Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Lagan

Lagan

لگن

ارفع کریم کا انٹرویو ریڈیو پر چل رہا تھا۔ میزبان نے سوال کیا کہ گاؤں کے لوگوں کی معاشی حالت تو اس قدر ابتر ہوتی ہے کہ ان کی دو وقت کی روٹی بمشکل تمام پوری ہوتی ہے، اور آپ کہتی ہیں کہ ہر شخص کے پاس کمپیوٹر ہو اور وہ اس میں مہارت حاصل کرکے وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس قدر محدود وسائل والے لوگوں کیلئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کمپیوٹر خرید لیں۔ خدا غریق رحمت فرمائے اس ننھی پری کو۔ اس کا جواب آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔ بولی?

" ہم گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں کمپیوٹر حاصل کرنے کی لگن لگا دیں گے پھر وہ خود ہی کسی نہ کسی طریقے سے کمپیوٹر حاصل کرلیں گے۔"

ہم نے انسانی نفسیات کے اس پہلو پر بہت غور کیا۔ بے شک کسی کی زندگی بدلنے کے لیے اس کے من ہدف کے حصول کی شمع روشن کردی جائے تو یقیناً عمل کی کرنیں ہر سو جگمگ کردیتی ہیں۔ اس کی ایک روزمرہ کی مثال دیکھیں کہ ہرصاحب شوق شخص کے پاس کہ چاہے اس کی آمدن کم ہے یا زیادہ اچھا مہنگا اینڈرائیڈ فون ضرور ہوتا ہے۔ گویا حالات جیسے بھی ہوں آپ جوحاصل کرنا چاہیں کرکے رہتے ہیں۔

میرے خیال میں فی الحال بحیثیت قوم ہماری سب سے زیادہ توجہ اس بات کی طرف ہونی چاہیے کہ ہم کس طرح اپنی قوم کے ہر ہر فرد کو زیادہ سے زیادہ ہنرمند اور ثمرآور انسان بنائیں۔ چین کے ایک عام فیکٹری کاریگر کی اوسط ماہانہ تنخواہ ساٹھ ہزار پاکستانی روپے ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستانی ہنرمند کی اوسط ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار ماہانہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود چینی اشیاء کی پیداواری لاگت ہم سے کم ہوتی ہے۔ اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا ساٹھ ہزار والا کاریگرآٹھ گھنٹے میں اتنی پیداوار کرتا ہے جتنی ہمارے پچیس ہزار والے چار کاریگر بھی نہیں کرپاتے۔

ان کا ہر ہنرمند چاہے وہ فیکٹری میں ہو یا کھیت میں عمارت سازی سے منسلک ہو یا کسی خدمات کے شعبے میں حتی کہ صفائی کرنے والے خاکروب تک نہ صرف اپنا کام پوری دیانتداری سے کرتا ہے بلکہ ہر وقت اپنے کام کی بہتری کے متعلق بھی سوچتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر سال دو سال بعد انکا پیداواری طریقہ پہلے سے بہتر آسان اور سستا ہوا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے بیشتر ہنرمندوں کے رویے محض وقت گذاری کام چوری اورسہل پسندی پر مشتمل ہوتے ہیں نتیجہ نہ خود خوشحال ہوتے ہیں نہ ادارے ترقی کرتے ہیں۔ ان رویوں میں بہتری کی واحد صورت ذہن سازی یا برین واشنگ ہے۔

لوگوں کے دلوں میں کسی مثبت ہدف کی جوت جگانا والدین، اساتذہ، سیاسی اور مذہبی راہنماؤں اور ان قومی ہیروز کے کرنے کا کام ہیں کہ جن کی بات لوگ غور سے سنتے ہیں، جن کی شعوری اور لاشعوری طور پر نقل کرتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ اگر اپنی اس اہم معاشرتی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے بطور خاص پہلے خود راست عملی کا استعارہ بنیں اور پھر اپنے چاہنے والوں اپنے فالورز کے من میں بھی اس تخیل کا بیج بو دیں کہ ہم نے بحیثیت قوم ہر صورت قابل بننا ہے اور خوشحال ہونا ہے۔ تو یقیناً ایک مثبت ماحول بن سکتا ہے۔

لیکن جب تک ماحول نہیں بنتا آئیں ہم تو خود کو قابل بنانے کا عہد کریں۔ ہم ہرصورت روزانہ کی بنیاد نئی چیزیں سیکھیں گے۔ پنا کام پوری دل جمعی سے کریں گے، اپنی قابلیت کو ہر صورت بڑھائیں گے۔ تو کون کون تیار ہے۔۔؟

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad