Asif Ali Zardari
آصف علی زرداری

جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ سرمایہ داری و جاگیر داری کے خلاف "اینٹی اسسٹیٹس کو" جماعت کا رنگ لیے ابھری۔ اسی سانچے میں پارٹی ورکرز کو بھی ڈھالا گیا۔ یہ جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر مشرف کے این آر او کو قبول کرنے کے بعد ایک نئی چھاپ چپکنی شروع ہوگئی کہ وہ والی پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان تھی۔ یہ والی پیپلز پارٹی نہ بائیں کی رہی نہ دائیں بازو کی بلکہ دھنئے کا شربت پی ہوئی ایک ہومیوپیتھک جماعت ہے۔ بینظیر کی شہادت کے بعد قیادت زرداری صاحب کی جھولی میں آن پڑی اس کے بعد سے اس کی قیادت ذاتی "سٹیٹس کو" کا تحفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ علامتی طور پر ملک گیر مگر عملاً صوبائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
آصف علی زرداری صاحب گزشتہ تین دہائیوں میں جیل اور اقتدار کے درمیان جھولتے رہے ہیں۔ زرداری صاحب مفاہمت کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں اور مفاہمت کرتے کرتے اپنی پارٹی کا پنجاب و کے پی سے جلوس نکلوا دیا مگر ہمت نہ ہاری۔ پاور کاریڈو یا سٹیٹس کو کا مرکزی حصہ بنے اور جماعت کو بھی اس جانب گھسیٹ لے گئے۔ "تم ہمیں موت سے ڈراتے ہو۔ ارے ہم تو وہ لوگ ہیں جو خود موت کا تعاقب کرتے ہیں"۔ یہ تیور تھے آصف علی زرداری کے چار اپریل سنہ 2012 کے گڑھی خدا بخش میں اور پھر بلاول کو اسی گڑھی خدا بخش میں باضابطہ طور پر پارٹی کے کراؤن پرنس کے طور پر مرکزی مقرر کا منصب دیا گیا، پھر نہ جانے کیا ہوا اور ہوتا چلا گیا۔
ان کی تاریخ بھی ان کی مسکراہٹ کی مانند پھیلی ہوئی ہے۔ بینظیر صاحبہ کے پہلے دور حکومت میں ان پر اپنی اہلیہ کے منصب سے فائدہ اٹھا کر دولت بنانے کے الزامات لگتے رہے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ وہ ہر سرکاری منصوبے پر کمیشن لیتے تھے اور انہیں "مسٹر ٹین پرسنٹ" کہا گیا۔ انہیں بینظیر کی پہلی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا اور سنہ 1990 میں نگران حکومت نے سب سے پہلے جن افراد کو گرفتار کیا ان میں وہ شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زرداری صاحب نے عین اس وقت سیاست میں قدم رکھا جب حالات ان کے خلاف دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے سنہ 1990 میں اپنے آبائی شہر نوابشاہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
وہ انتخابی مہم کے دوران کہتے تھے "کم از کم لوگ مجھے وزیراعظم کا غیر منتخب شوہر نہیں کہیں گے جو حکومت کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ اگر میں منتخب ہوگیا تو اسمبلی کے فلور سے اپنا دفاع کر سکوں گا"۔ پھر چند ہی ہفتوں بعد انہیں متعدد الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ وہ یہ الیکشن ہار گئے مگر پھر سنہ 1993 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ میں آنے کا فیصلہ محض سیاسی خواہش کا نتیجہ تھا۔ اس سے قبل اپنی اہلیہ کے وزیراعظم ہونے کے دوران زرداری صاحب پردے کے پیچھے حکومت چلا رہے تھے اور اب خود مرکز نگاہ بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے ڈھائی سال جیل میں گزارے اور 200 سے زائد الزامات جن میں اغوا برائے تاوان، بینک فراڈ اور سیاسی مخالفین کے قتل کی سازش تک شامل تھے ان کا سامنا کیا مگر طویل عدالتی کارروائی میں کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا۔ سنہ 1992 میں ضمانت پر رہائی کے بعد ان کا سیاسی ستارہ پھر چمکا۔
پھر وہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد سنہ 1993 میں بننے والی عبوری حکومت میں وفاقی وزیر کے طور پر حلف اٹھا رہے تھے اور حلف لینے والا وہی غلام اسحاق خان تھا جس نے انہیں جیل بھجوایا تھا۔ سنہ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد زرداری صاحب ایک بار پھر اقتدار میں آئے اور اس کے ساتھ ہی تنازعات بھی لوٹ آئے۔ وفاقی وزیر ہونے کے ناطے ان پر دوبارہ بدعنوانی اور سیاسی جوڑ توڑ کے الزامات لگے۔ نومبر سنہ 1996 میں بینظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد پھر گرفتار ہوئے۔ بدعنوانی، اختیارات کے غلط استعمال اور قتل سمیت متعدد الزامات لگے۔ سنہ 2002 میں انہیں پاکستان اسٹیل ملز سے کک بیکس لینے پر سات سال قید کی سزا سنائی گئی، مگر بعد میں عدالتوں نے فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
سنہ 2002 کے انتخابات کے بعد جب حکومتی اتحاد واضح اکثریت نہ پا سکا، تو اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی سے بات چیت شروع کی۔ یہاں تک کہ امین فہیم کو وزیر اعظم بنانے پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی مگر بینظیر صاحبہ کے خلاف مقدمات واپس لینے اور ان کو واپسی کی اجازت نہ دینے پر بات چیت ناکام ہوگئی۔ اسی دوران آئی ایس آئی زرداری صاحب سے مذاکرات کرتی رہی۔ پیشکش یہ تھی کہ بینظیر سیاست سے دور رہیں تو پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کو نائب وزیر اعظم بنایا جائے۔ ظاہر ہے یہ شرط بینظیر کے لیے ناقابل قبول تھی۔ انکار پر پارٹی میں توڑ پھوڑ کرائی گئی اور "پی پی پی پیٹریاٹس" وجود میں آ گئی۔
سنہ 2004 میں زرداری صاحب کی رہائی انصاف کی فتح نہیں بلکہ مصلحت کی سیاست تھی۔ جیل سے رہائی کے بعد زرداری صاحب سیاسی رہنما بن چکے تھے۔ تقریباً 11 سال قید گزارنے کے بعد پارٹی کے اندر انہیں اثاثہ سمجھا جانے لگا۔ پھر این آر او کے تحت مقدمات واپس ہوئے۔ بینظیر کی شہادت کے بعد "پاکستان کھپے" کا نعرہ دے کر انہوں نے غصے کو ٹھنڈا کیا۔ پارٹی سنبھالی اور دسمبر سنہ 2007 میں قیادت سنبھالنے کے بعد انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو سنہ 2008 کے انتخابات میں کامیابی دلائی اور نواز شریف صاحب کے ساتھ مل کر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔
اب یہ حال ہے کہ سندھ کو چھوڑ کے "تیر" اڑ تو رہا ہے مگر اندھیرے میں۔ بات یہ ہے کہ عوامی سیاست اور قربانیوں کا چار عشرے اونچا علم جب کسی وفاق پرست جماعت کے ہاتھ سے صرف اس لیے گر جائے کہ اپنی ہی تاریخ اور مذاج سے نابلد پارٹی قیادت نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا دیے ہوں تو بظاہر کچھ بھی نہیں ہوتا مگر ایک پورا مکتبِ فکر ڈھے جاتا ہے۔ مگر چلو اقتدار کی راہداری تو مفاہمت کے نام پر کھُل جاتی ہے ناں۔ یہ بھی ایک آرٹ ہے۔
روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ اہلیان وطن کو اٹھارہویں آئینی ترمیم دینے والے آئین پاکستان کے سیاسی وارث دو بار کے صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب میں الگ بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں۔ وللہ، میں نے کبھی ان کو اداس، نراش یا منہ لٹکائے نہیں دیکھا۔ "معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے" جیسا سنہرا جملہ کہتے وقت بھی ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور گڑھی خدا بخش میں اسٹیبلشمنٹ کو للکار کر "ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے" بولتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔ مفاہمت کے بے تاج بادشاہ ایسے کہ مسکرا کر گجرات کے چوہدریوں کو گلے لگا لیں اور ہنستے ہنستے حکومت کا حصہ بنا لیں۔
ہنس ہنس کر وہ تیس سالوں سے سندھ میں حکومت کر رہے ہیں اور سندھ واسی بھی ہنس ہنس کر انہیں حکومت دے رہے ہیں۔ اندرونِ سندھ کی پسماندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے درمیان بہت سے الف لیلائی قصبے بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی پسماندہ سندھ میں ایسے بھی علاقے ہیں جن کے موازنے میں صومالیہ بھی فرانس لگے ہے۔ یقین نہ آئے تو ضلع دادو، عمرکوٹ اور تھر پارکر وغیرہ کے اندرون دیکھ لیجیے جہاں پینے کا صاف پانی ایک مقامی دیہاتی آج بھی حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ مگر سب کچھ زرداری صاحب کی ایک مسکراہٹ پر قربان۔
بینظیر کی شہادت کے بعد زرداری صاحب نے بروقت سوچ لیا تھا کہ زیادہ ہچر مچر نہیں کرنے کا۔ پنگا نہیں لینے کا۔ سیدھا چلنے کا۔ یس باس کرنے کا۔ چنانچہ مقتدرہ نے بھی ہنس کے گلے لگایا اور آج وہ پھر سے ہنستے مسکراتے صدر پاکستان ہیں۔ کیپٹن صفدر اور زرداری صاحب میں ایک قدر مشترک ہے۔ دونوں بڑے سیاسی گھرانوں کے داماد ہیں۔ البتہ زرداری صاحب کے مقدر میں جہیز میں سالم پارٹی آ گئی اور کیپٹن صفدر کے مقدر میں صرف دامادی آئی۔

