Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Kharal
  4. Zalim Ya Mazloom

Zalim Ya Mazloom

ظالم یا مظلوم

چند روز ہوتے ہیں کہ ہمارا تبادلہ شہر صد چراغ ملتان سے لاھور ہوگیا ہے۔ چونکہ ملازم کی کھال موٹی ہوتی ہے اس لیے لاھور کو کوچ کر گئے۔ لیکن دل اور گھر ملتان میں ہی چھوڑ آئے۔ ویسے ہم ملتانیوں کو یہ پرانی بیماری ہے کہ ہم ملتان ریلوے اسٹیشن سے نکل کر ابھی خانیوال بھی نہیں پہنچتے، تو ہمارے دل سے آواز آنے لگتی ہے "پردیسی تھی گئے ہاں"۔

اس بیماری نے نہ جانے کتنے قابل قدر ملتانیوں کو نگل لیا ہے۔ ایسے عظیم لوگ جو اوج ثریا کو چھو لینے کی اہلیت رکھتے تھے صرف اس بیماری کی وجہ سے بے نام و نشان رہ گئے یا وہ بلندی اور ترقی نہ پا سکے جس کے وہ اہل تھے۔ صرف ایک قلیل تعداد میں لوگ اس بیماری کا علاج کروا کر ملتان سے نکل گئے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں کوہساروں کے فراز تک پہنچے۔

خیر ہم بات کر رھے تھے ملتان سے نکلنے کی، تو خدا کا شکر ہے کہ ہم ملتان سے حضرت غالب کی طرح تو نہ نکلے مگر ہمارا دکھ حضرت آدم سے کم نہیں ہے۔ اسی دکھ کی دوا کے لیے ہم ہر دوسرے تیسرے ہفتے چھٹی کے دن ملتان کا چکر لگا آتے ھیں۔ خانقاہوں کی زیارت سے زیادہ تسکین دوستوں کی زیارت میں ملتی ہے۔ اپنی ماں بولی سُن اور بول کر یک گونہ راحت جاں ہوتی ہے۔ ملتان کی وہ گرد اڑاتی گرم ہوا جس سے غیر ملتانی پناہ مانگتے ھیں، ہمیں صباء باغ بہشت لگتی ہے۔ بقول حضرت حافظ شیرازی

در خرابات مغاں نور خدا می بینم

سو صاحبو! اب کی بار جو ہم ملتان کے لیے روانہ ہوئے تو ایک پروگرام ترتیب دیا کہ فلاں کام کرنا ہے اُس دوست سے تعزیت کرنی ہے اس دوست کو مبارک دینی ہے۔ یہی پروگرام ترتیب دیتے ہوئے جب ہم ملتان اپنے گھر پہنچے اور ابھی گاڑی سے اتر کر تالہ کھولنے کا ارادہ کر ہی رھے تھے کہ ہمارے گھر کی سامنے والی دیوار سے ایک بوری اچھل کر باہر آ گری۔ ابھی ہم حیرت زدہ ہو کر بوری کو دیکھ ہی رہے تھے ایک صاحب بھی کمال مہارت سے دیوار پھلانگ کر باہر تشریف لے آئے۔

دن دھاڑے ایک شخص کو اپنے گھر کی دیوار پھلانگتے دیکھ کر جتنی حیرت مجھے ہو رھی تھی اس سے زیادہ حیرت مجھے وہاں موجود پا کر اس شریف آدمی کی آنکھوں میں تھی۔ محلے کے چند لڑکوں نے اس شخص کو دبوچ لیا اور ہم گھر کے اُس تالے کو کھولنے لگے جس کو ہم اپنے گھر کا امین بنا کر گئے تھے۔ گھر کا تالہ کھولتے ہوئے ہم سوچ رھے تھے کہ بچارے چور بھائی کو ہمارے گھر تشریف لا کر خاصی مایوسی ہوئی ہوگی۔ کیونکہ فقیروں کے گھر میں"چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط" کے سوا دھرا ہی کیا ہے۔ لیکن جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو عجیب منظر دیکھا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ گھر کے پانی کے تمام نل بڑی بے دردی سے توڑ کر نکال لیے گئے ھیں۔ جس کی وجہ سے پانی غسل خانوں سے نکل کر گھر کے نہاں خانوں تک پہنچ گیا ہے۔ اسی عالم میں خیال چور بھائی کی گھر سے باہر اچھالی ہوئی بوری کی طرف گیا۔ اسکو کھولا تو اس میں ٹونٹیاں تو موجود تھیں مگر کھول کر نکالی ہوئی نہیں بلکہ ٹوٹی ہوئی جو اب کسی کام کی نہ تھیں۔

اتنی دیر میں گھر کے باہر محلے داروں کی بھیڑ جمع ہوگئی اور وہ سب عالم کون و مکاں میں اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کا حساب اُس چور صاحب سے چکانا چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے ہم چور صاحب کو اُن سے بچا کر گھر کے اندر لے آئے۔ ہر چند کہ ہمیں چور صاحب پر بہت غصہ تھا مگر ہم اس سے مار پیٹ نہ کر سکے۔ اس کی وجہ اصل میں تو ہماری پیدائشی بزدلی ہے ویسے اگر آپ اسکو رحمدلی کہہ لیں تو بھی چلے گا۔ ویسے چور بھائی کو سبق سکھانے کے لیے ہم نے تھانے فون کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس کے چند جوان آئے۔

میں نے اُن سے گزارش کی کہ میں کوئی مقدمے بازی نہیں کرنا چاھتا۔ پر اسکو تھانے لے جا کر ذرا ڈرا دیں تاکہ آئندہ کسی کے گھر بغیر اجازت جانے سے پرہیز کرے۔ پولیس والوں نے مجھ سے صرف ایک سوال پوچھا کہ آپ کے گھر میں کوئی کیمرے تو نہیں لگے۔ میرا جواب نفی میں پا کر وہ چور بھائی کو گھر کے ایک کونے میں لے گئے اور گھونسوں لاتوں اور ڈنڈوں سے اسکی تواضع شروع کر دی۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ ظلم ہوتا دیکھ کر ایک کمینی سے خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ جب پولیس والے تھک گئے تو انہوں نے میرے گھر دوبارہ نہ آنے کا وعدہ لے کر چور بھائی کو تشریف لے جانے کی اجازت دے دی۔

جب یہ تماشہ ختم ہوا تو گھر کی طرف توجہ دی۔ جہاں نہ بیٹھنے کی جگہ تھی نہ سونے کی۔ پلمبر کو بلوایا اور نل دکھائے اس نے بتایا کہ پرانے نل بیکار ہو گئے ھیں اور سب نئے لگیں گے۔

اگلے دو دن پلمبروں اور خاکروبوں کے ساتھ گزار کر واپس لوٹ آیا ہوں۔ نہ کسی حریف جاں کو دیکھا نہ کسی شریک غم سے ملے۔ اس پر ظلم یہ کہ اس گرانی کے زمانے میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا ٹیکہ لگ گیا۔ اب سوچ رھا ہوں کہ چور بھائی کے ساتھ ظلم ہوا ہے یا میرے ساتھ۔ آپ ہی بتائیں میں ظالم ہوں یا مظلوم۔۔

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza