Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafeez Babar
  4. Jadeed Darwinism Ke Bani Razi Dada

Jadeed Darwinism Ke Bani Razi Dada

جدید ڈارون ازم کے بانی رضی دادا

"دشمن صرف سرحد کے اُس پار نہیں، بلکہ گھر کے اندر بھی چھپا ہوتا ہے۔ نشانیاں اور شناختیں پیدائش کے ساتھ ہی کسی قوم کے خون میں شامل ہو کر نتھی ہو جاتی ہیں"۔ یہ ڈائلاگ 2008 کی انڈین فلم "شوریہ" میں اداکار "کے کے مینن" جو برگیڈیئر پرتاب سنگھ کا مرکزی کردار ادا کر رہے تھے، نے فلسفے کے روپ میں ادا کیے۔ برگیڈیئر پرتاب سنگھ متعصب اور ایک خبطی انسان ہوتا ہے، جو ہندو مذہب کی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، اس لئے وہ اسلام کے پیروکاروں کے خلاف شدید نفرت کا جذبہ رکھتا ہے اور فوج کے اعلی عہدے پر فائز رہتے ہوئے وہ مسلمانوں کی نسل کشی کرتا ہے۔ برگیڈیئر پرتاب سنگھ کے کردار کی تعصب آمیز سوچ کو تمہیداَ بیان کرنا موضوع کا حصہ ہے۔ تعصب، تعصب ہوتا ہے، چاہے وہ مذہبی ہو یا لسانی۔

چنانچہ، کسی بھی مخصوص جغرافیہ کے حدود میں رہتے ہوئے بظاہر ایک مذہب کے پیروکار، جب لسانی اعتبار سے مختلف اقوام کی صورت میں، ایک جگہ بستے ہوں، تو وہاں باہمی تضاد اور سوچ میں افراط و تفریط کا ہونا طے ہوتاہے۔ لہذا مرکزی حکومت کا کام لسانی نفرت اور تعصب کی ہوا کو ختم کرکے مصلح پسندی کی فضا کو قائم کرنا ہوتا ہے اور جب تک چھوٹے صوبوں کے خدشات ختم نہیں ہونگے، لسانی جھگڑوں کی روک تھام ہونا، ممکن نہیں ہوتا۔

پانی کا مسئلہ صرف پنجاب اور سندھ کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس وقت پوری دنیا اس مسئلے سے جوجھ رہی ہے۔ پانی کے ذخائر دن بہ دن گھٹتے جا رہے ہیں اور ماہرین کے مطابق مستقبل کی جنگیں ملک کے کسی خاص حصے پر قبضہ کرنے کے بجائے، پانی کو حاصل کرنے لئے لڑی جائیں گی۔ پانی انسان یا کسی بھی خطے کے لئے انتہائی ناگریز ہوتاہےاور پانی کے بغیر زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ حال ہی میں انڈیا کے پہلگام علاقے میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا، جس کے بعد انڈیا نے سندھ طاس کا معاہدہ ختم کرنے کا یک طرفہ فیصلہ کر دیا۔ جس کا پاکستان نے شدید رد عمل پیش کیا، جو اصولاَ کرنا بھی چاہیے تھا اور انڈیا کے اس عمل کو جنگی اقدام کے مترادف قرار دے دیا۔ جبکہ حالیہ دنوں میں مون سون کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان میں شدید بارشیں لاحق ہوئی تو دونوں ممالک میں سیلاب کی طرح صورت حال ہوگئی۔

انڈیا کی جانب سے اچانک مختلف ڈیمز کے اسپیل ویز کھول دیے گئے، جس کے باعث پاکستان میں انتہائی درجے کا بڑا سیلابی ریلا در آیا، جس کا براہ راست نقصان صوبہ پنجاب کو ہوا، اس کے کئی علاقے زیر آب آگئے اور بڑے پیمانے پر تباہی آ گئی۔ جس پر پاکستان کی طرف سے انڈیا کے ان اقدامات کو آبی دہشت گردی قرار دیا گیا۔ آج سے لگ بھگ 65 سال پہلے انڈیا اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کے ثالثی کردار کے تحت سندھ طاس معاہدہ طے ہواتھا۔ تاہم انڈیا کسی نہ کسی طرح معاہدہ شکنی کرتا رہا ہے۔ کبھی پاکستان کے حصے میں آئے دریاؤں پر ڈیم بنا کر، تو کبھی پانی کے راستے کو منحرف کرکے پاکستان میں پانی کی قلت پیدا کرنے کی سازش کرتا آیا ہے۔ پاکستان نے گاہے بہ گاہے ڈیمز کے خلاف شدید مذمت کا اظہار کیا ہے۔

آبادی کے اعتبار سے صوبہ پنجاب، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور رقبے کے لحاظ سے پنجاب، صوبہ سندھ سے کافی بڑا ہے۔ سندھ والے پنجاب کو اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں۔ بڑا بھائی ہونے کے ناطے اس کا فرض بنتا ہے کہ چھوٹے بھائیوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئے اور کسی صوبے کی حق تلفی نہ کی جائے۔ لیکن مقامِ حیرت یہ ہے کہ پنجاب نے وہی سلوک سندھ کے ساتھ روا رکھا، جو انڈیا نے پاکستان کے ساتھ حشر کیا، یعنی سندھ پر آبی دہشت گردی مسلط کی گئی۔

1991 میں دونوں صوبوں کے درمیاں پانی کا ایک معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن اس معاہدے کی صحیح معنوں میں پاسداری نہیں کی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ کا مطلوبہ حصہ، جو معاہدہ مطابق طے ہوا تھا، آج تک اُسے متعین کردہ حصہ نہیں دیا گیا ہے، کسی سال نصف کے قریب، تو کبھی نصف سے بھی کم حصہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سندھ کی زراعت پر بھی گہرا اثر پڑا اور پینے کے پانی کی بھی قلت رہی ہے۔ تو پنجاب کے اس قدم کو کونسا نام دینا چاہیے؟ اگر انڈیا ایسا کام کرے تو وہ آبی دہشت گرد ہوا، اگر بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے ساتھ یہ سلوک کرے تو اسے کس نام سے موسوم کریں گے؟ کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ ہم انڈیا کی طرف سے بنائے گئے ڈیمز کی سخت مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ ہمیں پانی کی قلت کا خدشہ پیش نظر ہے۔ لیکن پنجاب میں ڈیمز بنانے کی کٹّر حمایت کیوں کرتے ہیں؟ پانی کی ممکنہ قلت کی وجہ سے سندھ میں آنے والے خشک سالی کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ کیا سندھ پاکستان کا حصہ نہیں؟ یا وہاں پر انسان نہیں بستے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

رواں سال مرکزی حکومت نے دریائے سندھ پر نئے کینالز بنانے کا منصوبہ بنایا، تاکہ نئے کینالز کی مدد سے پنجاب کے ریگستانی علاقوں کو سرسبز کیا جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ سندھ کو پہلے ہی پانی کا کم حصہ ملتا آیا ہے، اس پر نئے کینالز بنا کر پنجاب کے چولستان علاقے کو ہرا بھرا کرکے، سندھ کی زمینوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اگر یہ منصوبہ مستقبل میں پایہ تکمیل پہنچتا ہے تو، یہ منصوبہ صرف سندھ کے لوگوں پر ظلم نہیں ہوگا، بلکہ یہ انسان کے بنیادی حقوق کو پائمال کرنے جیسا عمل ہوگا۔ جس کے خلاف سندھ کی عوام روڈ پر آگئی اور اپنے جائز مطالبات انہوں نے منوا لئے، جو ان کا قانونی حق تھا اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ جس طرح پنجاب کے انسانوں کا دارومدار پانی پر ہے، اسی طرح سندھ کے لوگوں کی روحِ رواں بھی پانی ہے۔

