Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Maa Boli Zuban (2)

Maa Boli Zuban (2)

ماں بولی زبان (2)

مادری زبان جسے ماں بولی زباں بھی کہا جاتا ہے کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کا منانے کا مقصد دنیا میں موجود تمام زبانوں کی اہمیت اجاگر مقصود ہے۔ کچھ زبانیں علاقائی بولی جاتی ہیں۔ کچھ زبانیں بین الاقوامی سطح پر بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہر زبان اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ اور معاشرے کو ایک لڑی میں پرونے کے کام آتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کافی زبانیں پائی جاتی ہیں۔

عام قیاس یہی ہے کہ ہر اٹھائیس کوہ(میل سے کچھ زیادہ) کے بعد ہمارے ہاں زبان بدل جاتی ہے۔ بچہ پیدائش کے بعد جو سب سے پہلی زبان اپنی ماں کی گود سے سیکھتا ہے، وہی اصل میں مادری زبان کہلاتی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ انسان سب سے زیادہ بہتر اپنی مادری زبان سے سیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں خامی کی بڑی وجہ ہم اپنے بچوں کے لئے ان کی مادری زبان کے مطابق سلیبس تیار نہیں کر پائے۔

ہم نے ہمیشہ اغیار کی زبان کو خود پر مسلط کیا۔ نفسیات کی زبان میں اس کو احساس کمتری کا نام دیا جاتا ہے۔ آج بھی ہم اپنے ارد گرد ایسے بچوں کو دیکھتے ہیں۔ جن کے والدین کی مادری زبان کچھ اور تھی۔ احساس کمتری کا شکار ہو کر انہوں نے بچوں پر اغیار کی زبان مسلط کی یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیروالا معاملہ اور پھر جب کبھی ان کو لگاتار اغیار کی زبان بولنا پڑ جائے تو کہیں نہ کہیں اپنی مادری زبان کانقش چھوڑ جاتے ہیں۔

جو کہ اکثر ظرافت کا باعث بنتے ہیں۔ چند چٹکلے آئے دن سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں اور ہم سب اس سے لحظ اٹھاتے ہیں۔ ہماری یہ ستم ظریفی کہ ہم اپنی مادری یا قومی زبان کو کم تر خیال کرتے ہیں۔ گوروں کی زبان کو ہم نے ذہانت کا درجہ عطا کیا ہوا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اسی ایک زبان کے آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔ اسی کو کسوٹی مان کر ہم امتحانات میں بچے کی قابلیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

جو کہ ایک انتہائی غلط بات ہے۔ اور یہ بھی کڑوا سچ کہ جو لوگ یا جن گھروں میں بیگانے دیس کی زبان بولی جاتی ہم احساس کمتری کے مارے لوگ ان کو اپنے سے اولی سمجھتے ہیں۔ اور وہ ہم کو بھیڑ بکریاں یا اجڈ خیال کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ پاکستان بننے سے لیکر آج تک یہی طبقہ ہماری تقدیروں کا فیصلہ کرتا آرہا ہے۔ اور یہ بات ان کے حق میں جاتی ہے۔

کتنی بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے قوانین اردو میں نافذ نہیں کر پائے۔ دفتری زبان اور خط و کتابت سب غیر ملکی زبان میں کرتے ہیں۔ عدالتوں میں ایک عام دیہاتی کا کیس بھی غیر ملکی زبان میں سنا پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ وہ بیچارہ کھڑا ہونقوں کی طرح دیکھتا رہتا ہے۔ اگر ملکی قوانین اردو میں نافذ کر دئیے جائیں تو بہت سی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ پرائمری تعلیمی نظام میں بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔

ملکی قوانین ان کو ان کیمادری زبان میں پڑھائیں جائیں تو اس کے دور رس نتائج آئیں گے۔ عوام کے ووٹ سے منتخب حکمران عوام سے خطاب کرنے کے لئے بھی اغیار کی زبان کا جب سہارا لیتا ہے تو ایک غلامی کی بو آتی ہے۔ قومی خود مختاری پر ایک کاری ضرب لگتی محسوس ہوتی ہے۔ بہت سے ممالک جن کے سر براہ گوروں کی زبان کو سمجھتے ہوئے بھی اپنی قومی اور مادری زبان میں بات کرتے ہیں اور وہ اس پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

بیشک زندہ باوقار قوموں کا شیوا اور رویہ یہی ہونا چاہئے۔ جس دن ہمارے بڑوں نے ہماری قومی زبان کو اپنا اوڑنا بچھونا بنایا تب قوم سمجھے گی کہ ہم نےحقیقی آزادی حاصل کر لی ہے۔ جب تک خود کو کوئی اور مخلوق سمجھنے والی باقیات موجود ہیں، غلامی کا طوق ہمارا زیور بنا رہے گا۔ زبان کوئی بھی بری نہیں ہوتی یہ صرف اظہار رائے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ ہماری عوام کس زبان کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتی ہے۔

جب ہم اردو کو اپنی قومی زبان سمجھتے ہیں تو پھر اس زبان سے سوتیلے پن کا سلوک کیوں؟ کیوں ہم اپنے عدالتی اور دفتری زبان کو اردو زبان میں لیکر نہیں آرہے، ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا ہوگا۔ اور یہی شعور کی پہلی منزل بھی ہے۔ حقیقی آزادی کی طرف پہلا قدم بھی۔

Check Also

Waldain Se Husn e Salook, Naye Zaviye Se

By Muhammad Saleem