Qissa Aik Crore Ke Karobar Ka
قصہ ایک کروڑوں کے کاروبار کا
مانسہرہ میں کسی جگہ تقریب میں شریک تھے کہ میزبان نے بتایا کوئی مقامی خاتون ملاقات کی خواہشمند ہے ہم نے آفس میں بٹھایا ہے۔ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کا خوشحالی کی دستک کا ایک مضمون پڑھا ہے اور اس پر عمل درآمد کا ارادہ ہے۔ ہم نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کرلیا۔
وہ مضمون تھا۔ "گھونگھے کروڑوں کے" ان خاتون کا نام ہے سدرہ سجاد۔ سدرہ سجاد صاحبہ کا تعلق مانسہرہ سے کچھ فاصلے پر وادی سرن میں واقع ایک گاؤں سے ہے اور وہ پہلے سے خوبصورتی بڑھانے والی مصنوعات پر کام کررہی تھیں۔ (یاد رہے کہ یہ وہی سدرہ سجاد صاحبہ ہیں جن کا پروگرام آپ نے پچھلے دنوں بی بی سی پر دیکھا ہے) انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی گھونگھے پائے جاتے ہیں اور انہوں نے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی جگہ مخصوص کرکے اس میں سینکڑوں گھونگھے جمع بھی کر رکھے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان سے سنیل سلائم کیسے حاصل کیا جائے۔
ہم نے سب سے پہلے کچھ گھونگھے اٹھائے اور جامعہ پنجاب کے زولوجی ڈیپارٹمنٹ چلے گئے۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے حضور مدعا پیش گھونگھے دیے۔ وہ کہتے کہ یہاں موسم ان کے لیے سازگار نہیں آپ ہمیں ڈیپارٹمنٹ کے لان میں ایک انوائیرمنٹ کنٹرول شیڈ بنا کر دیں جن میں ان کو رکھا جاسکے تب ہی اس پر کام ہوسکے گا۔ وہ شیڈ خاصہ مہنگا بنتا تھا اور وسائل محدود تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ لیب کے اندر فی الحال آپ کو ایک چھوٹا ٹمپریچر کنٹرول پنجرہ سا بنا دیتے ہیں، لیکن وہ آمادہ نہیں ہوئے۔ بہر حال انہوں نے گھونگھے رکھ لیے اور کچھ مدد کا وعدہ کیا۔
چند روز بعد ہم نے رابطہ کیا تو فرمایا کہ وہ تو سب مرمرا گئے جب تک شیڈ نہیں بن جاتا اس پر کام ممکن نہیں۔
اسی دوران ہم سلائم کے حصول کے لیے کچھ بنیادی قسم کا مواد اور بعد ازاں کچھ ریسرچ پیپرز کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ افریقہ میں بہت سے لوگ گھونگھوں کو تکلیف پہنچانے والا ایک کیمیائی مرکب پانی میں حل کرکے ان پر سپرے کرتے ہیں جس سے وہ سنیل خارج کردیتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ طریقہ غیر انسانی لگا۔ اس کے بعد ہم نے جانا کہ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کا پتلا سا محلول بھی اس کام کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن سب سے بہتر نتائج اوزون گیس چیمبر میں رکھنے سے نکلتے ہیں۔
جامعہ پنجاب سے مایوس ہونے کے بعد ہم نے خود ہی تجربات کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی طور پر ہم نے سدرہ سجاد صاحبہ سے کہا کہ آپ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ منگوا کر اپنے آفس میں رکھیں ہم سپرے گن لیکر آتے ہیں۔ جب ہم مانسہرہ میں موجود ان کے دفتر پہنچے تو جان کر حیرت کا جھٹکا لگا کہ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کو انہوں نے فون پر نائیٹرک ایسڈ سمجھا تھا اور ہمارے استقبال کو نائیٹرک ایسڈ یعنی شورے کا تیزاب رکھا تھا۔ یہ بات بتانے کا مقصد ہے کہ کس قدر ابتدائی سطح سے کس قدر کم علم کے ساتھ تجربات کا آغاز کیا گیا تھا۔
بہرحال ہائیڈروجن پر آکسائیڈ منگوائی گئی اور اس کا ایک پتلا سا محلول گھونگھوں سپرے کرنے سے انہوں نے سلائم چھوڑنا شروع کردیا۔ یہ سلائم سے ہمارا پہلا آمنا سامنا تھا۔ اس کے بعد بہت سے تجربات کیے۔ ہم نے اپنی فیکٹری میں کافی غور فکر سے ایک اوزون والی مشین کا ماڈل تیار کیا جس میں دستیاب علم کے مطابق بہت سے فنکشنز تھے۔ اس مشین پر سدرہ سجاد صاحبہ کے گھر میں موجود فارم پر تجربات کیے گئے مگر ان تجربات سے چنداں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور مشین اور اس پر کی گئی ہمارے وقت اور وسائل کی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی۔
گھونگھوں سے سلائم نکالنے کی عالمی معیار کی مشین چھ سے ساتھ لاکھ یورو کی ملتی ہے۔ جامعات کے پاس اربوں کے فنڈز ہوتے ہیں کوئی جامعہ دلچسپی لیکر ایک مشین منگوا لے تو ہم اس کا بہت سستا مقامی ماڈل بنا سکتے ہیں۔
بہر حال پھر یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ سدرہ سجاد صاحبہ نے کافی بڑا فارم بنالیا ہے جس میں بہت سے گھونگھے جمع کرلیے ہیں اور فی الحال بنا مشین کے ہی سلائم نکالا جارہا ہے۔ سلائم نکالنے کے بعد اس جانچنے اور محفوظ کرنے کا مرحلہ تھا اس میں مقامی لیبارٹریوں کی مدد لی گئی۔ اس کام میں بھی ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے۔
پاکستان کے سارے شمالی علاقہ جات میں گھونگھے قدرتی طور پر موجود بھی ہیں اور ان کی افزائش کے لیے موسم اور آب وہوا بھی موافق ہے اور دنیا بھر میں سلائم کی مانگ بھی بہت ہے۔ ہم سنجیدگی اس پر کام کریں اپنے لوگوں کی تربیت کریں اور باقاعدہ فارمنگ کریں تو ہزاروں لوگوں کو برسر روزگار کرنے کے علاوہ کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔
ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے درجنوں آئیڈیاز میں سے ایک پر کام کرتے ہوئے کوئی پاکستانی اپنی لیے اور وطن کے لیے خوشحالی کا باعث بن رہا ہے۔