Tilism e Hoshruba
طلسم ہوشربا
ہم اور ہمارے ہم عمروں نے پہلے فیروز سنز کی چھپی ہوئی اور مقبول جہانگیر کی تلخیص و ترجمہ شدہ "داستان امیر حمزہ" کی دس کتابیں پڑھیں اور پھر، طلسم ہوشربا کی دس کتابیں۔ پہلی داستان میں امیر، عادی کرب دین، لندھور، مقبل وفادار، بزرجمہر، نوشیرواں عادل، بختیار اور عمرو عیار کی دنیا میں رہے اور دوسری میں افراسیاب، حیرت، مہ رخ، بہار، صرصر، برق فرنگی، مہتر قیران، ضرغام، لقا، بختیارک، حجرہ ہفت بلا، بلور چہار دست، طلسم ظاہر، طلسم باطن اور ان کے درمیان دریائے خوں رواں۔
ان سب میں داستان کا ہیرو عمرو عیار۔ سکول کی بڑی کلاسوں میں پہنچے تو بالغوں والی اصل داستانوں سے روشناس ہوئے، یہ بھی اصل داستان کا شعر و نغمہ سے علاوہ ایڈیشن تھے لیکن سراپوں اور حسن کی تصویر، کشی سے بھرپور۔ لیکن اس وقت کی اصل دریافت منشی نول کشور کی چھپی داستان تھی جو کٹی پھٹی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر دستیاب تھی۔ اسی کو پڑھ پڑھ کر فردوسی اور حافظ سے شناسائی ہوئی اور اردو کے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شعرا کا کسی حد متروک اور محذوف کلام بھی دستیاب ہوا۔
سنگ میل (جو ان دنوں کہیں لوہاری دروازے کے پاس تھا) کے مالک کے دل میں جانے کیا آئی کہ نول کشور کا ایڈیشن کا عکس لے کر سات جلد میں طبع کر دیا جو 2700 روپے میں دستیاب ہوا۔ پہلے مانگ تانگ کر پڑھا اور پھر خرید کر رکھا۔ جنہوں نے یہ داستان پڑھ رکھی ہے انہیں کبھی ہیری پورٹر کا جادو اور جیمز بانڈ کے سائینسی کھلونے متاثر نہیں کر سکتے۔ طلسم ہوشربا کے انگریزی تراجم (abridged) بھی دستیاب ہیں اور اردو جھلکیاں بھی مگر اصل داستان کا نئے سرے سے کمپوز ہونا اور چھپنا بے حد ضروری تھا کہ ہماری یہ علمی اور، ادبی متاع گم ہو رہی تھے۔
کچھ سال پہلے سے کراچی کے کچھ لڑکوں نے اس کے ٹکڑے زبانی یاد کر کے محفلیں لوٹیں تو محسوس ہوا کہ نئی نسل کو اصل داستان سے محروم رکھنا بہت زیادتی ہو گی۔ مگر کیا کہئیے کہ مشرف فاروقی اور اسامہ صدیق نے کچھ سال پہلے ایک ناممکن کام کا بیڑہ اٹھایا اور ان کی اس Labour of love کا نتیجہ آج پہلی جلد کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ کیا ہی خوبصورت کاغذ اور چھپائی ہے۔
متروک طرز تحریر کو، جدید کیا اور کمپیوٹر کمپوزنگ ایسے خط میں ڈھالا جو نستعلیق سے کہیں خوبصورت ہے کہ عربی، فارسی، اردو اور سنسکرت سبھی کے حرف و لفظ پڑھنا بہت سہل ہے۔ اس پر مزید یہ کہ فارسی، عربی، سنسکرت کے ابیات کا مستند ترجمہ بھی مہیا کیا اور تمام مشکل اور متروک اسما، محاورے اور الفاظ کے مطالب ایک فرہنگ میں الگ سے دستیاب کر دئے۔ اور تو اور جہاں جہاں شعر کے خالق کا نام دستیاب ہوا وہ بھی بہم پہنچایا گیا۔
اس کام میں ابتدائی آٹھ جلدیں اب چوبیس جلدوں کا انسائیکلوپیڈیا بننے کو ہیں۔ میرے نزدیک یہ داستان صرف وقتی حظ اٹھانے کا ذریعہ نہیں، اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ چونکہ اس داستان کا ماخذ فارسی روایت سے ہے سو ایران و عرب اس قصے میں پہلے سے موجود ہیں۔ اٹھارہویں، انیسویں صدی کا ہندوستان اور خاص طور پر لکھنو۔ گنگا جمنی ہندو مسلم مشترک تہذیب (جس میں مسلمان حاکم اور غالب ہیں مگر دوست ہندوؤں سے بھی نفرت نہیں) جس شان اور سہولت سے دماغ میں اس داستان کو پڑھ کر، اترتی ہے وہ کسی تاریخ یا سوشیالوجی کی کتاب میں دستیاب نہیں۔
اور cherry on the cake وہ ہزار ہا استادانہ اشعار جو اس زمانے میں زبان زد عام تھے اور آج فراموش ہیں۔ جس شخص کو اردو ادب سے کوئی واسطہ ہے اور وسائل بھی بہت کم نہیں تو اس کتاب کو نہ خریدنا وہ عمل ہو گا جس پر اس کے آوٹ آف پرنٹ ہونے کا پچھتاوا جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ خوش رہئے اور محمد حسین جاہ اور احمد حسین قمر کے قلم سے مرتبہ اس معجزہء بیان کو، پڑھئیے۔
"ساقیان خم خانہ اسما و جرعہ نوشان جام افکار، بادہء ارغوانی شنجرف تحریر کو ساغر قرطاس میں اس طرح مملو کرتے ہیں کہ جب زمرد شاہ باختری نے طلسم ہزار شکل سے رہائی پائی، اس کے وزیر با تبدیر نے صلاح بتائی۔ "