Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Basham Bachani/
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Sir Syed Ki Faramosh Naseehat (3)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Sir Syed Ki Faramosh Naseehat (3)

مغالطستان اور عمران خان، سر سید احمد خان کی فراموش نصیحت (3)

پچھلے مضمون میں میں نے لکھا تھا کہ انبیاء کرام وہ بات کہتے تھے جس سے ان کی قوم ان کے خلاف ہوجاتی تھی۔ ان کی قوم کی اکثریت کسی نہ کسی گناہ میں ملوث ہوتی تھی، جس کی نفی کے لیے اللہ پاک ان پیغمبروں کو بھیجتے تھے۔ لیکن سوائے چند صالحین کے، اکثر قوم کے افراد انبیا کرام کی باتوں کو جھٹلاتے تھے۔ آخر میں عذاب الہی سے فیصلہ ہوجاتا تھا۔ صحیح لوگوں کو اللہ بروقت اطلاع دے کر محفوظ کرلیتا تھا، اور بعد میں قوم پر عذاب نازل کرکے اسے ملیا میٹ کردیا جاتا تھا۔ یہ قرآن کے سارے قصوں کا لب لباب ہے۔ جس نے بھی قرآن کا مطالعہ کیا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقے اور نقطہ نظر سے ہو، وہ میری اس مختصر تشریح کی تائید کرے گا۔

اس بنیاد پر میری دلیل یہ تھی کہ صحیح بندہ کبھی بھی قوم کی اکثریت سے جھوٹ نہیں بولے گا۔ ان کی داد سمیٹنے کے لیے وہ انہیں وہ نہیں بتائے گا جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ وہ قوم کی اصلیت سامنے رکھے گا اور وہ اصلیت بہت سارے لوگوں کو ناگوار گزرے گی۔ کیونکہ سچ میٹھا نہیں ہوتا۔ سچ تو کڑوا ہوتا ہے۔ اس دلیل کو مزید مضبوط کرنے کے لیے میں اپنے آقا محمد مصطفی ﷺکی ایک حدیث آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ غور سے اس حدیث کے فلسفے اور تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے گا۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جس نے اس لیے علم حاصل کیا کہ بے وقوفوں سے تکرار کرے یا علم والوں کے سامنے اپنی بڑائی ظاہر کرے یا عوام کے قلوب اپنی طرف مائل کرے، وہ دوزخ میں جائے گا"۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث 253) اس حدیث میں آخری نقطہ غور طلب ہے ہماری بحث کے حوالے سے۔ کہا گیا ہے کہ وہ جو علم حاصل کرتا ہے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے، وہ جہنمی ہے۔ کیوں؟

کیونکہ، جیسے کہ ہم پچھلے مضمون میں کہہ چکے ہیں، قومیں اس لیے تباہ نہیں ہوتیں کیونکہ اچھے حکمران نہیں ہوتے، قوانین اور نظام ٹھیک نہیں ہوتے، بلکہ اس لیے تباہ ہوتی ہیں کیونکہ اکثریت گناہ گار ہوتی ہے اور یہ بات اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آپ کو مظلوم پیش کرتی ہے۔ جبکہ اکثریت اپنے اعمال ٹھیک کرے تو نہ حکومت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، نہ قوانین، نہ حکمران اور نہ نظام۔ سب خود ٹھیک ہوجائے گا، اگر لوگ خود ٹھیک ہوجائیں۔

اب جب آپ اکثریت کے دل اپنی طرف مائل کریں گے، تو آپ کو بقول تھامس سوویل صاحب (جن کے ایک قول کا ذکر پچھلے مضمون میں کیا گیا ہے) ان سے سچ نہیں بولنا پڑے گا، بلکہ ایسا کچھ کہنا پڑے گا جو ان کے دل جیت لے۔ اور اگر اکثریت گناہ گار ہے، تو آپ کو گناہ گار باتیں کرنی پڑیں گی ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے۔ لہذا رسول اللہ ﷺکی حدیث آپ کو اب سمجھ آئے گی۔ چند مثالیں پیش کرتے ہیں ہم تاکہ بات مزید واضح ہو۔

میں نے پچھلے مضمون میں ہمارے معاشری کی چند برائیوں کا ذکر کیا تھا۔ جہیز، بیٹیوں کو ان کا حق نہ دینا، گٹکا، نسوار، وغیرہ وغیرہ۔۔ ساتھ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی بھی سیاسی لیڈر ان باتوں پر گفتگو نہیں کرتا۔ وہ مخالفین پر لعن طعن کرے گا، وہ بجٹ پر بحث کرے گا، وہ انتخابات اور مختلف لوگوں کے بیانیے پر بات کرے گا، لیکن معاشرے کی اکثر برائیوں پر اس کی زبان خاموشی کا مظاہر ہ کرے گی۔ کیوں؟

کیونکہ لوگوں کی اصلیت کا ذکر کرنے سے وہ ان کی حمایت سے محروم ہوجائے گا۔ سوویل صاحب کے بقول، یہ لوگ اپنی مدد کر رہے ہوتے ہیں، یہ لوگوں کو وہ سناتے ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ یہ انتخابات سے پہلے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ایسے ایسے وعدے کرتے ہیں جو عملی ہوتے نہیں۔ یا جن کے پورے ہونے سے ریاست کو نقصان زیادہ ہے اور فائدہ کم۔

عمران خان جہاں مغرب کی فحاشی اور ان کے تباہ حال خاندانی نظام پر بھاشن دیتے ہیں، وہیں جلسے میں ان خواتین سے کبھی مخاطب نہیں ہونگے جو ان کے جلسوں میں شریک ہوتی ہیں، جو پردہ نہیں کرتیں، بلکہ پردے کا الٹ کرتی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ سچ بولا تو یہ ساری خواتین غصہ کرجائیں گی۔ سچ بولنے سے زیادہ حمایت حاصل کرنا اہم ہے۔

لہذا، جو اکثریت کے دل اپنی طرف مائل کرے گا، اسے اکثریت کی اصلاح کے بجائے، ا کثریت کی خوشآمدی پر لگنا ہوگا اور اس رویے کے ہونے سے اصلاح تو ہونے سے رہی۔

ان معاملات پر سر سید احمد خان نے آج سے دیڑھ صدی قبل بہت کچھ لکھا۔ افسوس ہم نے ان کی نصیحت پر توجہ مرکوز نہیں کی۔

اس سے پہلے کہ میں سر سید احمد خان کے مضامین بطور دلیل پیش کروں، میں یہ واضح کردوں کہ انہوں نے دین کی تشریح کے حوالے سے بہت سی غلطیاں کیں۔ ہم ان باتوں پر ان کی پیروی کرنے کے قائل نہیں۔ لیکن اگر ان کی کچھ غلطیاں تھیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کی دوسری خدمات کو فراموش کردیں۔ دین کے لحاظ سے انہوں نے بہت سی آیات کی غلط تشریح کی، لیکن جہاں تک ہمارے سماجی اور سیاسی معاملات کا تعلق ہے، انہوں نے بالکل ٹھیک تجزیے پیش کیے۔

دو قومی نظریہ بھی ان ہی کا تحفہ تھا۔ جس کی بدولت مسلم لیگ اور مسلمانوں نے الگ مملکت کی جدو جہد کی۔ لیکن جہاں الگ مملکت کی جدو جہد پر توجہ دی گئی، وہیں سر سید کی دوسری اہم نصیحت کو بالکل بھلا دیا گیا۔ انہوں نے صرف یہ نہیں کہا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، لیکن انہوں نے کچھ نصیحتیں بھی کی تھیں اس قوم کو عظیم قوم بنانے کے لیے۔ جس عظیم مغالطے کا پچھلے مضمون میں ذکر ہے، اس کی بدولت ہم نے سر سید کے الگ ریاست یا الگ قوم کے نظریے کو تو دل سے لگا لیا، لیکن ان کی دوسری اہم نصیحتوں کو یکسر نظر انداز کردیا۔

سر سید احمد خان اس دور میں بھانپ گئے تھے کہ مسلمان اس عظیم مغالطے کا شکار ہو رہے ہیں جس کا ذکر ہم پچھلے مضمون میں کرچکے ہیں۔ لہذا انہوں نے اپنی قلم کا استعمال کرتے ہوئے کئی بار مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ اس سوچ سے دور رہیں۔

مثلاً، انہوں نے اپنے مضمون "اتحاد باہمی اور تعلیم" میں تعلیم پر ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ "کیا گورنمنٹ ایک ملک کو جس میں چوبیس پچیس کروڑ آدمی بستے ہوں تعلیم دے سکتی ہے(؟)"(ص126، مضامین سر سید احمد خان، ترتیب و تعارف: تنظیم الفردوس، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس) یہ سوال انہوں نے اس لیے پوچھا کیونکہ وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ تعلیم کے معاملے میں مسلمان حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی تعلیم کا بندوبست خود کریں۔ کیونکہ کسی بھی ملک میں مکمل طور پر ریاست ہر کسی کو تعلیم فراہم نہیں کرسکتی۔ نجی اداروں کا ہونا لازمی ہے اور بہتر بھی۔

انہوں نے پھر یہ بھی فرمایا کہ "ہندوستان میں جس فرقے کے اغراض زیادہ پورے ہوسکتے تھے۔ انہوں نے تعلیم کا زیادہ فائدہ اٹھایا۔ جن کا نام میں بتاؤں گا یعنی ہندو۔ مسلمان کو گورنمنٹ کے سر رشتہ تعلیم سے کم فائدہ پہنچا کیونکہ ان کے اغراض ہوتے کم تھے۔ یہ بات ہندوستان کے ہر حصے کے سر رشتہ تعلیم پر نظر ڈالنے سے بخوبی معلوم ہوتی ہے۔ جہاں سو برس عمل داری کو گزرے وہاں بھی کالج اور مدرسوں میں مسلمان کم ہیں اور مسلمانوں کی تعلیم کم ہوئی ہے۔ یہ گورنمنٹ کا قصور نہیں ہے، یہ ہمارا قصور ہے۔ اگر ہم تعلیم کو اپنے ہاتھ میں لیتے تو سب کچھ اچھی طرح سے کرسکتے تھے"۔ (ص126 تا 127)

یہاں سر سید احمد خان وہی بات کر رہے ہیں جو میں نےآپ سے پچھلے مضمون میں کہی۔ ریاست اور حکومت کا عمل دخل قوموں کی ترقی میں اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا ان کے اجتماعی اعمال کا ہوتا ہے۔ یہاں سر سید یہ فرما رہے ہیں کہ مسلمان اپنی تعلیمی پستی کا زمے دار کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو ٹھرائیں، کیونکہ جس حکومت کے تابع اس وقت مسلمان تھے، اسی حکومت کے تابع ہندو بھی تھے۔ جو نظام مسلمانوں کو میسر تھا، وہی نظام ہندوؤں کو بھی میسر تھا۔ لیکن ہندوؤں نے گوروں کے لائے ہوئے جدید تعلیمی نظام سے اور تجارت کے نئے طور طریقوں سےمسلمانوں کی با نسبت زیادہ فائدہ حاصل کیا۔ ہندوؤں نے انگریز کے آنے سے، جدید تعلیمی درسگاہوں کے ہندستان آنے سے، جو فائدہ اٹھایا وہ مسلمان بھی اٹھا سکتے تھے۔ لیکن ہم نے اس خوف سے کہ گورے ہمارے بچوں کو کافر بنا دیں گے، ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم اور تجارت میں ہندوؤں کی بانسبت پیچھے چھوڑ دیا۔ نتیجہ آج تک قائم ہے۔ ہندو قوم آج بھی تجارت اور تعلیم کے میدان میں ہم سے آگے ہے۔

ایک طرف سر سید مسلمانوں پر ان کی زمے داری عائد کرتے ہیں، انہیں سمجھاتے ہیں کہ بھئی! تم اپنے علاوہ کسی اور کو قصور وار مت ٹھہراؤ۔ دوسری طرف وہ مسلمانوں سے عرض کرتے ہیں کہ۔۔ خیر، آپ سر سید سے ہی سن لیجیے وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے لکھا:

"ابھی چند روز کا زمانہ گزرا ہے جب ایجوکیشن کا اجلاس کلکتہ میں ہورہا تھا اور میں بھی وہاں موجود تھا۔ سب یہی کہتے تھے کہ ہائی ایجوکیشن اٹھنے نہ پاوے۔ مگر یہ بات بہت کم کسی منھ سے سننے میں آئی تھی کہ اگر گورنمنٹ اپنا ہاتھ ہائی ایجوکیشن سے اٹھا لے گی تو ہم خود اس کو کر لیں گے۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "تم آپس میں مل کر وہ سب کچھ کرسکتے ہو جو گورنمنٹ نہیں کرسکتی۔ گورنمنٹ جب تعلیم کی طرف توجہ کرتی ہے تو سب سے پہلے ہمارے دوست فنانشل ممبر یہ دیکھتے ہیں کہ روپیہ بجٹ میں ہے یا نہیں۔ تم لوگ اگر تھوڑا تھوڑا کرکے بھی روپیہ جمع کرو تو تمھارا بجٹ کبھی خالی نہ ہوگا۔۔ اگر گورنمنٹ کچھ کرے گی تو وہ اسی روپے سے کرے گی جو ہم سے لیا جائے گا۔ اگر تم اس بات کو سوچ کر خو د ہی تعلیم کا انتظام کرو تو گورنمنٹ کو دکھا سکتے ہو اور فخر کرسکتے ہو کہ جو کام گورنمنٹ سے نہ ہوسکا وہ ہم نے خود کر دکھایا"۔ (ص127 تا 128)

آپ سوچیں، اس وقت سر سید نے وہ بات بتائی جو آج تک کوئی نہیں بتاتا۔ جیسے وہ فرما رہےہیں، اس وقت بھی اجلاسوں کا یہی حال تھا۔ لوگ جمع ہوتے تھے، حکومت کی جانب دیکھتے تھے کہ حکومت یہ کرے، حکومت وہ کرے۔ خود کچھ نہیں کرنا۔

اور جیسے کہ سر سید نے کہا، حکومت بھی ہماری ہی جیب سے پیسے نکال کر منصوبے بناتی ہے۔ بلکہ دیکھا جائے حکومت زیادہ مہنگا کام کرتی ہے اور آخر میں نتیجہ بھی صحیح نہیں نکلتا۔ وہ کام جو سب لوگ مل کر، اپنا سرمایہ جوڑ کر اپنی نگرانی میں مکمل کرسکتے ہیں، اسے کرنے کے لیے ریاست اور حکومت کو بجٹ مختص کرنا پڑتا ہے، پھر افسران کی ایک فوج اس منصوبے پر لگتی ہے، اس دوران پتہ نہیں کتنا وقت لگتا ہے اور کتنا سرمایہ افسران اور دو نمبروں کی جیب میں جاتا ہے، کتنا وقت برباد ہوتا ہے، اور آخر میں جو عمدہ نتیجہ نکلتا ہے، اس سے سب آگاہ ہیں۔

مغالطہ عظیم یہ ہے کہ لوگ حکومت سے اپنی امیدیں جوڑیں، اسی کو اپنی کامیابی اور خوشی کا ذامن سمجھیں۔ قوم اچھی ہے یا بری، اس کا دارومدار قوم کے حکمران، نظام اور قوانین سے جوڑ دیا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے، اکثر کام نجی طور پر زبردست طریقے سے ہوسکتے ہیں۔ جن بگڑے ہوئے معاملات کا دن رات ہم ذکر کرتے ہیں، انہیں ہم نجی طور پر نمٹا سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ ہم مغالطہ عظیم کا شکار ہیں، ہم حکومت سے توقع وابستہ کرتے ہیں، جس سے کام سست بھی ہوتا ہے اور دو نمبر بھی۔ صرف افسران کا بھلا ہوتا ہے اور حکمرانوں کا، جو سرکاری منصوبوں کے ذریعے اپنی جیب گرم رکھتے ہیں۔

اب سوال لوگوں کے ذہنوں میں جنم لے سکتا ہے کہ بھئی! یہ تو ساری باتیں ہیں۔ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی عملی نمونہ تو ہمیں پیش کرو۔ تو ٹھیک ہے، ہم ایسا کریں گے، لیکن اگلے مضمون میں۔ فی الحال ہمیں آپ کی اجازت چاہیے ہوگی۔ اور ہاں! ہمارے یہ مضامین پسند آئیں، دل کو لگیں، تو اپنے دوستوں اور عزیزوں میں انہیں ضرور تقسیم کیجیے گا۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔ اللہ حافظ!

Check Also

Bachpan Ki Eid

By Mubashir Aziz