Qasoorwar Kon?
قصور وار کون؟
سام سنگ نے چین میں اپنا پہلا کارخانہ سال انیس سو بانوے میں ملک کے جنوبی صوبے گوانزو کے شہر وئی جو Hiuzhou میں لگایا۔ شروع میں یہاں سٹیریو سسٹم اور ایم پی تھری پلیرز بنائے جاتے تھے۔ دوہزار سات میں یہاں پہلی بار موبائل فون بنائے جانے لگے۔ اس وقت چین کی موبائل فون کی مقامی منڈی میں نوکیا کی حکومت تھی۔ پانچ سال کے قلیل عرصہ میں سام سنگ نے نوکیا سے یہ شہنشاہی چھین لی۔ سال دوہزار بارہ میں چین کی مقامی مارکیٹ میں سام سنگ پندرہ فیصد حصہ کے ساتھ پہلے نمبر پر آچکا تھا۔ دوہزار گیارہ میں اس فیکٹری میں سات کروڑ فون بنائے گئے۔ یہ استعداد بتدریج بڑھتی ہوئی بارہ کروڑ سالانہ تک جاپہنچی۔
اس فیکٹری کے لگنے کا نتیجہ کیا نکلا۔ سینکڑوں چینی کارخانوں کو خام مال فراہم کرنے کے آڈرز ملے۔ ہزاروں لوگوں کو براہ راست اور اتنے ہی لوگوں کو بالواسطہ روزگار ملا۔ لیکن اب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مقامی لوگوں نے فون بنانے کا ہنر سیکھا۔ گو ہواوے اور اوپو نے سال دوہزار چار سے فون بنانا شروع کر دیے تھے۔ لیکن اس وقت تک ان کے فون کا معیار اور قیمت سام سنگ سے کم تھی۔ اس کے باوجود مقامی طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔ سال دوہزار نو میں ویوو اور سال دوہزار چودہ میں انفینکس اور ریڈ می نے بھی اپنی پیداوار شروع کردی۔
چینیوں نے مقامی برانڈز پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر انکا استعمال شروع کردیا۔ کمپنیوں نے منافع کمایا اور اس منافع سے اپنے معیار کو اور بھی بہتر کرتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سام سنگ کا استعمال کم ہوتا گیا۔ اب چین کی مارکیٹ میں سام سنگ کا حصہ صرف ایک فیصد رہ گیا ہے۔ لہٰذا سام سنگ نے پچھلے سال اکتوبر میں چین میں موبائل فون بنانے کی اپنی آخری فیکٹری بھی بند کردی ہے۔ اب نہ صرف چین کی مقامی مارکیٹ میں بلکہ ساری دنیا میں چینی برانڈز کے فون کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔
یہی بیرونی سرمایہ کاری کی اصل ہے، کہ باہر سے آنے والے نئی ٹیکنالوجی لیکر آتے ہیں۔ مقامی لوگ ان سے یہ نئے ہنر سیکھ کر اپنی مصنوعات بناتے ہیں۔ اور پھر رفتہ رفتہ ان کے مقابل آجاتے ہیں یا ان سے آگے نکل جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات سیکھنے کی ہے۔ کہ مقامی لوگوں کے رویے اپنی مقامی پراڈکٹس کو لیکر کتنے اہم ہیں۔ اب آپ تصور کریں اگر چینی مقامی برانڈز کو اہمیت ہی نہ دیتے، ان کی خریداری نہ کرتے تو کی آج دنیا بھر میں ان کے موبائل فروخت ہورہے ہوتے۔ نہیں نا۔ اسی تناظر میں اگر سام سنگ کے چین میں انحطاط کو دیکھا جائے تو، میری نظر میں یہ سام سنگ کی ناکامی نہیں، چینی صارفین کے حب الوطنی پر مبنی رویہ کی فتح ہے۔
دوسری طرف جب لوگ اس بات پر متفکر ہوتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی برانڈ دنیا میں شہرت نہیں پاسکا تو اسکا جواب یہی بنتا ہے کہ جب ہم خود اپنے برانڈز کو اہمیت نہیں دیں گے، انکی پذیرائی نہیں کرتے تو دنیا کو مصیبت پڑی ہےکہ ہماری اشیاء کو اہمیت دیتی رہے۔
موبائل فون تو پھر بھی بہت جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل مصنوعہ ہے۔ ہم تو صابن، شیمپو اور ٹوتھ پیسٹ تک میں اپنے برانڈز کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ بالیقین ہمارے کئی برانڈز ان مصنوعات میں معیار کے لحاظ سے کثیرالقومی کمپنیوں سے بہتر ہیں اور قیمت میں کم۔ گویا پاکستانی صنعت کے عدم فروغ میں ناکامی صرف حکومتوں کی ہی نہیں ہم صارفین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