Zero Tolerance Policy Ke Faide Social Media Ke Liye
زیرو ٹالرنس پالیسی کے فائدے سوشل میڈیا کے لیے
امریکہ میں انیس سو بیاسی میں سکولوں میں تشدد کے واقعات بڑھنے لگے تو جرائم کی نفسیات کے ماہرین جیمز ولسن اور جارج کیلنگ نے پہلی مرتبہ زیرو ٹالرنس پالیسی (یعنی کسی چیز کو برداشت کرنے کی لمٹ صفر) کو متعارف کروایا۔
زیرو ٹالرنس پالیسی کی فلاسفی یہ تھی کہ بعض چھوٹے چھوٹے معاملات کو برداشت کرنے سے وہ اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات کو "نپ دا ایول ان دا بڈ" کے مطابق برائی کو جڑ سے نکلتے ہی ختم کر دینا چاہئیے۔
سوشل میڈیا پر آئے روز ہم شکایات کرتے سنتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں نے بلاک کر دیا۔ یا ہم نے فلاں کو بلاک کر دیا۔ فلاں نے میری ٹرولنگ کی۔۔ فلاں نے میرے خلاف پوسٹ لگا دی۔۔ فلاں کو میں کیا سمجھا وہ کیا نکلا۔۔ سوال کرنے کی آڑ میں بدتمیزی کرنے والے خود کو مظلوم سمجھ کر کہہ رہے ہوتے ہیں، فلاں بڑا چھوٹا آدمی نکلا۔۔ وہ "چھوٹا آدمی" ان "بڑے سوال پوچھنے والے احمقان" سے نکو نک ہوا ہوتا ہے۔۔
یہ چند مثالیں ہیں کہ ہم سوشل میڈیا سے تنگ آ جاتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ضائع کرتا ہے اور الٹا ٹینشن دینا ہے۔
حقیقت میں آپ کو زیرو ٹالرنس پالیسی سوشل میڈیا پر بہت کام دے سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر آپ نے جو کام کرنا ہے پہلے اس کو سمجھ لیجیے۔ اچھے طریقے سے۔ یعنی آپ آنلائن سیلنگ کرنا چاہتے ہیں۔ مارکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں۔ سوشل یا پولیٹیکل ایکٹوسٹ بننا چاہتے ہیں۔ کسی شعبے کے ماہر ہیں اور اپنی خدمات کے بارے میں بوسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اب اس کے مطابق اپنی زیرو ٹالرنس پالیسی بنائیے۔ اور ایسے تمام رویے نوٹ کیجیے، جو آگے چل کر آپ کے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ اور جو بھی آپ کی وال پر ایسے رویے کی ابتدا کرتا پایا جائے اس کو بلاک کر دیجیے۔
آپ کو شائد یہ عجیب لگے، مگر بلاک کرنا، سوشل میڈیا کی گالی نہیں ایک ٹول ہے۔ پاکستان میں لوگوں نے اس کو خواہ مخواہ جھگڑے کی بنیاد بنا لیا ہے۔ یا پھر اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ آپ نے کسی کو بلاک کیا یا اس میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں کہ کسی نے آپ کو بلاک کیا۔
سوشل میڈیا پر بلاک کر مطلب یہ ہے کہ آپ ایک مخصوص رویے، شخص، گروپ، پیج، کاروبار، یا آرگنائزیشن سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ شخص یا گروپ آپ کے سکون میں مداخلت نہ کرے۔ اور آپ اپنی آڈئنس سے اچھے سے انگیج ہو سکیں۔ اور خواہ مخواہ کی بحثوں سے اپنا وقت بچا سکیں۔
حال ہی میں، میں نے اپنی وال پر یہ پالیسی شروع کی ہے۔ لیکن اس کو شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنی وال کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اپنا کانٹینٹ صرف پڑھنے اور سیکھنے والوں کے لیے مخصوص کرنا چاہئیے۔ کیونکہ میں مناظروں، بحثوں، یا سیاسی بحثوں کے لیے نہیں لکھتا۔
سیاست پر لکھنا حالیہ انکشافات کے بعد بند کردیا ہے۔ **
اب بعض لوگوں کو اعتراض بھی ہوگا اس پالیسی پر۔ مگر جیسا میں نے کہا، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اپنی سوشل میڈیا پر موجودگی کا ٹارگٹ کیا سیٹ کرنا ہے اور اس کے مطابق اپنی زیرو ٹالرنس پالیسی میں کیا نکات رکھنے ہیں۔
چونکہ میری وال صرف ریڈرز کے لیے ہے۔ اس لیے اس وال پر اب میں کسی ماہر علم و فن، مناظر، بحث کرنے والے، یا میرے جیسے کسی اور لکھاری کی ایسی بحث کو برداشت نہیں کرتا جو موضوع اور قارئین کے درمیان کنفیوژن پیدا کرے۔ مناظرے یا ٹرولنگ کی کیفیت پیدا کرے۔ یا پھر بحث برائے بحث کا تاثر دے۔
زیرو ٹالرنس پالیسی میں حال ہی میں میں نے ان انفلوئنسرز کو بھی شامل کر لیا ہے جن کے فالورز پانچ ہزار سے دس ہزار کے قریب ہیں۔۔ اور وہ میری وال پر بحث کے لیے پہلا جملہ لکھتے ہیں۔ کیونکہ برسوں کے تجربے نے مجھے بتایا ہے کہ ایسے لوگ ایک مخصوص ذہنی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ اور ان سے بچنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ یہ اپنی فالونگ کے لیے جذباتی ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انکو پذیرائی کا نیا نیا خمار چڑھا ہوتا ہے۔ ایسے میں ان سے بچنا ہی عافیت ہے۔
ذاتی اٹیک زیرو ٹالرنس پالیسی کا ایسا نکتہ ہے جو میں آپ سب کو بھی صلاح دوں گا کہ اپنی پالیسی میں اس کو ضرور رکھیں۔ جو شخص ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی آپ کے کام، تحریر، خدمات، پروڈکٹ کی بجائے آپ کی ذات کو ڈسکس کرنے لگے۔ اس کو بھی فوری بلاک کرکے سکون حاصل کیجیے۔
امید ہے آپ اپنی پالیسی خود بہتر طریقے سے بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو میرے ان نکات سے اختلاف ہے تو خاموشی سے مجھے بھی بلاک کیجیے۔ اور سکون حاصل کیجیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ مہان ہیں، اور آپ کی وال سب کے لیے کھلی ہے۔ تب بھی یہ آپ کی پالیسی ہے، میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ میری یہ تحریر ان کے لیے ہے جن کو ایسے رویوں کا سامنا ہے اور انکی طبعیت پر بوجھ پڑھتا ہے۔