عصر حاضر اور لمحہ موجود میں سموگ، کثیف و گاڑھا دھواں مضر صحت ذرات و اجزاء پر مشتمل ماحولیاتی آلودگی نے پنجاب و بیشتر پاکستان کو آلودہ ترین کر رکھا ہے اور چونکہ سانس لینا لازم ہے تو زہریلے دھوئیں اور مضر صحت اجزاء اور موت تقسیم کرتی سموگ کو سانس کے ذریعے انسانی جسم کے اندر لے جانا لازم و ملزوم ہے۔
سانس لینا ہی زندگی ہے اور اگر سانس لینے کے ساتھ ماحول میں موجود زہر سانسوں کے ساتھ انسانی جسم کے اندر گھلتا جائے تو زندگی میں موت کی آمیزش کا امتزاج ہے جو کہ نوع انسان و حیوان و درختوں و پودوں کے لئے قاتل اور موت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔ انسان بھی کیسا بے بس ہے کہ اتنی ٹیکنالوجی و ترقی کے باوجود زہر و قاتل دھواں و موت کو سانسوں کے ساتھ انسانی جسم کا حصہ بنانے پر مجبور ہے۔
آج سموگ زدہ آسمان تلے بیٹھ کر میں پاکستان کے مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کروں تو گاڑھا و کثیف دھواں سموگ کی صورت میں انسانی زندگیوں کو چاٹتا نظر آتا ہے۔ بارشوں کی کمی یا طوفانی بارشیں و سیلاب، درختوں کی مسلسل کٹائی اور ماحول میں زہریلا دھواں و پلاسٹک بیگز اور بھٹہ و فیکٹریوں سے نکلتی موت تقسیم کرتی خطرناک گیسیں اور سڑکوں پر کالا سیاہ دھواں اور کالا سیال مادہ ماحول میں چھوڑتی ٹریفک آج سے پانچ یا دس سال بعد کیا وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے انسانوں کو سانس لینے کے لیے محفوظ و صاف ہوا دے پائیں گی؟
سموگ کی ممکنہ وجوہات میں بارشوں کا کم ہونا۔ جنگلات و درختوں کی مسلسل کٹائی، فصلوں کی باقیات کو آگ کے ذریعے تلف کرنا اور ماحول میں کثیف و گاڑھا دھواں چھوڑنا۔ دھواں خارج کرتی بے ہنگم ٹریفک، فیکٹریوں و انڈسٹریز سے اخراج ہوتے مضر صحت اجزاء و ذرات و دھواں، بھٹہ خشت کی چمنیوں سے اگلتا سیاہ دھواں کچرا کنڈیوں اور انسانی آبادیوں میں کچرے و پلاسٹک بیگز کے ڈھیروں کو تلف کرنے کے لیے لگائے جانے والی آگ سے بننے والا خطرناک کیمکیلز پر مشتمل گاڑھا و کثیف دھواں سموگ کی ممکنہ وجوہات میں شامل ہیں۔
یوں تو سموگ کو بارہا متعدد ادارے و حکومتی سطح پر بیان کیا جا چکا ہے مگر ایک طائرانہ جائزہ کے تحت دیکھا جائے تو سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہوتا ہے جو ہوا میں جم سا جاتا ہے۔ سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے۔
سموگ کے اثرات و نتائج نوع انسان و تمام جانداروں و ماحول پر بہت خوفناک و بھیانک و دور رس ہیں۔ انسانی زندگی کو دیکھئے تو ایک تحقیق کے مطابق سموگ زدہ علاقوں اور معاشرے میں اوسط انسان زندگی چار سے آٹھ سال تک کم ہو جاتی ہے۔ سموگ سے انسانوں میں عمل تنفس پھیپھڑے آنکھیں سینے کی بیماریوں کے لاتعداد کیس رپورٹ ہوتے ہیں اور معاشرے میں میڈیکل ایمرجنسی کی صورت حال بپا ہو سکتی ہے۔
مگر زہر خورانی کے اثرات کیا محض اتنے ہی ہو سکتے ہیں ہرگز نہیں جس طرح زہر خورانی کا انجام موت ہوتا ہے بالکل اسی طرح سموگ بھی ماحول میں زہر پھیلا رہی ہے اور انجام کار موت یعنی انسانوں کی اوسط زندگی کا کم ہو جانا، متعدد تحقیقات کے مطابق سموگ سے اوسط انسانی زندگی کا چار سے آٹھ سال تک کم ہو جانا اور معاشرے کے اہم ترین افراد یعنی بچوں اور بزرگوں کا سموگ کی زد میں آ کر زیادہ خطرناک صورت حال میں جانا انتہائی خطرناک صورتحال کو مستحکم کرتا ہے۔
یاد رہے کہ 1951 میں برطانیہ کا دارالحکومت لندن سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہو چکا ہے اور اسی طرح سنہ 1980 کی دہائی کے بعد چین میں بھی سموگ نے ماحول کو شدید آلودہ کیا۔ دونوں ممالک میں سموگ کی بنیادی وجہ کوئلے کا بطور ایندھن استعمال تھا۔ مگر دونوں ممالک نے متبادل ایندھن کا بندوبست ہنگامی بنیادوں پر کیا اور ماحول و مستقبل کو بہت حد تک صاف کیا اور سموگ سے نجات پائی۔ گو کہ بیجنگ تا حال بھی سموگ و ماحولیاتی آلودگی کی شدید زد میں ہے، مگر سموگ کو کچھ نہ کچھ حد تک کنٹرول ضرور کیا گیا۔
چین میں سموگ کی بنیادی وجہ بہت وسیع تر انڈسٹری ہے۔ اسی انڈسٹری کی بدولت چین دنیا میں عالمی طاقت کے طور پر ابھرا مگر چین میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2013 سے2017 میں چار سال کے درمیان بیجنگ میں فضا میں زرات کی شرح 35 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد ہوگئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے کسی اور شہر نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی۔ تاہم یہ اس لیے تھا کیونکہ چین نے جو اقدامات متعارف کروائے وہ سنہ 1998 کے بعد سے دو دہائیوں تک مختلف اشکال میں نافذ کیے جاتے رہے۔ چین کی حکومت نے صنعتوں پر اخراج کو بہت کم کرنے کے لیے معیار وضع کیے، جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم بنایا اور مزید پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بھی بنایا۔ چین میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی کو بھی بہتر کیا گیا۔
مگر وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سب کو عملی اقدامات کی طرف جانا ہوگا بصورت دیگر پاکستان کے ماحول میں گلوبل وارمنگ یعنی گرم ہوتی دنیا اور کلائمیٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلیوں نے پاکستان کے آب و ہوا کو سموگ زدہ اور سموگ کو پانچویں موسم کے طور پر لاگو کر دینا ہے۔ تو سموگ زدہ آب و ہوا کیسے صحت مند و مثبت معاشرے کو ترویج و پروان چڑھنے دے سکتا ہے؟