Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Column, Idariya Navis Aur Editor Ke Osaf

Column, Idariya Navis Aur Editor Ke Osaf

کالم، اداریہ نویس اور ایڈیٹر کے اوصاف

بنیادی طور پر یہ تینوں اشخاص ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ذمہ داریوں کے لحاظ سے ایک معمولی تفاوت رکھتے ہیں۔ اگر اس معمولی تفاوت کو ہٹا کر دیکھا جائے تو ان تینوں افراد میں ایک گہرا صحافتی ربط بھی موجود ہے۔ اسی ربط کی بناء پر ان کے فرائض، ذمہ داریاں اور اوصاف تقریباً ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ مجموعی طور پر اگر ان کے اوصاف پر بات کی جائے تو کئی ایک خوبیاں ایسی ہیں جو ان تینوں کی شخصیت کے اندر لازمی طور پر ہونی چاہئیں۔

کسی کالم نگار، اداریہ نویس یا ایڈیٹر کے اندر سب سے پہلا وصف اس کا "وسیع مطالعہ" ہے۔ مطالعہ کے سبب ہی آپ کے پاس ایک وسیع ذخیرہ الفاظ جمع ہو سکتا ہے جو آپ کو لکھنے میں مدد دیتا ہے۔ مطالعہ کے بغیر ایک بے ربط اور بے مزہ تحریر ہی لکھی جا سکتی ہے اس لیے بے حد ضروری ہے کہ اپنے آپ کو مطالعہ کی طرف لے کر جایا جائے تاکہ آپ کی تحریروں میں ربط بھی ہو اور چاشنی بھی۔ ایک ایسا تسلسل بھی ہو جو کسی قاری کو اکتاہٹ سے بچائے اور آپ کے اسلوب کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھے۔

دوسرا وصف یا خوبی "زیادہ اور مسلسل کام کرنے کی عادت ہے"۔ ان تینوں اشخاص پر بھاری ذمہ داریاں اور بے پایاں بوجھ ہوتا ہے۔ صحافتی زندگی میں اگر محنت اور تسلسل کے ساتھ کام کیا جائے تو تھکاوٹ ایک قدرتی امر ہے۔ ان افراد کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ انہیں دن رات ایک کرنا پڑتا ہے تب جا کر ایک تحقیقی کام منظر عام پر آتا ہے۔ یہی تحقیقی کام آپ کی ذات کو ایک خاص اسلوب اور پہچان عطاء کرتا ہے اس لیے آپ کے اندر زیادہ اور مسلسل کام کرنے کی عادت موجود ہونی چاہئیے تاکہ آپ تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں۔

تیسری خوبی یا وصف کسی بھی لکھاری کا "مضبوط مشاہدہ" ہے۔ مشاہدہ جتنا مضبوط ہوتا ہے تحریر اتنی ہی حقیقی اور جاندار معلوم پڑتی ہے۔ اردگرد کے ماحول پر نظر رکھی جائے تو کئی حالات و واقعات کھل کر آپ کے سامنے آتے ہیں اور ان کا اصلی رنگ اور صورت تحریر کے اندر بھی واضح دکھائی دینے لگ جاتی ہے۔ یہ تینوں اشخاص ہی ایسے ہیں کہ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول پر چوبیس گھنٹے نظر رکھنی پڑتی ہے۔

"صحافتی اصولوں سے واقفیت" ایک ایسا وصف ہے جس کے بغیر کالم نگار، اداریہ نویس اور ایڈیٹر کو کام کرنے میں کئی ایک دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ایک صحافی کی حدود، فرائض اور کام کیا ہے۔ اسے کس طرح کی خبروں اور معلومات کو تحریر میں شامل کرنا چاہئیے اور کن امور کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔ "ملکی قانون کی پاسداری" بھی ان تینوں افراد پر واجب ہے۔

اگر ان کی تحریروں میں کوئی ایسی چیز ہو جو ملکی قانون سے متصادم ہو تو پھر ایسی صورت حال میں ان کے لیے کئی ایک قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا قانون کی الف، ب سے واقفیت بےحد ضروری ہے اور اس طرح کے تصادم اور ٹکراؤ سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔ "اخلاقی اقدار" جیسا وصف یا خوبی بھی ان کے اندر لازمی طور پر موجود ہونی چاہیے۔ وہ کوئی ایسی خبر تحریر میں شامل نہ کریں جو معاشرے کے لیے اخلاقی گراوٹ کا کام کرے۔

ایک بہت بڑا وصف یہ بھی ہے کہ ان اشخاص میں"قوت فیصلہ" موجود ہونی چاہئیے کیوں کہ ان کا کام ہی اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ انہیں اچانک فیصلہ لینا پڑتا ہے کہ کس چیز کو شامل کرنا ہے اور کس خبر کو شامل نہیں کرنا۔ اس لیے موقع پر فیصلہ کرنے کی قوت ان تینوں کے لیے بے حد ضروری عنصر ہے۔ کسی خبر یا نئی بات کو اپنی تحریر میں شامل کرنے کا فیصلہ ان کا ذاتی ہونا بہت ضروری ہے بجائے اس کے کہ وہ اس معاملے میں کسی کی ڈکٹیشن حاصل کریں۔

