Waldain, Ustaz Aur Aklote Bache
والدین، اُستاذ اور اَکلوتے بچے
یہ ہے ہی نالائق۔ اسے کتنی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ چکے ہیں۔ اس کے اساتذہ تبدیل کیے ہیں۔ اس کے لیے گھر میں ہوم ٹیویشن کا بندوبست کیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں۔ یہ اپنی مرضی کرتا ہے۔ ہماری تو سُنتا ہی نہیں ہے۔ ہم کیا کریں؟ ہم تو اِس سے نااُمید ہو چکے ہیں۔ اب تو لگتا ہے جیسے زندگی میں کچھ رہا ہی نہیں۔ اس کے بعد وہ رونے لگی۔
میں نے کہا: میڈیم! آپ پلیز، جذباتی نہ ہوں۔ بچہ ہے۔ بچے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اس عمر میں غفلت اور لاپروائی کی عادت ہوتی ہے۔ یہ بہت ذہین اور فرماں بردار ہے۔ آپ کو کسی نے یونہی غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے پچاسی فیصد نمبر ہیں تو کیا ہوا۔ یہ بہت ہیں۔ میں جب اِس کلاس میں پڑھتا تھا۔ میرے پچاس فیصد سے زیادہ نمبر نہیں آتے تھے۔ یہ تو ماشا اللہ پچاسی فیصد نمبر لے رہا ہے۔ آپ فکر نہ کریں، سالانہ امتحان میں اِس سے زیادہ نمبر لے گا۔
اُس محترمہ کو میری بات محض تسلی معلوم ہوئی۔ اُس نے کہا: سر! آپ نہیں جانتے۔ اِس نے فرسٹ ٹرم میں بیانوے فیصد نمبر لیے تھے۔ مڈٹرم میں پچاسی فیصد لیے ہیں۔ اب یہ فائنل میں ستر فیصد لے گا۔ آپ بتائیے! میری خاندان میں کیا عزت رہ جائے گی۔ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ یہی میری کُل کائنات ہے۔ میں نے اِس کے لیے بننا سنورنا اور دوستوں عزیز وں کے ہاں جانا ترک کر رکھاہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ کچھ بن جائے۔ آپ اِس کے پاپا کو نہیں جانتے، وہ بہت سخت اور اُصول کے پکے ہیں۔ انھوں نے مجھے تنبیہ کی ہے کہ اگر اس نے فائنل ٹرم میں پچانوے فیصد نمبر نہ لیے تو ہم دونوں کی خیر نہیں ہے۔ یہ مجھے گھر سے نکلوا کے چھوڑے گا۔۔
ایک طویل کہانی جس میں کئی جذباتی موڑ کے بعد بالآخر اپنے انجام کو اِس یقین کے ساتھ پہنچی کہ فائنل ٹرم میں یہ ہونہار طالب علم پچانوے فیصد نمبر لے کر ماں کی عزت رقیبوں میں بحال رکھے گا۔ ہر سال تین پیرنٹس ٹیچر میٹنگ نجی اور سرکاری سکولز، کالجز میں ہوتی ہیں۔ ان تین میٹنگ میں اکلوتے بیٹے والی اماں اور ابّا کا یہی رونا ہوتا ہے کہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ ہم اس کے لیے جیتے ہیں۔ اِسی میں ہماری جان ہے۔ ہمارا سب کچھ اِسی کا ہے۔ اِسی کے دم سے ہمارا دم ہےوغیرہ وغیرہ۔
یہ سبھی باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس اکلوتے بیٹے کے پیدا ہونے میں اور اس سے پہلے اور بعد میں کسی اور بہن بھائی کے پیدا نہ ہونے میں اِس اکلوتے بیٹے کا کیا قصور ہے۔ کیا اِس نے خود یہ چاہا تھا کہ اسے اکلوتا ہی پیدا ہونا ہے، اس کا کوئی شریک بہن بھائی پیدا نہیں ہوگا۔ کیا اِسے پیشگی یہ علم تھا کہ اِس کے ابّا نے بہت سارا پیسہ اکھٹا کر رکھا ہے، اس لیے یہ اکیلا ہی پیدا ہوگا، کسی اور کو اس وراثت میں حصہ لینے نہیں دے گا۔ آخر اِس اکلوتے بچے کا قصور کیا ہے؟ یہ اکلوتا پیدا ہوا ہے، اس کو اکلوتا کہہ کہہ کر آپ نے اِسے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اس اکلوتے سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ اسے زندگی میں کیا کرنا ہے، کیا بننا ہے اور کس طرح زندگی کا پلان ترتیب دینا ہے۔
اکلوتا بیٹا پیدا ہونا پاکستان میں ایک مصیبت سے کم نہیں ہے۔ لڑکے کے ساتھ لڑکی کا بھی یہی مسئلہ ہے، تاہم لڑکی کے مسائل کچھ اور ہیں۔ اکلوتا بیٹا پیدا ہونے کے بعد اماں ابّا کی جان سُولی پر لٹکی رہتی ہے۔ یہ ہونہار کو باہر جانے سے پہلے باقاعدہ ہر طرح کی ہدایات پر عمل داری کا حلف اُٹھوایا جاتا ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ کسی پر بھروسہ نہیں کرنا۔ تم اکیلے ہو۔ اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے۔ تمہارے سِوا ہمار کوئی نہیں ہے، تم ہماری آنکھوں کا نور ہو، تم ہمارے دل کا قرار ہو، تم ہمارے جینے کی پہلی اور آخری اُمید ہو۔
یہ اکلوتا اس طرح کے مصنوعی، بناوٹی اور خودساختہ ماحول میں بچپن سے لڑکپن تک کا سفر طے کرتے ہوئے سیکڑوں قسم کی تخریبی و خلجانی آلائشیں اپنے ساتھ منسلک کر لیتا ہے۔ اس کی شخصیت میں خوف، جھجھک، ڈر، اندیشے، واہمے، اور لاینحل کیفیات و واردات کا ایک ہجومِ وحشت ناک دخیل ہوجاتا ہے۔ اس اکلوتے میں کبھی اعتماد کی صحت مند صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ اس کی عادات و افعال اور جملہ حرکات میں زنانہ عناصر و لوازم دخیل ہو جاتے ہیں۔ اماں کے انتہائی قریب رہنے سے اور ہر وقت کی قُربت اور کڑی نگہداشت کےروبوٹک سکیجوئل سے اس میں عورتوں کے داعیات نمودار ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ اس کے اندر سے مَرد کی صفات کو زائل کر دیتے ہیں۔
چند برسوں میں یہ مَرد ایک عورت بن جاتا ہے جو بڑا ہو کر تگنی کا ناچ نچوا دیتا ہے۔ اس کی شخصیت میں کئی طرح کے عوارض در آتے ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ مرورِ وقت کے ساتھ اس کے اندر کا ڈر، خوف، جھجھک اور اندیشوں کی وحشت بڑھتی جاتی ہے۔ مردوں سے یہ دور بھاگتا ہے، عورتوں میں گُھس کر گھوسپ کرتا ہے، عورتوں کے زیوارات اور لباس میں دلچسپی لیتا ہے۔ والدین کی آنکھ کا یہ نور، اپنی نورِبصیرت سے کے استعمال سے محروم رہتا ہے۔ جوانی کے دور میں قدم رکھنے سے پیشتر لُڑھک جاتا ہے۔ یہ اکلوتا ہونہار ایسی ایسی قباحت آمیز حرکاتِ غیر میں مبتلا ہوتا ہے کہ دیکھ کر شرم آتی ہے کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے لیے زمین و آسماں ایک کر دئیے گئے تھے۔
اماں ابّا کے بے انتہا لاڈ اور پیار سے اس کی انَا اتنی توانا اور فرعونی ہو جاتی ہے کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اس کی ہاں میں ناں کرنے والا پِٹتا ہے اور عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ گھر میں اِس اکلوتے کا لائف اسٹائل دیکھنے والا ہوتا ہے۔ اماں ابّا مزدور ہیں، نوکری پیشہ ہیں، سیٹھ ہیں یا اُمرا کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب کے اکلوتے کی آن، بان اور شان ایک سی ہوتی ہے۔ گھر میں اس کا کمرہ دیکھنے والا ہوتا ہے، دُنیا جہان کی چیزیں اِس کی دسترس میں ہوتی ہیں۔ نوکر، چاکر اِس کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ منہ سے نکلنے سے پہلے بات پوری ہو جاتی ہے۔ جوتوں اور کپڑوں کے پچاس پچاس جوڑے الماری میں ٹنگے ہوتے ہیں۔ کھانے میں طرح طرح کی ڈشز اس کے لیے روزانہ بنتی ہیں۔ یہ سب کچھ اِس ہونہار کے لیے اِس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اکلوتا ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے، اسی کا ہے۔