اب کچھ روز پہلے 15 لاکھ کے قریب تنخواہ لینے والا ایک سرکاری ٹی وی کا صحافی رضوان الرحمان عرف رضی دادا نے ایک وی لاگ میں اپنے دل میں چھپی کدورت، نفرت اور تعصب کا ننگا اظہار کرتے ہوئے، صوبہ سندھ کے باسیوں کے لئے یہ الفاظ کہے کہ "ہمارا سندھو سندھو کرتی ہوئی یہ گندی نسل ہمارے ساتھ ہوگئی ہے۔ یہ لوگ پانی کا مطالبہ کرتے وقت بندروں کی طرح ناچنا شروع کر دیتے ہیں یہ باندروں کی نسل ہے، اب ڈوبو، سارا پانی آپ کی طرف ہے، اب ڈوبیے"۔

چند سیکنڈز کی اس وائرل کلپ میں یہ شخص اپنی ذہنی گندگی کا کھلا اظہار کر رہا ہے۔ جو انسان سرکاری چینل پر لاکھوں روپے تنخواہ اس لئے لیتا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ نقطہ نظر پیش کرے، کیونکہ یہ چینل صرف ایک صوبے کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ چاروں صوبوں کی یکساں آواز ہے۔ لہذا رضی دادا کو ایک سچا مسلمان اور ایک پاکستانی بن کر اپنے الفاظ کو دہرانا چاہیے تھا ناکہ کسی خاص گروہ کا رکن بن کر اپنی نفرت کا زہر اگلنا مقصود تھا۔ یوں تو رضی دادا بظاہر مسلمان ہے، لیکن لسانی تعصب کرتے وقت وہ برگیڈیئر پرتاب سنگھ کے تعصب زدہ کردار میں ڈھل جاتے ہیں۔

اس پر مزید یہ کہ ملک کے کسی ایک حصے میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہوئی تو بحثیت مسلمان ہم دعا مانگیں کہ اللہ کرے کہ یہ پانی دوسرے صوبوں سے بغیر تباہی کے بخیریت گزر جائے۔ اب تک کے حالات کے مطابق، پانی سندھ سے گزر گیا ہے، کچے کی آبادی تو زیرِ آب آگئی لیکن خوش قسمتی سے سندھ بڑے نقصان سے بچ گیا، حالانکہ سندھ کو بڑا چیلنج درپیش تھا، لیکن رضی دادا کی یہ بدترین خواہش تھی کہ یہ سیلاب سندھ کو بھی ڈبو دے، ان کے بیان کیے الفاظ کو غور کرنے سے یہی نظر آتا ہے۔

یہ بدیہی حقیقت ہے کہ تعصب اور ایمان مسلمان کے دل میں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ مملکتِ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، چاہے آپ کی جو بھی قوم ہے، لیکن اگر آپ مسلمان ہیں تو پھر آپ کیوں نہ پٹھان ہوں، بلوچ ہوں، پنجابی ہوں یا سندھی ہوں، آپ لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لسانی بنیاد پر کسی کو ارفع درجہ حاصل نہیں ہے۔ ہم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو جس عمل خوبصورت ہے۔ یہی اسلام کہتا ہے اور آخری خطبہ میں ہمارے نبی ﷺ نے دین کی اساس کو رنگ و نسل کے امتیازات کو ختم کرکے صرف اور صرف پرہیز گاری کو معراجِ انسانیت قرار دیا تھا۔

چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کے متعلق تو ہر عام و خاص کو معلوم ہے۔ اس کے نظریہ کے مطابق ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا ایک بندر، کس طرح موجودہ انسانی ہیئت میں تبدیل ہوا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقا کے جدید بانی رضی دادا کے مطابق، جو شخص اپنے جائز مطالبات کو پورا کرنے کے لئے آواز اٹھائے گا وہ بھی بندر کی نسل سے بن جائے گا۔ اس طرح تو تاریخِ انسانی میں کوئی قوم نہیں بچ سکتی۔ پاکستان میں آج تک کتنی تحریکیں ابھری ہیں، تحریک ختم نبوت سے لے کر 1988 کی "جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ" جیسی تحریکیں، ان سب نے اپنے اپنے جائز مطالبات پیش کیے تھے۔ تو کیا کسی کا کوئی جائز مطالبہ کرنا یا کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھانا مذموم عمل قرار دیا جائے گا؟

