Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Tareekh Balke Asal Tareekh

Tareekh Balke Asal Tareekh

تاریخ بلکہ "اصلِ تاریخ"

پرہلاد کے دانش کدہ (المعروف پرہلاد مندر) کے بند دروازوں کی جھریوں سے ایک بار پھر حسرت بھری نگاہوں سے بچے کھچے ملبے کو دیکھا تو مجھ ملتانی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ملتان کی شاندار تاریخ کی یہ زندہ نشانی بابری مسجد کے ردعمل میں ریزہ ریزہ کی گئی تھی۔

دانش کدہ پرہلاد کے پہلو میں حضرت بہاء الدین زکریاؒ المعروف غوث بہائو الحق ملتانی کی خانقاہ ہے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر غوث بہائو الحق ملتانیؒ کو پرہلاد کے دانش کدہ کے پہلو میں آباد ہونے پر اعتراض نہیں تھا تو ملتان کی تاریخ پر حملہ کرنے والوں کو کیا اعتراض ہوا۔

ہندوستان میں بابری مسجد کے ساتھ انتہا پسند ہندوئوں نے جو سلوک کیا پاک و ہند اور دنیا میں کسی نے اس کی تحسین نہیں کی۔ افسوس کہ اس کے جواب میں جو کچھ پاکستان میں ہوا اس پر نہ صرف جواز پیش کیا گیا بلکہ ایسی فضا بنادی گئی کہ لوگ ڈر کے مارے بات ہی نہیں کرتے۔

ہم ملتانیوں سے اچھے تو لاہور والے نکلے انہوں نے ایک انتہا پسند گروپ کے ہاتھوں"جین مندر" کی تباہی پر منظم احتجاج کیا ان کے مسلسل احتجاج کے سامنے حکومت نے سپر ڈالی اور "جین مندر" ازسرنو تعمیر کردیا گیا۔

جین مت (جین مذہب) سے تعلق رکھنے والے مشکل سے چند سو یاتری آتے ہوں گے جین مندر دیکھنے۔ معاملہ یاتریوں کی تعداد سے زیادہ تاریخ کا ہے۔ اہل لاہور کے باشعور نوجوانوں نے تاریخ کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا مسلسل احتجاج سے اپنی بات منوالی۔

دانش کدہ پرہلاد کی تعمیر کے لئے فنڈز منظور ہوئے تھے، وہ کہاں گئے۔ تعمیر کیوں نہیں ہوپائی۔ کیا کسی اور جگہ مندر کے نام پر ایک عمارت تعمیر کرکے دے دی گئی؟ (ایسا ہے تو کم از کم مجھے معلوم نہیں) آپ اتفاق کہہ لیجئے میں دانش کدہ پہلاد کے بند دروازے کے اندر پڑے ملبے کو دیکھنے کے لئے ملتان یاترا کے دوران ضرور جاتا ہوں۔

مزید اتفاق یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ اور زبیر فاروق ہمراہ تھے۔ یہ دونوں دوست تاریخ سے خصوصی دلچپسی رکھتے ہیں ہم چند ہفتوں یا مہینوں کے وقفے سے ملتان میں جب بھی ملیں شہر کی سیر ضرور کرتے ہیں۔ پہلے صحت اجازت دیتی تھی مٹر گشت کرتے تھے اب گاڑی میں گھومتے ہیں اور شہر یاترا کی آخری منزل دانش کدہ پرہلاد ہوتا ہے۔

سال بھر قبل ان سطور میں جب دانش کدہ پرہلاد کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کی تھیں تو ملتان کی ایک مذہبی شخصیت نے ٹیلیفون پر سلام دعا کے بعد کہا "مجھے حیرانی ہوئی کہ وعظ والی بی بی جیؒ کے صاحبزادے کو ہندوئوں کے مندر کا ملبہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ کاش بی بی جیؒ زندہ ہوتیں تو آپ کی گوشمالی ضرور کرتیں"۔

ادب کےساتھ عرض کیا میری امڑی جانتی تھیں کہ میرا لعل تاریخ کا طالب علم ہے اور اسے ملتان ملتانیوں اور ملتان کی تاریخ سے عشق ہے۔ یہ بھی عرض کیا حضور میں تاریخ کو مسلمان اور غیرمسلم نہیں سمجھتا۔

ہم آگے بڑھتے ہیں لیکن ذرا ساعت بھر کے لئے رکئے۔ طالب علم کو بدھ کی نیم دوپہر کے وقت لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) کے "سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن" میں قومی بیانیہ پر گفتگو کے لئے یاد کیا۔

اس کی تفصیلی روداد الگ سے عرض کروں گا فی الوقت یہ کہ اس مکالماتی نشست میں بھی یہی عرض کیا تھا کہ "قاتل کو مسیحا، غاصب کو نجات دہندہ اور حملہ آور کو ہیرو سمجھنے والوں کا بیانیہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر تین چار سال بعد نئے بیانیہ کے سراب کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔

یہ بھی عرض کیا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ تاریخ کے نام پر پچھتر برسوں سے ہماری درسگاہوں میں جو پڑھایا جارہا ہے اس میں خود ہماری یعنی اس سرزمین کے باشندوں کی تاریخ کتنی ہے؟ یہ نکات یہاں عرض کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ملتانیوں کو سوچنا چاہیے کہ اپنی سرکٹی تاریخ کا تو وہ ملبہ بھی نہیں سنبھال پائے ملتان میں اور اس کی تاریخ میں ان کا حصہ کتنا ہے؟

دانش کدہ پرہلاد کی دہلیز ہو، کسی درسگاہ کا ہال یا دوستوں کی محفل ہمیشہ یہی عرض کرتا ہوں کہ سکیورٹی اسٹیٹ پہلا کام یہ کرتی ہے کہ ریاست کی جغرافیائی حدود میں آباد لوگوں کو ان کے "اصل" سے محروم کردے۔ پچھتر برسوں سے پڑھائے گئے نصاب اور مسلط کردہ تاریخ سے بغاوت کرکے اصل سے جُڑنے کی شعوری کوشش کرنے والے اس ملک میں کتنے پیدا ہوئے؟

ہم اور آپ ان کی تعداد انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بٹوارے کے معاملے میں بھی جھوٹ بولتے ہیں مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ یو ایم ٹی کے سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی مکالماتی نشست میں پنجاب کی سب سے بڑی درسگاہ پنجاب یونیورسٹی کی معروف معلمہ ڈاکٹر بشریٰ رحمن نے انکشاف کیا کہ واصف علی واصف کے خیال میں صوفیاء کے چار نہیں پانچ سلسلے ہیں پانچواں سلسلہ پاکستانیت ہے۔

بہت مشکل کے ساتھ آنسو ضبط کئے۔ سوچتا رہا یہ ہمارے پی ایچ ڈی سطح کے معلمین کا "کُل" علم ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی گفتگو جاری تھی لیکن خیالات طالب علم کو پھر سے دانش کدہ پرہلاد کی طرف لے گئے۔ فقیر راحموں نے سرگوشی میں کہا "شاہ اس ملک میں بیانیہ، نظریہ، موقف، فلسفہ، عقیدہ اور تاریخ ایسے ہی بنتے ہیں، پاس کر یا برداشت کر"۔

ظاہر ہے کہ برداشت کرنے کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے۔ تواتر کے ساتھ نصف صدی سے یہی عرض کرتا آرہا ہوں کہ درسگاہوں بالخصوص جامعات میں مکالمے اور اظہار خیال کی آزادی کو رواج دیجئے ورنہ آپ کلرک اور دولے شاہی چوہے ہی تخلیق کریں گے۔

ذرا چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے۔ ہم کس ہجوم کے درمیان زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ آیئے پھر دانش کدہ پرہلاد کی معرفت تاریخ سے باتیں کرتے ہیں۔ پانچ سے سات ہزار سال معلوم تاریخ کا یہ آباد شہر اپنی مثال آپ ہے۔ آپ دانش کدہ پرہلاد کے دروازہ پر کھڑے ہوکر آنکھیں موند لیجئے۔ صدیوں بلکہ ہزاریوں کی تاریخ کی فلم چلنا شروع ہوجائے گی۔

حملہ آوروں کے لشکر شہر کو تاراج کرتے لوٹ مار کرتے باندیاں اور غلام لے جاتے دیکھائی دیں گے۔ کبھی کوئی پرجوش حملہ آور شہر کے ایک حصہ کو آگ لگاتا دیکھائی دے گا۔ گزری کئی ہزاریوں میں ملتان اور ملتانیوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا دانش کدہ پرہلاد کی عمارت شان سے کھڑی رہی۔ تاریخ کی نشانی اس عمارت کےقاتل اور کوئی نہیں اسی شہر کے باسی تھے۔

قاتلوں کی نشاندہی پر ایک بار چند دوست ناراض ہوگئے۔ ایک دو نے تعصب کی پھبتی کسی۔ ہم سبھی ایسے ہی ہیں۔ مکرر عرض ہے جو لوگ تاریخ اور عمارتوں کو مذہب اور عقیدے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں وہ اگلی نسلوں کے لئے فکری بانجھ پن کے سوا ورثے میں کچھ نہیں چھوڑتے۔

ہم علم و دانش اور انسانیت کو ورثے کے طور پر چھوڑنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اپنے عصری شعور کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیں۔ ہمیں اپنے بڑوں اور پُرکھوں کی غلطیوں کو آگے بڑھانے میں حصہ ڈالنے سے گریز کرنا ہوگا۔

ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا ہوگا کہ اس حال احوال اور ورثے کے ساتھ ہم تاریخ اور اگلی نسلوں کے مجرم قرار پائیں گے یا لائقِ فخر؟

معاف کیجئے گا اگر آپ اس سوال کا جواب پالیں تو طالب علم کو ضرور آگاہ کیجئے گا۔ کالم کا دامن آپ کی فہم اور رائے کے لئے حاضر ہے۔

Check Also

Tilla Jogian, Aik Mazhabi Aur Seyahati Muqam

By Altaf Ahmad Aamir