بات یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے کہ یہ اکلوتا ہے تو کیا ہوا۔ سب کچھ اِسی کا ہے، اگریہ سب کچھ تباہ کر دے گا، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس اِسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ میرا سوال اکلوتے والدین سے یہ ہے کہ اس اکلوتے کے لیے جب آپ اتنا کچھ کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہ بھی آپ کے لیے وہی کچھ کرے تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ آپ خود کو اِس خوش فہمی سے نکالیے اور ہوش کے ناخن لیجیے۔ آپ نے اس اکلوتے کو پیدا کیا ہے۔ آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ نے اس کی کس پیمانے پرتربیت اور پرورش کرنی ہے۔ آپ اِس اکلوتے پر اپنا تن، من اور دھن نثار کرکےیہ توقع کرتے ہیں کہ یہ بھی اسی طرح اپنا آپ ہم پر نثار کردے تو یہ آپ کی بھول ہے۔
وقت ہمیشہ ایسا سا نہیں رہتا۔ معاشرہ رنگ رنگ کے انسانوں سے بھرا ہے۔ آپ نے اکلوتا پیدا کر لیا ہے لیکن دُنیا نے چھے چھے، سات سات پیدا کر رکھے ہیں۔ اِس اکلوتے نے انھیں چھے چھے، سات سات والوں کے ساتھ اُٹھنا، بیٹھنا ہے۔ اس کی شخصیت پر بیرونی ماحول اور معاشرت کا اثر پڑنا ہے۔ آپ اس کے ارد گرد مصنوعی ببل بنا سکتے ہیں۔ اسے اپنے تیں جتنا پیمپر کرنا چاہتے ہیں کر سکتے ہیں لیکن معاشرے کی فضا سے اِس کو آلودہ ہونے سے نہیں بچا سکتے۔ آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اِسے اکلوتا سمجھ کر اِس کو حقیقی زندگی کے لطائف سے محروم مت کیجیے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ آپ آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ موت سے کس کو رُستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے۔
آپ اسے مرد بنائیے اور معاشرے کے طور اطوار میں فطرتاً ڈھلنے دیجیے۔ اسے دوست بنانے دیجیے۔ اس کے اندر علاقائی ماحول کی جملہ معاشرت کا رس گھلنے دیجیے۔ یہ اپنے طور پر جو کچھ سیکھتا ہے، اِسے سیکھنے دیجیے۔ کامیابی، ناکامی، آزمائش، امتحان، اُمیدی، نا اُمیدی، جستجو، ترقی، منزل، خواب، خواہش اور حب الوطنی وغیرہ کے جذبات سے اِسے آگاہ کیجیے۔ اس کی جملہ حرکات و سکنات پر نظر رکھیے۔ اسے اچھے بُرے کی تمیز سکھائیے۔ اکلوتا سمجھ کر اس کو گھر کی چار دیواری اور مصنوعی زندگی کی قید میں اسیر نہ کیجیے۔ اگر آپ فطرت کے خلاف اقدام کریں گے تو اس کا ردِعمل بہت بھیانک سامنے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی منشا کے آگے سر تسلیمِ خم کیجیے۔ بہ حیثیت والدین آپ اپنے بیٹے کے لیے جو کر سکتے ہیں، ضرور کیجیے۔ اسے زندگی کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ اسے زندگی اور موت کی حقیقت سے خود آگاہ ہونے دیجیے۔ اس کے اندر اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کی جستجو بھی پیدا کریں۔
اِسے یہ احساس منتقل کیجئے کہ ہم نے آپ کو ایک اچھا لائف اسٹائل اس لیے نہیں دیا کہ کھاؤ پیو اور تعمیری صلاحیتوں کو ضائع کرکے ہمارے لیے شرمندگی و ندامت کا نشان بن جاؤ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم خود کو محنت کی چکی میں ڈالو، اپنی صلاحیتوں کو ثقیل کرو، محنت کرکے خود کو ایک کامیاب اور مطمئن شخصیت بنو تاکہ لوگ تمہاری مثالیں دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین کی حد سے زیادہ پیمپرنگ کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں بچے ضائع ہورہے ہیں۔ خدا کے لیے اِس نرگسی روئیے کو ترک کیجیے۔ پاکستان کو پورے مرد یجیے تا کہ یہ اکلوتے یعنی پورے مرد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