ایک خوبی "زبان و بیان پر عبور" بھی ہے، زبان و بیان پر عبور ہوگا تو وہ بہتر انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کر پائیں گے۔ زبان و بیان پر عبور ہوگا تو تحریر میں لفاظی اور رنگ بھی دیکھنے کو ملیں گے ورنہ ایک بےذائقہ اور بےلذت تحریر وجود میں آئے گی۔ "تحقیقی انداز" ایک بہت بڑی خوبی ہے، کوئی خبر یا نئی بات اگر سامنے آتی ہے تو ان کا فرض بنتا ہے کہ اس کی اچھی طرح چھان بین کر لیں کہ فلاں خبر میں کس حد تک صداقت ہے ورنہ بعد میں پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے۔

تحقیقی انداز آپ کو بہت جلد مایہ ناز لکھاریوں کی فہرست میں شامل کر سکتا ہے اس لیے اپنی شخصیت میں تحقیق کے جراثیم پیدا کریں۔ "راہنمائی کا جذبہ" ایک ایسی خوبی ہے جو ہر ایک کے اندر ہمہ وقت موجود ہونی چاہئیے۔ ایڈیٹر، کالم نویس اور اداریہ نگار کے اندر بھی رہنمائی کا جذبہ پایا جانا بہت ضروری ہے۔ وہ اس انداز اور ضرورت کے تحت لکھے کہ اس کی تحریر میں لوگوں کے لیے راہنمائی پائی جاتی ہو اور لوگ اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔

"فنی مہارتوں کو استعمال میں لانا" بھی کسی وصف سے کم نہیں۔ اداریہ، کالم یا کوئی تحریر لکھتے وقت اس کے فنی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئیے۔ ایک عام تحریر اور طرح کی ہوتی ہے، مضمون اور کالم یا اداریے میں کافی فرق پایا جاتا ہے لہٰذا نوعیت کے لحاظ سے ہر ایک تحریر میں مطلوبہ فنی لوازمات کو استعمال میں لایا جائے۔ انہیں چاہئیے کہ یہ "بین الاقوامی منظر نامے پر بھی گہری نظر رکھیں" تاکہ یہ ہر نئی بات سے باخبر رہ سکیں۔

اس کے علاوہ "تاریخ کے ساتھ گہری دلچسپی" ہونی چاہئیے تاکہ بوقت ضرورت تاریخی جملوں کا استعمال کر کے تحریر کو خوبصورت اور مدلل بنایا جا سکے۔ "مختلف علوم سے واقفیت اور ان کا مطالعہ" کسی بھی انسان کے نالج میں اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہیں اس لیے انہیں چاہئیے کہ یہ اپنی مخصوص دلچسپی سے ہٹ کر دیگر علوم پر بھی نظر رکھیں۔ "موجودہ صورت حال سے واقفیت" اور اس پر گہری نظر آپ کو تمام امور کو سمجھنے اور جاننے کے قابل بناتی ہے۔

"ملکی سیاسی ہلچل" پر بھی عقابی نظر رکھنی چاہئیے تاکہ آپ کے اندر سیاسی خیالات و نظریات کو جانچنے اور پرکھنے کی عادت پیدا ہو اور آپ ان کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ کالم نویس، اداریہ نگار اور ایڈیٹر کے بےشمار اوصاف اور خوبیاں ہیں لیکن یہ وہ مہارتیں تھیں جن کا ہونا بےحد ضروری ہے۔ مذکورہ بالا اوصاف کے بغیر ان تینوں کی شخصیت مکمل نہیں ہو سکتی۔ دیگر اوصاف میں"غیر جانبدار رویہ"، "طبیعت میں ٹھہراؤ" یعنی عجلت پسندی سے اجتناب۔

"عجز و انکسار"، "متجسس طبیعت"، "روانی اور تسلسل"، "فیصلوں میں لچک"، "رائے عامہ کی تشکیل"، "اصلاح معاشرہ"، "مثبت سوچ کو پروان چڑھانا"، "تنقیدی سوچ"، "منطقی انداز"، "نظریات سازی"، "جذبہ حُب الوطنی"، "حق اور سچ کا متلاشی"، "وسیع النظر"، "حقیقت نگاری"، "برداشت"، "صبر و تحمل اور استقلال" کے علاوہ فصاحت اور بلاغت شامل ہیں۔ یہ ساری خوبیاں کسی شخصیت کا حصہ ہوں تو ایک مستند کالم نگار، اداریہ نویس اور ایڈیٹر بنا جا سکتا ہے۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed