Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Istehsal

Istehsal

استحصال

ہمارا معاشرہ استحصالی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہم استحصالی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ ایسا استحصال شاید جنگل میں جانور بھی روا نہ رکھتے ہوں۔ لیکن ہم اشرف المخلوقات ہونے کے دعویدار ہیں۔ ہم کیوں ایک دوسرے کا استحصال کرتے ہیں؟ کسان جو کہ اس ملک کی اکانومی میں اپنا رول اپنے خون اور پسینے کی قربانی دے کر ادا کر رہا ہے۔ اگر اس کی پیداوار کا منافع سال کے دن پر تقسیم کیا جائے تو ایک عام مزدور کی مزدوری سے بھی کم بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر چھوٹا کسان ہے تو بات بھی اسی کسان کی ہو رہی ہے۔ اور اسی نظر سے اس کو پرکھیں۔

کسان کا استحصال کون کرتا ہے؟ حکومت وقت، کھاد مافیا، بیج اسپرے مافیا، گنا مافیا، اور مڈل مین مافیا۔ ان سب مافیاز سے نبرد آزما ہونے کے بعد قدرت مہربان ہو، موسم ساتھ دے تو وہ کچھ پیداوار حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ ان سب مافیاز پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے پر مضمون کے طوالت کی وجہ سے صرف ایک کردار مڈل مین، کسان ایجنٹ، آڑھتی جو بھی نام دیں یہ کسان کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ یہ وہ لوگ جو تقسیم ہند سے پہلے بنیا کہلاتے تھے۔

ملک بننے سے ان کا نام بدل گیا لیکن طریقہ بنیا والا ہی اپنایا جاتا ہے۔ کسان کی فصل چاہے وہ سبزی کی شکل میں ہو یا جنس کی شکل میں اس کو کبھی بھی اس کا صحیح ریٹ نہیں ملتا۔ بڑے شہروں میں جو بولی لگائی جاتی وہ قدرے بہتر ہوتی کیونکہ وہاں خریدار زیادہ ہوتے پری پول نہیں ہوتا لیکن چھوٹے شہروں میں خریدار بھی محدود ہوتے وہ آپس میں گٹھ جوڑ کر کے ایک حد سے زیادہ بولی نہیں دیتے کسان مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ انہی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ وہ اپنی پروڈکٹ کو دوسری منڈیوں میں کیوں نہیں لے جاتا؟

اس کی پیداوار شدہ پروڈکٹ اتنی محدود ہوتی کہ اس کا ٹرانسپورٹ کا خرچہ اس سے کہیں زیادہ ہو جاتا اور وقت کا ضیاع الگ سے ان کمزوریوں سے آڑھتی لوگ واقف ہیں۔

آپ لوگوں کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے دو وفاقی وزراء نے ٹماٹر اور مٹر کی قیمت کم بتائی تھی جبکہ مارکیٹ میں ریٹ بہت زیادہ تھے۔ میڈیا نے ان لوگوں کی جگ ہنسائی کی لیکن حقیقت یہی کہ جب کسان سے وہی چیز خریدی جاتی بولی کی صورت میں تو وہ مٹی کے بھاؤ ہوتی۔ جونہی وہ چیز ریڑھی یا دکان کی زینت بنتی ہے تو اس کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ ہمیں اس استحصالی نظام کو بدلنا ہوگا۔ کسان کو اس کی فصل کا معاوضہ پورا پورا ادا کرنا ہوگا۔

ہمیں بولی سسٹم سے نکلنا ہوگا۔ گورنمنٹ کے ریٹ پر کسان سے تول کر چیز لی جائے پھر آگے آڑھتی اپنا کمیشن منافع جو بھی حکومت طے کرے لیکر پرچون والے کو دے وہ ریٹ لسٹ کے حساب سے اپنا جائز منافع رکھ کے عوام کو بہم پہنچائے۔ یہ جو ذخیرہ اندوزی مصنوعی قلت کر کے ریٹ بڑھا کر من مانی کی جاتی ہے اس پر روک لگانی چاہئے۔ قانون کو حرکت میں آنا چاہئے جب تک ہم کسان کے کھیت سے منڈی تک کے سسٹم کو ٹھیک نہیں کرتے یہ استحصال ہوتا رہے گا۔ کسان کو کب تک تختہ مشق بنایا جائے گا؟

Check Also

Izhar e Raye Ki Azadi

By Abubakr Syedzada