Professional Jealousy
پروفیشنل جیلسی
مغرب کی تقلید کو ہم نے ہمیشہ فریضہ اول سمجھا ہے۔ اس کا لباس، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، رومانس اور گالیاں یہاں تک کہ پوری مغربی تہذیب کو ہم نے اپنے نرم اذہان میں جگہ دے رکھی ہے۔ انگریز نے نو آبادیات کا جو بیج بویا تھا ہم آج بھی اسے پانی دے رہے ہیں۔
اس کے بچھائے ہوئے جال میں ہم نے خود کو اپنے ہاتھوں سے دھکیلا ہے۔ رہن سہن کے طریقے اپنائے، اس کی تعلیمی پالیسیاں اپنائیں، اس کا ادب اپنی زندگیوں میں داخل کیا لیکن کچھ اصطلاحات ایسی ہیں کہ جو ہم چاہتے ہوئے بھی اپنا نہیں سکے۔ مغرب اخلاقیات کے معاملے میں درست سمت میں چلتا ہے اور لفظی ہیر پھیر کو گناہ کبیرہ تصور کرتا ہے۔
انگریز کے نزدیک پروفیشنل جیلسی ایک مثبت چیز ہے جبکہ ہم اس معاملے میں اس کا تتبع کرنے میں بالکل ناکام ٹھہرے ہیں۔ انگریز اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پروفیشنل جیلسی کے سبب مقابلے کی فضاء قائم ہوتی ہے۔ ایک فرد ہمیشہ دوسرے فرد کے نمایاں پہلوؤں کو دیکھ کر رشک کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے یا پھر اس سے کچھ قدم آگے نکل جانا چاہتا ہے۔
اس سارے عمل کے دوران وہ فرد مخالف کے بارے میں منفی جذبات پیدا نہیں ہونے دیتا اور نہ ہی اس سے سب کچھ چھین لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اس کے الٹ ہے۔ کوئی حیثیت میں ہم سے تھوڑا آگے نکل جائے سہی اس کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں۔ کوئی کسی عہدے پر پہنچ جائے تو بجائے اس کے کہ اسے سپورٹ کریں ہم اس کی راہ میں کانٹے بکھیرنے میں مصروف ہو جائیں گے۔
ہم کسی کو کھاتا پیتا دیکھ کر اس کی آنتیں نکالنے تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں سے تھوڑا بھی نمایاں ہو جائیں تو وہ بیچارے حسد کی آگ میں کود پڑتے ہیں۔ حسد، بغض، کینہ، غصہ، عداوت اور نفرت ہم ختم نہیں ہونے دیتے بلکہ انہیں دودھ اور ملائی سے پالتے ہیں کہ ان ساری چیزوں کا وجود قوی ہیکل بن جائے۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہےکہ ہم انہی دوستوں اور یاروں کی محافل میں بیٹھنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی جان کے قیمتی ہونے کا احساس کھانے لگ جاتا ہے۔ کوئی ادارہ، کوئی عدالت اور کچہری، کوئی سکول اور کالج اس ناسور سے خالی نہیں ہے۔ آپ کو ہر جگہ، ہر کرسی پر بیٹھا ہوا شخص نیک پارسا، دیانتدار، مخلص اور دین دار نظر آئے گا لیکن یقینی طور پر آپ اس کا دوسرا رخ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کی شرح کا اندازہ اس ملک کے ٹریفک کے نظام اور تعلیمی صورتحال کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیاں ہر ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن ہماری یونیورسٹیوں میں کلیدی کردار کوئی اور ہی نبھا رہا ہوتا ہے۔ لاکھوں روپے لگا کر ڈاکٹر بننے والے افراد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا تہیہ کیے رکھتے ہیں۔
ایک اگر دوسرے کی نسبت تھوڑا جلدی پرموٹ ہو جائے، ایک اگر دوسرے کی نسبت پہلے صدر شعبہ یا ڈین بن جائے تو دوسرے کی غیرت راتوں رات یوں جاگتی ہے کہ پہلے کی عزت کا جنازہ نکالنے پر تل جاتا ہے۔ اس کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اس کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ چغلی، بغض اور حسد انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ جو کبھی اچھے کلاس فیلوز تھے آج ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔ اس ساری جنگ میں نقصان تو ان بچوں کا ہو رہا ہوتا ہے جنہوں نے بڑی مشکل سے فیسیں بھری ہوتی ہیں۔
اساتذہ تو ایک طرف رہ گئے جج اور وکیل بھی ایک دوسرے کے لیے نفرت کے جذبات پالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انصاف کی ٹانگیں تو کانپیں گی۔ راقم کو فی الحال کوئی ایسا ادارہ نظر نہیں آیا جہاں سبھی لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں یا ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہوں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ شاعر اور ادیب بھی پروفیشنل جیلسی کا اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکے۔
جب دل چاہے اگلے بندے کی ہجو لکھ چھوڑی یا ایک مزاحمتی مضمون میں اپنے دل کا غبار نکال لیا۔ سر سید ٹھیک ہی تڑپتے رہے کہ ہمیں انگریزی سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم انگریزی کے لفظی معنی و مفہوم تک ہی محدود ہیں۔ اصطلاح سے ہمارا کیا لینا دینا ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کسی لفظ کے اصطلاحی معنی و مطالب سے۔ ہم تو اپنے فائدے کے معنی اور مفہوم اخذ کریں گے بلکہ ضرورت کے وقت نئی اصطلاحات بھی گھڑ لیں گے۔
بس کسی طرح ہمارا مطلب پورا ہونا چاہیئے۔ مادیت پرستی کے اٹھتے ہوئے دھوئیں ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہے ہیں۔ وجود رکھنے والی چیزوں کی ہماری نظر میں بہت قدر و منزلت ہے اور اخلاقیات سے عاری ہونا ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہ ہے۔ سردست اتنا ہی کہوں گا کہ ہمیں نفسیاتی عارضے لاحق ہو چکے ہیں۔ دوسرے لوگوں کا آگے بڑھنے کا خوف ہماری ذات کا ایک مستقل حصہ بن چکا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں اور کوئی حقیر و ناچیز ہم سے آگے نہ نکل جائے۔ صبر و شکر اور قناعت پسندی کی طرف ہمارا طبعی رجحان مٹتا جا رہا ہے۔
ادب سے تعلق رکھنے والے حلقے کی نفسیاتی الجھنیں کچھ اور طرح کی ہیں۔ کسی کی شہرت اور پہچان کی لو اونچی ہونے کے دوران اگر کوئی نیا ادیب اپنا دیا جلانے میں کامیاب ہو جائے تو ہمیں دو آنکھیں نہیں بھاتا۔ ہم ہاتھ دھو کے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرنے اور اس کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ہمارے لیے تسکین اور راحت کے کئی پہلو نکل آتے ہیں۔ اپنی کم علمی اور زنگ آلود لیاقت کو چھپانے کے لیے ہم دوسرے شخص کا پوسٹ مارٹم کرنے لگ جاتے ہیں۔
عزت اور ذلت تو خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ رزق اور شہرت بھی اس خدا نے اپنی دسترس میں رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے حصے کا رزق، شہرت، پہچان اور عزت آپ کو آپ کے مقرر وقت پر مل جاتا ہے لیکن اس مقرر وقت تک آپ کو صبر کرنا پڑتا ہے۔ رزق اور شہرت یا کامیابی کے لیے کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں ہے۔ ہر چیز کو اپنے پراسس سے گزرنا ہوتا ہے۔ جوہمارے پاس ہے ہماری نظر صرف اسی پر ہونی چاہیئے اور اس میں بڑھوتری کے لیے ہر وقت حالت دعا میں رہنا چاہیئے۔
دل میں یہ جذبہ کبھی بھی پیدا نہ ہونے دیں کہ جو کچھ دوسروں کے پاس ہے وہ ان سے چھن جائے یا وہ اس سے محروم ہو جائیں۔ جو جس جگہ اور مقام پر ہے اسے اسی حالت میں قبول کر لیں۔ آپ نہیں جانتے وہ یہاں کتنی کوششوں کے بعد پہنچا ہے۔ کوشش تو آپ کے ہاتھ میں بھی ہے آپ بھی کوشش کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو انسان کو وہی کچھ عطاء کرتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