Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamid Ateeq Sarwar/
  4. Marg e Mafajat

Marg e Mafajat

مرگِ مفاجات

اقبال کی بال جبریل کے مصرعے میں استعمال ہوئی یہ ترکیب عربی کے بے بدل شاعر ابوالعلا المعری کے نام سے معنون ایک نظم کے مصرع میں استعمال ہوئی ہے۔ معری شام میں رہتا تھا۔ چیچک سے بچپن میں نابینا ہوا، 86 سال زندہ رہا۔ شادی نہیں کی کہ بنی نوع انسان میں زندگی کی تکلیف سہنے کے لئے نئے بچوں کی آمد کا باعث بننے سے اصولی اختلاف رکھتا تھا۔ کسی درجہ قنوطی اور مذہب سے برگشتہ۔ اس کی کتاب لزوم ما لا یلزم فلسفہ اور شاعری کا شاہکار ہے۔

مغرب میں Moarrensis کے نام سے متعارف اس مدبر کا زمانہ دسویں اور گیارہویں صدی کا ہے۔ مذاہب کے غلبے والے دور میں اپنی تشکیک والی طبیعت اور عقلیت پسندی کی وجہ سے تمام مقلد مذہبی حلقوں میں خاصا نا پسندیدہ رہا۔ اس کے باوجود اپنی دانائی اور شعری کاریگری کی وجہ سے بہت مقبول ہوا یہاں تک کہ اس کا مجسمہ قریب ہزار سال حلب میں نصب رہا (جو بالآخر القاعدہ کی ایک منسلک تنظیم کے ہاتھوں 2013 میں مسمار ہوا)۔ جنگ، گوشت خوری، پھول توڑنے، انڈے اٹھانے، جانور کا دودھ پینے اور شہد کے چھتے توڑنے کے خلاف تھا۔ حسن سلوک اور اخلاقیات کو، مذہب کا درجہ دیتا تھا۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات(ناگہانی موت /unplanned death) کی بات اسی کی شاعری اور، فلسفے سے مستعار ہے۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ارضی و سماوی آفات اور انسانوں کے بقیہ انسانوں پہ جبر اور محرومی کے اثرات کی بہترین عقلی توجیہہ، معری کی منطق سے بہتر کسی طور explain نہیں ہوتی۔ یہ نہیں کہ طاقتور کو موت نہیں مگر بحیثیت مجموعی کمزور اور غریب طبقہ، ہر آسمانی اور زمینی آفت میں سب سے زیادہ suffer کرتا، ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھے یا وبا و سیلاب آئے، سب کی پسندیدہ غذا محروم اور غریب کی جان اور مال ہے۔ غربت اورکمزوری انفرادی بھی ہوتی ہے، طبقاتی بھی اور قومی بھی۔ معری کا یہی فلسفہ ڈارون کی جہد للبقا اور ارتقا کی اساس ہے۔ موجودہ سیلاب میں ابھی تک کسی متمول شخص کے نہ مرنے کی اطلاع ہے نہ اس کے لاچار اور بے بس ہونے کی کوئی خبر،۔ مرے پیغمبر ﷺ بھی غربت، ذلت اور مغلوب کئے جانے سے پناہ کی دعا کیا کرتے تھے اور ان کی سیرت اس غلبے کے خلاف جنگ سے عبارت ہے۔

یہ جو سیلاب کی تباہ کاری اور مہنگائی کا عذاب ہم پر مسلط ہے یہ اسی ذلت، مغلوبیت اور ضعیفی کا شاخسانہ ہے جس سے نکلنے کی ہمارے ہاں نہ آرزو ہے نہ کوشش۔ اقوام عالم میں ہم ایسے مغلوب ہیں کہ جہالت، غربت، افلاس، باہمی جنگ، بد اخلاقی۔ بد نظمی اور بے ایمانی کی لسٹ میں دنیا کے پانچ" ممتاز" ترین ممالک میں ہمارا شمار ہے۔ دور حاضر میں اجتماعی خوشحالی کے جو بھی اصول و ضوابط ہیں، ہم ان کے برخلاف کسی معکوس سمت میں سرگرداں ہیں۔ آسمانی آفت امریکہ پر، بھی آتی ہے اور جاپان پر بھی۔ مگر وہاں کا انسانی المیہ ہماری نظیر کو کبھی نہیں پہنچتا کہ طاقت اور وسائل کی کمی نہیں۔ یا تو پہلے سے بندوبست ہوتا ہے یا حادثے کے کچھ ہفتوں میں سب کچھ پہلے کی طرح ہو جاتا ہے۔ چند ناگہاں المیے اور اس کا شکار بھی زیادہ تر غریب کالے اور بس۔ اور ایک ہم ہیں کہ ہر آفت یوں محسوس ہوتی ہے جیسے نوح کے وقت کا طوفان۔

جب ہم نے کوئی پیداواری صلاحیت حاصل نہیں کرنی، کوئی ایجاد نہیں کرنی، بچوں کے علاوہ کچھ پیدا نہیں کرنا، ہمسایوں سے تجارت نہیں کرنی، دنیا پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے انہیں خود سے بر گشتہ ہی رکھنا ہے، کسی اور کا نظریہ اور طرز زندگی اس طرح برداشت نہیں کرنا کہ کسی کو یہاں پر سرمایہ کاری اور گھومنے کا خیال بھی آئے تو ضعیفی ہی ہمارا مقدر، ہے اور مرگ مفاجات ہی ہمارا راستہ۔ اس طرح کی بے بسی میں دعا ہی ہمارا واحد نجات کا راستہ ہے سو چلئے مولانا طارق جمیل کے ساتھ مل کر اس ملک کے غریب سیلاب زدگان کی بداعمالیوں اور ناقابل معافی گناہوں کی بخشش کے لئے آنکھیں بھگوئیں اور ہاتھ اٹھائیں تاکہ اس تکلیف سے نجات ہو۔ مگر یہ یاد رہے میرے نبی کی دعا بدر کی صف آرائی کے بعد ہوتی تھی اور ہماری التجائیں عمل سے یکسر لاتعلق، بغداد کے ان زعما کی مناجات ہیں جو ہلاکو خان کی آمد پر کی گئیں تھیں۔

معری ہم میں سے تھا مگر شاید ہمارا نہیں تھا۔ مرتد، زندیق اور جہنمی۔

Check Also

Nasri Nazm Badnam To Hogi

By Arshad Meraj