Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Insaf Ka Qatal

Insaf Ka Qatal

انصاف کا قتل

بیس فروری کو سماجی انصاف کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد معاشرے کو یہ یقین دلانا ہے کہ پوری دنیا سماجی انصاف کے حوالے سے یکسو ہے۔ سماجی انصاف کے حوالے سے اگر دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ اس انڈیکس میں ٹاپ پر ہیں۔ جہاں جہاں بھی قانون کی پاسداری کی جاتی ہے۔ وہاں امن بھی ہے ترقی بھی ہے۔ جن ممالک میں قانون کی پاسداری نہیں کی جاتی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ وہاں پرتنزلی اخلاقی پستی، بد امنی، انارکی نمایاں ہے۔ تو اس سے سید ھا سیدھا اصول واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشرے یا ملک کے لئے قانون کی پاسداری کتنی ضروری ہے۔

بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر ہم اپنے گریباں میں جھانکیں تو کچھ بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ہمارے جسٹس کے نظام سے لوگوں کا اعتماد کم ہو رہا ہے۔ یہی وجہ کہ آئے دن لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ذرا بھی نہیں کتراتے۔ اس ملک میں جو جتنا طاقت ور ہے قانون اس کے لئے موم کی ناک سے زیادہ کچھ نہیں۔ بہت سے واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں اشارے پر کھڑے ہوئے وارڈن کا حادثے میں کچلا جانا۔ سب میڈیا پر ریکارڈ ہو جانا یا پھر سندھ میں ایک وڈیرے کے بیٹے کا اپنے دوست کا قتل کرنا چیف جسٹس کا دورہ کرنا، پیشی پر وکٹری کے نشان بنانا یہ سب ہمارے قانون کی کمزوریوں موشگافیوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

نچلی سطح کی جوڈیشریوں پر جس طرح کے حالات ہیں۔ سبھی ان سے واقف ہیں۔ کسی نہ کسی کا کسی ذریعہ سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا۔ اگر بین الاقوامی انڈیکس پر ہمارے ملک کے انصاف کے معیار کو پرکھا جائے تو نیچے سے چند ممالک ہی ہم سے پیچھے ہیں۔ جو کہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ اور باعث شرم ہے۔ ہمارے ہاں ایسے ایسے قوانین موجود جس سے چادر چار دیواری کی پامالی ہوتی ہے۔ اور اس قانون کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ چاہے سیاسی مقصد ہو یا کوئی اور عزت نفس مجروع کی جاتی ہے۔

نابالغ بچوں کو ہتھکڑی لگانا، دودھ پیتے بچوں کو ایف آئی آر میں نامزد کرنا پھر عدالتوں میں ان بچوں کو کندھوں پر اٹھا کر کورٹ میں پیش کرنا سب سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا تب خود پر شرمساری محسوس ہوتی کہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارے ملک میں قانون کون سا لاگو ہوگا؟

اسلامی قوانین کی بھر مار ہے۔ شریعت کورٹس الگ سے ہیں۔ انگریزوں کے دور کے قوانین ابھی تک چل رہے ہیں۔ جیلوں میں ابھی تک انہی قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ دیوانی کیسز کے الگ قوانین ہیں۔ چوں چوں کا مربہ ہے۔ وکلاء حضرات کے لئے منافع بخش ہے۔ کوئی بھی اس نظام کی بہتری یا اس میں تبدیلی کے لئے ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ ڈسے سبھی ہوئے ہیں کسی نہ کسی شکل میں۔ مشکل یہ ہے کہ اس بھاری پتھر کو ہٹائے کون؟

کسی نہ کسی کو اس انصاف کے نظام میں تبدیلی کے لئے پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ آجکل ظلم کے نظام کی انتہا ہے اور جگ ہنسائی بھی ایسے مقدمات بنائے جا رہے جیسے یہ ثواب کا کام ہے۔ معاشرے میں اس سے انارکی زیادہ پھیل رہی ہے۔ اندر ہی اندر لاوا زیادہ پک رہا ہے۔ جو لوگ اس کی دہائی میں ایسے مقدمات بنا کر سیاسی حریفوں کو دبا لیا کرتے تھے۔ وہی حربے ابھی بھی اپنائے جا رہے ہیں، پر اب ہر بندے کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ حق بات اور جھوٹ اسی وقت کھل جاتا ہے۔

ہمیں سماجی انصاف، عزت نفس کی بحالی، قانون سب کے لئے ایک ہو۔ اس لائن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا ہمارے ملک کو ری بنانا پبلک کاٹیگ دینے لگے۔ انسانی حقوق کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ ہمیں انصاف کے بنیادی ڈھانچے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اور فوری انصاف ناگزیر ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر ملزم یا اس کے گھر والوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ جو ملزم نامزد ہو پہلے جیسے پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ سائنسی بنیادوں اور ٹھوس شواہد کے بعد ہی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔

ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ غلطی ایک کی ہوتی سزا پوری فیملی کو ملتی ہے۔ حتٰی کہ مال مویشی تک گھیر لئے جاتے ہیں۔ کسی شریف بندے کے گھر پر ویسے ہی پولیس آ جائے تو اس کے لئے مرنے کا مقام ہوتا۔ وہ معاشرے کے سوالیہ نشانوں کا جواب نہیں دے پاتا۔ اس گھر کی بچیوں کے رشتے نہیں ہو پاتے۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے۔ دوسرا ہمیں بنیادی پنچائیت سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں امام مسجد کو قاضی کے اختیارات ہوں۔

بہت سے کیسز جو معمولی نوعیت کے ہوتے مقامی سطح پر ہی حل کر لئیے جائیں تو وقت اور پیسہ کی بچت ہوگی۔ عدالتوں پر بےجا مقدمات کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ قاضی کے فیصلے کے بعد پولیس تک رسائی ہو اور قاضی کے فیصلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جس میں موجود دوسرے ارکان کی مشاورت بھی شامل ہو یعنی پورا ایک پنچائتی فیصلہ پہلے دیا جائے اگر کوئی فریق اس فیصلے پر رضامند نہ ہو یا متفق نہ ہو وہ اپنے کیس کو درج کروانے کا مجاز ہوگا۔

اگر ہم اپنی بنیادی جوڈیشری سسٹم کو اس ڈگر پر چلا لیں تو معاشرے میں بہتری آنے کے چانسز بڑھ جائیں گے۔

Check Also

AI Tools Aur Talaba

By Mubashir Ali Zaidi