خود پاکستان کا بنیاد تحریک آزادی کےآغاز سے ہوا تھا۔ 1905 میں مسلمانانِ ہند، سر آغا خان کی صدارت میں لارڈ منٹو کے پاس اپنے جائز مطالبات کو پورا کرنے کے لئے گئے تھے، جس تحریک نے آگے چل کر پاکستان کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب انڈین نیشنل کانگریس نے مسلمانانِ ہند کے ساتھ ناروا سلوک کیا تو برصغیر کے مسلمان اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گئے۔ اگر کچھ کرنے کی طاقت نہ ہو تو اپنی آواز کی مدد سے ظلم کے خلاف علمِ بغاوت اٹھانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ کم از کم لارڈ منٹو رضی دادا کی طرح نہیں تھا، ورنہ وہاں اگر رضی دادا کی سوچ کا حامل انسان ہوتا تو، وہ 35 مسلمانوں کے اس وفد کو، جو مسلمانوں کی اپنی آزاد سیاسی پارٹی کا مطالبہ کرنے آئے تھے اسے کہتا کہ "ہماری پارٹی ہماری پارٹی کرتی ہوئی یہ گندی نسل باندروں کی طرح ناچتی ہوئی، بندروں کی نسل"، اس کے برعکس مسلمانوں کی بات کو اس وقت کی قابض انگریز حکومت نے بھی قبول کیا۔

مجھے یہ خوشی ہوئی کہ پاکستانیوں کا ابھی تک ایمان زندہ ہے۔ رضی دادا کی اس داداگیری کو بحثیت مجموعی پنجابی لوگوں سمیت کسی لسانی گروہ نے قبول نہیں کیا۔ نفرت اور تعصب کی اس فضا کی جا بجا مذمت کی گئی ہے۔ راقم الحروف نے لاہور کے ایک پنجابی صحافی کو پنجابی زبان میں ایک وی لاگ کرتے ہوئے سنا، جس میں وہ رضی دادا کی تعصب آمیز سوچ کو دھتکار رہے تھے اور یہ فرمایا کہ رضی دادا جیسے لوگوں کی وجہ سے پنجابی لوگوں کی ساکھ پر خراب اثر پڑتا ہے۔ تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر رضی داد کی پھیلائی ہوئی نفرت کے کچھ ثمرات بھی دیکھنے کو ملے۔ کافی لوگ رضی دادا سے دو قدم آگے بڑھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے، اتنا کہ سندھی لوگوں کی تصویروں کے ساتھ بندروں کی تصویریں لگا کر اپنی نفرت کا اظہار کرنے اور رضی دادا کے ساتھ محبت کا اقرار کرتے ہوئے نظر آئے۔ لیکن جیسا میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ نفرت پھیلانے والے لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنتی کے برابر ہیں، جبکہ رضی دادا کے جدید نظریہ ارتقا کو کلی طور پر رد کیا گیا ہے۔

رضی دادا یا اس کے چند حوارین کی تعصب آمیز سوچ کی وجہ سے پنجابی قوم کو غلط قرار دینا ظلم ہوگا، بلکہ یہ خود تعصب میں شمار ہو جائے گا۔ چند لوگوں پر محیط کسی گروہ کی مجرمانہ سوچ کو بنیاد بنا کرکسی کی نسل کو بُرا بھلا کہنا، یا ان کی مٹی کو ناپاک یا پلید قرار دینا، یا ان کی نسل کو جانوروں کی تشبیہ دینا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں، بلکہ کسی فرد یا کسی گروہ کی انفرادی سوچ کی وجہ سے اس کی ساری قوم کو گالی گلوچ دینے والوں کا شمار، ظالمین میں ہوتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan